Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Iran Ke Baad Pakistan

Iran Ke Baad Pakistan

ایران کے بعد پاکستان‎

خدانخواستہ اگر کل وہ دن آ جائے جس کا خدشہ آج کچھ ہوش مند اذہان دے رہے ہیں، یعنی ایران کے اندر کوئی ایسی حکومت برسراقتدار آ جائے جو امریکہ اور اسرائیل کی مکمل حمایت یافتہ ہو، تو یہ محض ایران کا داخلی مسئلہ نہیں رہے گا، بلکہ پورے خطے کے لیے ایک سیاسی زلزلے سے کم نہ ہوگا۔ آج جو خلیجی ریاستیں ایران کے خلاف سازشوں میں واشنگٹن کے ساتھ کھڑی ہیں، کل وہی ریاستیں اس نئی ایران دشمن آگ کی پہلی لپیٹ میں آئیں گی۔ مگر اصل ہدف، اصل نشان، اصل شکار، پاکستان ہوگا۔

یہ محض سیاسی قیاس نہیں بلکہ سامراجی چالوں کی صدیوں پرانی تاریخ کا نتیجہ ہے، جسے اگر ہم نے نہ پڑھا، نہ سمجھا اور نہ اس کا مقابلہ کیا، تو انجام وہی ہوگا جو عراق، لیبیا، شام اور افغانستان کے حصے میں آیا۔ فرق صرف یہ ہوگا کہ ہمارے پاس ایٹم بم ہوگا، مگر اس کا بٹن شاید ہمارے ہاتھ میں نہ رہے۔

ایران صرف ایک ملک نہیں، ایک نظریہ ہے۔ ایک مزاحمتی سوچ، جو پوری دنیا میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کھڑے ہونے کی علامت بن چکی ہے۔ اگر اس نظریے کو جڑ سے کاٹنے کے لیے امریکہ اور اسرائیل کو اندرونی طور پر ایران میں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کا موقع مل گیا، تو یہ جیت صرف صہیونیت کی نہیں ہوگی، بلکہ یہ شکست ہوگی مشرقِ وسطیٰ، وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کے تمام غیرتمند مسلمانوں کی۔ کیونکہ اس کے بعد دشمنوں کو اپنی راہ میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آئے گی۔

ایران کی سرزمین صرف تیل، گیس اور جوہری ٹیکنالوجی کی حامل نہیں، بلکہ یہ ایک جغرافیائی شاہ کلید ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سے لے کر قفقاز تک اور افغانستان سے لے کر بحیرۂ عرب تک، ایران کا جغرافیہ ایک ایسا مرکز ہے جو اگر مغرب کے ہاتھ آ جائے، تو روس، چین، پاکستان اور حتیٰ کہ ترکی جیسے ممالک کے لیے مکمل گھیراؤ ممکن ہو جاتا ہے۔ یہی وہ منصوبہ ہے جو نیو ورلڈ آرڈر کے ماسٹر پلان میں کئی دہائیوں سے شامل ہے۔

ایران کے بعد اگلا مرحلہ خلیجی ممالک ہوں گے۔ ان ممالک نے وقتی مفادات، بادشاہی تحفظ اور تیل کے سودوں کی خاطر امریکہ کے قدم چومے، اسرائیل سے تعلقات قائم کیے اور ایران دشمن اتحاد کا حصہ بنے۔ مگر تاریخ شاہد ہے کہ سامراج دوست کبھی محفوظ نہیں رہتا۔ جب امریکہ اپنے مفادات کی تکمیل کر لیتا ہے، تو سب سے پہلے وہ انہی مہرے حکمرانوں کو روندتا ہے جنہیں وہ برسوں تک استعمال کرتا رہا ہوتا ہے۔ صدام حسین، حسنی مبارک، قذافی، کیا یہ سب امریکہ کے ہی دوست نہیں تھے؟

جب ایران پر قبضہ مکمل ہو جائے گا، تو خلیجی ریاستیں دوسرا ہدف ہوں گی، تاکہ اسرائیل کے لیے "گریٹر اسرائیل" کا خواب مزید قریب ہو جائے۔ مگر اصل جنگ اس کے بعد پاکستان کی طرف آئے گی۔ کیونکہ ایران کے زوال کے بعد پاکستان کی مغربی سرحدیں بھی غیر محفوظ ہو جائیں گی اور افغانستان کی طرح ایران بھی ایک سامراجی بیس کی صورت اختیار کرے گا، جہاں سے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو گھیرنے کا، اس کی فوجی قیادت کو تقسیم کرنے کا اور اس کی داخلی سیاست کو مزید غیر مستحکم کرنے کا کام لیا جائے گا۔

پاکستان اس وقت تین طرف سے گھرا ہوا ہے۔ مشرق میں ایک دشمن، بھارت، جس کے ساتھ ہر وقت جنگ کی فضا رہتی ہے۔ مغرب میں افغانستان، جہاں امریکی اور بھارتی اثر و رسوخ اب بھی موجود ہے۔ اگر ایران بھی اسی صف میں آ گیا تو پاکستان کا مکمل اسٹریٹیجک گھیراؤ مکمل ہو جائے گا۔ ایسے میں پاکستان کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں، یا تو کھل کر مزاحمت کرے، یا اپنی تدفین کا بندوبست خود کر لے۔

پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ اس کی ایٹمی صلاحیت ہے، جس پر امریکہ و اسرائیل کی نظریں ایک مدت سے جمی ہوئی ہیں۔ انہیں سب سے زیادہ خطرہ ان ہتھیاروں سے ہے، نہ صرف اس لیے کہ یہ ہتھیار مسلم دنیا کے واحد ایٹمی ہتھیار ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ یہ ان کے خوابوں کی اسرائیلی بالادستی کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر ایران سے ایک نیا دشمنی کا محاذ کھول کر پاکستان کو کمزور کر دیا جائے اور اندرونی خلفشار، سیاسی انتشار اور اقتصادی زبوں حالی کو مزید بڑھا دیا جائے، تو عالمی طاقتیں ایٹمی اثاثوں کے نام پر پاکستان پر چڑھ دوڑنے کا جواز حاصل کر لیں گی۔

یہ سب کچھ اگر ہمیں قیاس یا سازشی مفروضہ لگتا ہے، تو شاید ہمیں شام کی حالت دیکھنی چاہیے، یا لیبیا کی تباہی کو یاد کرنا چاہیے۔ کیا ان ممالک میں بھی جمہوریت، انسانی حقوق، یا عالمی امن کے نام پر مداخلت نہیں کی گئی؟ اور کیا انجام وہی نہیں ہوا جس سے آج ہم خائف ہیں؟

آج کا دور فیصلہ کن ہے۔ یا تو ہم وقت سے پہلے سنبھل کر اپنے اتحاد، خارجہ پالیسی اور اسٹریٹیجک ترجیحات کو درست کر لیں، یا پھر وقت ہمارے حصے میں ذلت، غلامی اور بقا کی بھیک لے آئے گا۔ پاکستان کو اب دوستیوں کے درمیان سے راستہ نکالنے کا کھیل چھوڑنا ہوگا۔ اب وقت آ چکا ہے کہ ہم کھل کر فیصلہ کریں کہ ہم ظلم کے ساتھ کھڑے ہیں یا مظلوم کے ساتھ۔

ایران کا دفاع پاکستان کی جغرافیائی، نظریاتی اور اسٹریٹیجک سلامتی کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر ایران پر حملہ ہوتا ہے، تو اس کا مطلب پاکستان کے دروازے پر جنگ کی دستک ہے۔ ہمیں خلیج کی طرح تماشائی بننے کے بجائے ایک فعال مزاحمتی کردار ادا کرنا ہوگا، کیونکہ دشمن کی چال یہی ہے کہ مسلمان ممالک ایک دوسرے سے کاٹ دیے جائیں اور جب وہ تنہا ہوں تو انہیں ایک ایک کرکے کچل دیا جائے۔

اگر آج ہم نے ایران کے حق میں آواز نہ اٹھائی، تو کل کوئی ہمارے حق میں آواز نہیں اٹھائے گا۔ اگر آج ہم نے اس محاذ پر صرف خاموشی اختیار کی، تو کل یہ خاموشی ہمارے بچوں کی غلامی میں تبدیل ہو جائے گی۔

یہ فیصلہ کن لمحہ ہے۔ ایک ایسا وقت جہاں "neutrality" خودکشی کے مترادف ہے۔ امریکہ اور اسرائیل صرف ایران کو نہیں مٹا رہے، بلکہ مزاحمت کے ہر امکان کو ختم کر رہے ہیں۔ ان کا ہدف وہ تمام طاقتیں ہیں جو ان کے عالمی تسلط کے راستے میں کھڑی ہیں اور ان طاقتوں میں پاکستان ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔

آج پاکستان کا مفاد اس میں نہیں کہ وہ خلیجی بادشاہتوں کی خوشنودی کے لیے خاموش رہے، بلکہ اس میں ہے کہ وہ ایک واضح، دوٹوک اور غیر مبہم پوزیشن لے۔ ایران کا ساتھ دینا محض ایک مذہبی یا مسلکی تقاضا نہیں، بلکہ ایک اسٹریٹیجک مجبوری ہے، ایک جغرافیائی ضرورت ہے اور ایک قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔

اگر پاکستان نے اس لمحے بھی اپنے دشمنوں کو خوش رکھنے کی روش اپنائی، تو کل نہ ایران بچے گا، نہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے، نہ کشمیر کا مقدمہ اور نہ آزاد خارجہ پالیسی۔ کل ہم بھی شاید کسی واشنگٹن یا دہلی کے خیرات پر چلنے والے "نئے پاکستان" میں زندگی گزار رہے ہوں گے، جہاں نہ نظریہ ہوگا، نہ غیرت، نہ خودداری۔

وقت کی پکار ہے: یا تو ہم ایران کا ساتھ دے کر دشمن کے سامنے بند باندھ دیں، یا پھر اپنی موت کا خود انتظار کریں۔ تاریخ گواہی دے گی کہ جب ایک امت پر فیصلہ کن لمحہ آیا تھا، تو اس کے رہنماؤں نے کیا چنا؟ جبر یا جرأت؟ غلامی یا غیرت؟ خاموشی یا قیام؟

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali