Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Israel Aik Dehshat Gard Riyasat Hai

Israel Aik Dehshat Gard Riyasat Hai

اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے‎

دنیا کے نقشے پر ایک ایسا بدنما داغ موجود ہے جو مظلوموں کے خون سے لتھڑا ہوا اور طاقتوروں کی منافقت سے چمکتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں انسانیت ہر روز سسک سسک کر مرتی ہے، مگر انسانیت کے علمبردار ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ یہ خطہ فلسطین ہے اور ظلم و ستم کا سرچشمہ ہے اسرائیل، ایک ایسی ریاست جو جدید دنیا کی سب سے منظم، سفاک اور بے رحم ریاستی دہشت گردی کی نمائندہ بن چکی ہے۔

1948 میں صہیونی تحریک کی پشت پناہی سے فلسطین کی زمین پر جبری قبضے کے ذریعے جو ریاست وجود میں آئی، اس نے صرف زمینی سرحدوں پر ہی نہیں، انسانوں کے جسموں، روحوں اور خوابوں پر بھی حملہ کیا۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، عالمی اصول اور انسانی حقوق کی پامالیاں سب کچھ اس کے قدموں تلے روند دی گئیں اور عالمی ضمیر کے محافظ صرف زبانی جمع خرچ کرتے رہ گئے۔

فلسطین کے باسیوں کے لیے زندگی، زندہ رہنے کا نام نہیں بلکہ مسلسل موت کے سائے میں سانس لینے کا نام ہے۔ ہر دن ایک نیا جنازہ، ہر رات ایک نئی چیخ اور ہر آسمان پر اسرائیلی جہازوں کی گرج، یہ ہے فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی۔ مگر ستم یہ ہے کہ مغربی دنیا، خاص طور پر BBC اور CNN جیسے میڈیا ادارے، اس ظلم کو اس طرح چھپاتے ہیں جیسے کہ فلسطینیوں کا درد صحافت کے دائرہ اختیار سے باہر ہو۔

گزشتہ پندرہ برسوں میں اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور دیگر اداروں کی رپورٹیں مسلسل یہ بتا چکی ہیں کہ اسرائیل نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، بلکہ ایک پورے گروہ کو جان بوجھ کر محکوم، کمزور اور بے وطن کر رہا ہے۔ غزہ، جو کہ فلسطین کا حصہ ہے، ایک کھلی جیل میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں خوراک، دوا، پانی، بجلی، تعلیم، حتیٰ کہ سانس لینا بھی اسرائیلی اجازت سے مشروط ہو چکا ہے۔ 2023-2024 کے حملوں میں بیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے جن میں بارہ ہزار سے زائد معصوم بچے شامل ہیں۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، اسپتال، اسکول، مساجد، مہاجر کیمپ، سب کچھ ملبے میں بدل چکے ہیں۔

اسرائیلی ظلم صرف جسمانی نہیں بلکہ نفسیاتی، سماجی اور قومی شناخت کی سطح پر بھی ہے۔ جب ایک قوم کے بچوں کو یتیم، عورتوں کو بیوہ، نوجوانوں کو معذور کر دیا جائے، جب اس قوم کی زمین چھینی جائے، زبان روکی جائے، مذہب پر حملہ ہو اور پھر دنیا کی آنکھوں کے سامنے اسے "دہشت گرد" کہہ کر مزید ذلیل کیا جائے، تو یہ صرف ظلم نہیں، یہ مکمل ریاستی دہشت گردی ہے۔

مغربی میڈیا اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔ اسرائیلی بمباری سے جب غزہ کے اسپتال میں بچے کٹ کٹ کر گرتے ہیں، تو BBC کی اسکرین پر ایک اسرائیلی عورت کی چیخ سنائی دیتی ہے جو کہتی ہے کہ میرے گھر کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔ CNN پر اسرائیلی فوجیوں کی آنکھوں میں نمی دکھائی جاتی ہے، مگر ایک فلسطینی بچی جو اپنے ماں باپ کی لاشوں کے درمیان چیختی ہے، وہ کیمرے سے کاٹ دی جاتی ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے جہاں قاتل کی آنکھ سے گرتے آنسو کو "ہیومن اسٹوری" سمجھا جاتا ہے، مگر مقتول کے آنسو کو مشکوک، مشتبہ اور دہشت گردی کی علامت بنا دیا جاتا ہے؟

اسرائیل نے صرف غزہ ہی نہیں بلکہ مغربی کنارے، بیت المقدس اور حتیٰ کہ بین الاقوامی فورمز پر بھی ظلم کو نظریہ بنا لیا ہے۔ جنیوا کنونشن کے تحت شہری آبادی، بچوں، اسپتالوں اور اسکولوں کو نشانہ بنانا جنگی جرم ہے، مگر اسرائیل ہر حد پار کر چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قرارداد 242 اور 338 جو کہ اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں سے پیچھے ہٹنے کا حکم دیتی ہیں، آج محض تاریخ کے بوسیدہ صفحات پر لکھی بے معنی سطور بن چکی ہیں، کیونکہ ان پر عملدرآمد نہ ہوا اور نہ کوئی پابندی لگی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیل کو ایک نسلی امتیازی (Apartheid) ریاست قرار دیا ہے۔ ایک ایسی ریاست جو فلسطینیوں کو ان کے ہی وطن میں غلام بنا کر رکھتی ہے، ان کے گھروں پر قبضہ کرتی ہے، ان کے نوجوانوں کو بغیر کسی مقدمے کے قید میں ڈالتی ہے اور جب وہ احتجاج کریں تو ان پر گولیاں برسا دیتی ہے۔ یہ وہی اسرائیل ہے جسے امریکہ سالانہ اربوں ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے اور یورپی ممالک اپنی زبانوں سے نہیں، اپنے ہتھیاروں سے اس کی پشت پناہی کرتے ہیں۔

جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا، تو مغرب کی ساری حکومتیں اور میڈیا بیک زبان چیخ اٹھے: یہ انسانیت کا قتل ہے! مگر جب اسرائیل نے معصوم فلسطینیوں پر فاسفورس بم گرائے، جب بچوں کے اعضا ملبے سے جمع کیے جا رہے تھے، جب ماں کے سامنے اس کے بیٹے کا سر پھٹا ہوا تھا، تو یہی دنیا بولی: اسرائیل کا حقِ دفاع ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا فلسطینی انسان نہیں؟ کیا ان کا خون پانی سے بھی سستا ہے؟ یا کیا ان کے آنسو اقوامِ متحدہ کے سیشن میں پیش کیے جانے کے قابل نہیں؟

یہ سب کچھ اگر دہشت گردی نہیں تو پھر دہشت گردی کس کو کہتے ہیں؟ اگر اسرائیل ریاستی دہشت گرد نہیں تو پھر یہ اصطلاح صرف غیر ریاستی عناصر کے لیے مختص کیوں کر دی گئی ہے؟ اگر ایک ریاست بین الاقوامی قوانین توڑے، معصوموں کو قتل کرے، نسل کشی کرے، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو رد کرے اور پھر بھی اس پر کوئی کارروائی نہ ہو، تو یہ صرف انصاف کا قتل نہیں بلکہ انصاف کی قبر پر ناچنے کے مترادف ہے۔

فلسطینی بچے جو اسکول کی کتابیں پڑھنے کے بجائے کفن اوڑھ کر دفن ہو رہے ہیں، ان کی قبریں صرف زمین میں نہیں بلکہ عالمی ضمیر میں بھی کھدی جا چکی ہیں۔ ان کی چیخیں، سسکیاں اور معصوم آنکھوں کی بے بسی تاریخ کا وہ صفحہ بن چکی ہے جسے دنیا لاکھ پھاڑنا چاہے، مگر وہ خون سے لکھا جا چکا ہے۔

اور ہم، جو سچ بولنے سے ڈرتے ہیں، ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ سچ بولنا ہی سب سے پہلا جہاد ہے۔ اسرائیل ریاستی دہشت گردی کی سب سے واضح، سنگین اور تسلسل سے جاری مثال ہے۔ یہ سچ اب مزید چھپایا نہیں جا سکتا، نہ BBC کی خاموشی سے، نہ CNN کی چالاکی سے اور نہ اقوامِ متحدہ کی سرد مہری سے۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam