Irani Missile Shehar Ba Muqabil Israeli Stock
ایرانی میزائل شہر بمقابل اسرائیلی اسٹاک

دنیا ایک نئی جنگی دہلیز پر کھڑی ہے، جہاں توپوں کی آواز ٹیکنالوجی کے شور میں گم ہو چکی ہے اور سائبر سائے، میزائل کی بارشوں سے کہیں زیادہ تباہ کن ہو چکے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے دو دیرینہ دشمن، ایران اور اسرائیل، اب ایک ایسے مقام پر آن کھڑے ہوئے ہیں جہاں میزائلوں کی رفتار نفسیاتی چالوں کی گہرائی سے شکست کھا سکتی ہے۔ بین الاقوامی اخبارات کے مطابق اسرائیل کا دفاعی اسٹاک محض سات سے بارہ دن تک کے لیے باقی رہ گیا ہے، جبکہ ایران نے ایک "نفسیاتی گیم" کھیلتے ہوئے کم قیمت، کم رینج میزائلوں سے اسرائیل کی مہنگی دفاعی ڈھال کو آہستہ آہستہ خالی کرنا شروع کر دیا ہے۔
ایران نے جنگ کا آغاز کسی روایتی انداز میں نہیں کیا۔ وہ جانتا تھا کہ اسرائیل کے پاس "آئرن ڈوم"، "ڈیوڈز سلنگ" اور "ایرو" جیسے جدید دفاعی نظام ہیں، جو بیلسٹک اور کروئز میزائلوں کو تباہ کرنے میں ماہر ہیں۔ ان نظاموں کی لاگت کروڑوں ڈالر میں ہے اور ان کو فعال رکھنے کے لیے روزانہ 285 ملین ڈالر تک خرچ ہو رہے ہیں۔ ایران نے اس بات کا ادراک کر لیا کہ اگر وہ براہِ راست ہائی ٹیک ہتھیاروں سے حملہ کرے گا تو فوری ردعمل میں اس کی فوجی تنصیبات تباہ کر دی جائیں گی، لیکن اگر وہ "زہریلا دھواں چھوڑنے والی چال" کھیلے، یعنی سستے، لوکاسٹ میزائل اور ڈرونز کی بارش کرے، تو اسرائیل کا دفاع نہ صرف تھک جائے گا بلکہ اس کے مہنگے میزائل اور راڈار سسٹمز بے جا استعمال ہو جائیں گے۔
یہی کچھ ہوا۔ صرف ابتدائی دنوں میں ایران نے 400 سے زائد میزائل اسرائیل پر داغے، جن میں سے زیادہ تر کم قیمت اور مختصر فاصلے والے تھے۔ اسرائیل کو ہر ایک میزائل کو روکنے کے لیے کئی لاکھ ڈالر خرچ کرنے پڑے، جبکہ ایران کو ہر وار صرف چند ہزار میں پڑا۔ یہ معاشی عدم توازن ایران کے لیے فتح کی پہلی سیڑھی تھی۔ وہ اسرائیل کو معاشی محاذ پر ہرانے کے لیے میدانِ جنگ کو طویل اور پیچیدہ بنانا چاہتا ہے۔ وقت اس کا سب سے بڑا ہتھیار بن چکا ہے۔
ایرانی حکمت عملی کی ایک اور پرت "انتظار" اور "برداشت" ہے۔ تہران نے کئی برسوں میں زیر زمین میزائل شہروں کا جال بچھایا ہے، جن میں میزائل لانچنگ پیڈز، سپلائی چینز اور موبائل لانچرز چھپائے گئے ہیں۔ کرمانشاہ، تبریز، یزد اور دیگر مقامات پر موجود یہ تنصیبات نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ اسرائیلی حملوں سے اب تک کافی حد تک بچی رہی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق ایران اب تک اپنے زیادہ تر "اسٹریٹیجک ہتھیاروں" کو استعمال نہیں کر رہا۔ وہ پہلے اسرائیل کو دفاعی لحاظ سے تھکانا چاہتا ہے اور جب وہ مکمل طور پر دباؤ میں آ جائے، تب ایران اپنے زیادہ تباہ کن، ہائی پریسجن بیلسٹک میزائل استعمال کرے گا۔ یہ چال نہ صرف جنگ کو طویل کرے گی بلکہ اسرائیل کو داخلی سطح پر بھی اقتصادی اور عوامی دباؤ میں ڈال دے گی۔
دوسری جانب اسرائیل، جس کا شمار دنیا کی جدید ترین فوجی اقوام میں ہوتا ہے، ایک غیر متوقع دباؤ کا شکار ہے۔ اس کے دفاعی نظام بظاہر مضبوط، مگر مہنگے اور محدود ہیں۔ ایرو میزائلز کی تعداد محض چند سو تک محدود ہے اور رپورٹس کے مطابق موجودہ رفتار سے صرف بارہ دن میں ان کا ذخیرہ ختم ہو سکتا ہے۔ جنگی اخراجات کے روزانہ 285 ملین ڈالر تک پہنچنے سے اس کی معیشت پر ایک دباؤ محسوس ہونے لگا ہے۔ جنگ جتنی لمبی چلے گی، اسرائیل کو اتنا ہی زیادہ قرض، عوامی غصے اور بین الاقوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس کے علاوہ ایران نے نفسیاتی جنگ کا ایسا جال بچھایا ہے کہ اسرائیل ہر وار پر ردعمل دینے پر مجبور ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ کب اصلی میزائل آئیں گے، کب صرف دھوکہ ہوگا اور کب اس کے دفاعی نظام بے اثر ہو جائیں گے۔ یہی وہ کشمکش ہے جو کسی بھی مضبوط ملک کو اندر سے کھوکھلا کرنے کے لیے کافی ہے۔ اسرائیل کے پاس ابھی تکنیکی برتری موجود ہے، لیکن اگر جنگ طویل ہوگئی اور ایران نے اپنے زیرِ زمین اسٹاک سے بڑے پیمانے پر حملے شروع کیے تو یہ برتری ریت کی دیوار بن سکتی ہے۔
ایران کی یہ حکمت عملی صرف فوجی نہیں بلکہ معاشی، سماجی اور نفسیاتی محاذوں پر بھی مبنی ہے۔ اسرائیل کے ہر راکٹ شکن حملے سے اس کی جیب پر بوجھ بڑھتا جا رہا ہے، جبکہ ایران کے ہر وار سے اس کے اندرونی نظام پر بے یقینی کا سایہ گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ یوں یہ جنگ اب میدان میں نہیں، بلکہ اعصاب، ذخائر اور حوصلے کی جنگ بن چکی ہے۔ یہ وہ جنگ ہے جس میں گولی نہیں، وقت مارتا ہے، جس میں توپ نہیں، انتظار تباہی لاتا ہے اور جس میں فتح ان کی نہیں جو زورور ہوں، بلکہ ان کی ہے جو دیر تک کھڑے رہ سکیں۔
وقت اب فیصلہ کرے گا کہ سات دن کا اسٹاک پہلے ختم ہوگا یا زیرِ زمین صبر کی آزمائش پوری ہوگی۔ لیکن یہ واضح ہے کہ یہ جنگ ایک نئی طرز کا آغاز ہے، جہاں ایک فریق شور میں بکھرنے لگا ہے اور دوسرا خاموشی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

