Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Nusrat Abbas Dassu/
  4. Imam Khomeini Ka Mubarza

Imam Khomeini Ka Mubarza

امام خمینی کا مبارزہ

امام خمینی 20 جمادی الثانی روزِ ولادت حضرت سيدة نساء العالمین فاطمہ زہراؑ کے شہر خمین میں پیدا ہوۓ۔ آپ کے والد حضرت آیۃ اللہ شہید سید مصطفی موسوی نے حضرت آیۃ اللہ میرزاۓ شیرازی کے زمانے میں نجف اشرف اور سامرا میں اپنی تحصیلات کو مکمل کیا آپ کا شمار اپنے زمانے کے بزرگ علما اور مجتہدین میں ہوتا تھا، شہر خمین اور اطراف کے راستے گولی کا نشان بن کر شہید ہوئے۔ ان کو نجف اشرف منتقل کر دیا گیا اور وہیں دفن کئے۔

حضرت امام خمینی کی سرپرستی ان کی "پھوپھی" صاحبہ اور مادر محترم بانو ہاجرہ نے کی، آپ کی پھوپھی اور ماں کا انتقال 1332 میں ہوا۔ آپ نے اپنے گھر سے تعلیم کا آغاز کیا معلم میرزا محمود سے پڑھنا سیکھا۔ 15 سال کی عمر میں فارسی کی تعلیم کو مکمل کیا، علوم اسلامی کو اپنے بڑے بھائی آیۃ اللہ پسندیدہ سے شروع کیا علم صرف، نحو اور منطق انھیں سے پڑھتے رہے اور 1339ھ ق میں تکمیل تعلیم کے لئے عراق چلے آۓ۔

اس وقت حوزہ علمیہ عراق کو دیگر حوزات علمیہ کی طرف سے مرکزیت حاصل تھی اور حضرت آیۃ اللہ مرحوم حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی اس کے زعیم تھے۔ حضرت آیۃ اللہ مرحوم حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی نے نجف اشرف میں حضرت آیت اللہ اعظمی مرحوم سید فشار کی اور میرزاۓ شیرازی بزرگ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

جس وقت مرحوم حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی شہر قم کے علما کی فرمائش پر 1340 میں عراق سے قم تشریف لے آۓ تو امام خمینی بھی اپنے استاد کے ساتھ قم المقدسہ چلے آئے۔ یہاں آ کر آپ نے حضرت آیۃ اللہ علی شاہ آبادی اور حضرت آیت الله اعلمی مرحوم حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی کی شاگردی کی اور بہت کم مدت میں درجہ اجتہاد پر فائز ہو گئے۔

معاشرہ میں ظلم و استبداد، بدکاری و بے راہ روی کو دیکھتے ہوئے طالب علمی سے ہی امام خمینی کے دل میں قوم کی خدمت کے ساتھ ساتھ اس کو نجات دلانے کی فکر تھی۔ فقہ و کلام اور عرفان کی کتابوں کی تصنیف و تالیف اور پھر حوزہ علمیہ قم میں شاگردوں کی تربیت ایک بہترین قیادت کی نشاندہی ہے لیکن دوسرا اہم دور جو اس کے بعد کا ہے وہ 1357 ہجری شمسی سے 1328 شمسی کا ہے۔

جس میں زندان، ہجرت، جلا وطنی اور قوم کے جوانوں کی شہادت کے ساتھ ساتھ اپنے نورِ نظر شہید مصطفیٰ خمینی کی شہادت بھی ہے لیکن اس کے باوجود امام خمینی اپنے پیغامات کے ذریعہ نہضت و انقلاب کو کامیاب بنانے کی مہم میں لگے رہے اور وہ وقت بھی آیا کہ انقلاب کامیاب ہوا اور حکومت قائم ہوئی اور پھر زمام حکومت کو آخری وقت تک سنبھالے رہے۔

تاریخ انبیا و مرسلین پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی افکار و نظریات کو نشر کرنے کے لئے انھوں نے اپنی جانب سے سفیروں اور وفود کو بھیجا۔ ان کے نام خطوط لکھے اور دعوت توحید بھی دی۔ انھیں کی سیرت پر عمل کرتے ہوۓ رہبر انقلاب اسلامی اور جمہوری اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی نے سابق سوویت یونین کے صدر و رہبر میخائیل گورباچوف کے نام ایک خط بتاریخ کم جنوری 1989 کو لکھا۔

یہ خط ایک کمیٹی کے ذریعہ بھیجا گیا جس کی سر پرستی ایک مشہور فلسفی مفکر اور حوزہ علمیہ قم کے استاد جناب آیۃ اللہ شیخ جوادی آملی کر رہے تھے، ماہ جنوری 1989ء کو روس کے دارالحکومت، ماسکو میں یہ وفد پہنچا اور دوسرے ہی دن دو گھنٹہ پانچ منٹ تک قصر کرملین میں روس کے صدر سے ملاقات رہی۔ اس وفد کے جانے اور مخفی پیغام نے ایک بار پھر دنیا بھر کے عمومی افکار کے دھارے کو انقلاب اسلامی اور اس کے عظیم رہبر کی جانب موڑ دیا۔

جہاں استکباری و استعماری طاقتوں کا پروپیگنڈا یہی تھا کہ انقلاب اسلامی اب ایران کی سرحدوں کے اندر ہی مقید ہو کر رہ جاۓ گا اور باہر اس کے کوئی اثرات نہ ہونگے مگر اس خط اور وفد کے جانے نے تمام سیاسی مفکروں اور مبصروں کو اپنی جانب موڑ لیا، اس پیغام کو اگرچہ روس کے عمومی افکار سے پوشیدہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر یہ خط مسلمان جوانوں کے درمیان اتنا زیادہ مقبول ہوا جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

مسلمان نشیں ریاستوں کے باشندوں میں بیداری کی لہر دوڑی اور اسلام کی طرف تحقیق و جستجو کی ایک فضاء قائم ہوئی، روس کے مسلمان جوانوں نے خفیہ طور پر اس خط کے لاکھوں نسخہ تیار کر کے پورے ملک میں شائع کئے۔ حضرت امام خمینی کا مقصد سابق سوویت یونین کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں تھیں بلکہ ان کا مطلب اسلام کے آفاقی پیغام اور انہی معارف سے دور انسانوں کو حقائق سے آگاہ کرنا تھا، اس تاریخی خط کا مطلب ستر سال تک ایک خاص فکر کی غلامی میں جکڑے انسانوں کو آزادی کا پیغام دینا تھا۔

اس کے ذریعہ فطرت بشر کی مطلوبہ پیاس کو بجھایا گیا۔ جس کا اثر آج دیکھا جا رہا ہے کہ کمیونزم کی قطعی شکست ہوئی اور مشرقی سپر پاور کے زیر اثر حکومتوں میں اسلام اور قرآن کی تعلیمات آزادانہ طور سے ہونے لگی، ان حکومتوں میں اسلامی رنگ اور عوام میں مذہبی بیداری کے نقوش ظاہر ہونے لگے۔ یہ خط واقعی اپنی نوعیت کے لحاظ سے انقلاب اسلامی کو وادی کفر و شرک میں برآمد کرنے کا سبب ٹھہرا۔

حضرت امام خمینی کا یہ خط تفصیلی ہے جس کے فارسی متن کے بعض اقتباسات کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔ امام خمینی تحریر فرماتے ہیں:

"آپ کے ملک کی اصل مشکل مالکیت، اقتصاد اور آزادی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ آپ کی تمام پریشانیوں کی اصل جڑ خدا پر اعتقاد نہ ہونا ہے، وہی مشکل جس نے مغرب کو بھی تباہی و بربادی کی انتہا تک پہنچا دیا ہے اور پہنچا کے رہے گی۔ آپ کی اصل مشکل مبداء وجود ہستی، خداوند عالم کے مقابلہ میں ایک عرصہ سے جاری فضول ٹکراؤ ہے"۔

بات کو آگے بڑھاتے ہوئے حضرت امام خمینی "تحریر فرماتے ہیں ":

"اب اس کے بعد کمیونزم کو دنیا کی سیاسی تاریخ کے عجائب گھروں میں ڈھونڈھنا پڑے گا کیونکہ مارسیس نظریہ انسان کی واقعی ضروریات کو پورا کرنے سے قطعی قاصر ہے۔ اس لئے کہ یہ ایک مادی نظریہ ہے اور آج مشرق و مغرب کا معاشرہ جس بنیادی بیماری میں مبتلا ہے وہ بشریت کا معنویت پر عدم اعتقاد ہے اور اس بحران سے بشریت کو مادیات کے ذریعہ نجات نہیں دلائی جا سکتی۔ گورباچوف نے جو تھوڑی سی چھوٹ بعض ریاستوں میں دی اس کی تعریف کرتے ہوۓ امام فرماتے ہیں:

"جس وقت آپ کی بعض جمہوری ریاستوں میں واقع مسجدوں کے گلدستہ اذان سے اللہ اکبر اور حضرت پیغمبر ختمی مرتبت ﷺ کی گواہی کی صدا ستر سال کے بعد سنی گئی خالص اسلام محمدی کے بھی طرفداروں کی آنکھوں میں وفور شوق سے آ نسو نکل آۓ"۔

روسی مفکرین اور دانشمندوں کو اسلامی فلسفہ کی تعلیمی دعوت دیتے ہوۓ فرماتے ہیں:

"آپ اپنے بزرگ دانشمندوں کو حکم دیں کہ وہ صدر المتالہین کی حکمت متعالیہ کا مطالعہ کریں تو ان کو معلوم ہو گا کہ حقیقت علم وہی وجود محض ہے جو مادہ سے مجرد ہے اور اس طرح کی فکر مادہ سے مبرا ہے اور احکام مادہ اس پر جاری نہیں ہو سکتا۔ عارفین کی کتابوں سے خاص طور پر محی الدین عربی کے مباحث سے آپ واقف ہونا چاہتے ہوں تو چند ذہین و باخبر افراد کو، جو اس قسم کے علم میں مہارت تامہ رکھتے ہوں قم روانہ فرمایئے تا کہ چند سال خدا پر بھروسہ کر کے بال سے بھی زیادہ باریک و لطیف عرفانی منازل سے آگاہی حاصل کر یں کیوں کہ علم و آگہی کا یہ سفر طے کئے بغیر وہاں تک رسائی نا ممکن ہے۔

اسلام کی آفاقیت اور عالمگیری پیغام نجات کو امام خمینی یوں تحریر فرماتے ہیں: "ان مسائل و مقدمات کے ذکر کے بعد اب میں آپ سے یہ چاہتا ہوں کہ آپ پوری سنجیدگی کے ساتھ اسلام کے بارے میں تحقیق تفحص کریں۔ یہ خواہش اس لئے نہیں کہ اسلام و مسلمین آپ کے محتاج ہیں، بلکہ اسلام کے آفاقی عظیم اقدار کی بنا پر ہے جو تمام قوموں کی نجات کا سبب اور باعث آرام و سکون ہے اور یہی بشری، بنیادی مشکلات کی گرھیں کھول سکتا ہے"۔

روسی سربراہ نے اس پیغام کی عظمت کو واضح کرنے کے لئے کہا:

"میرے لئے یہ بات باعث فخر ہے کہ میں دنیا کا پہلا قائد ہوں کہ امام خمینی نے میرے لئے پیغام روانہ فرمایا ہے۔

نمائندگان امام سے کمیونسٹ لیڈر نے کہا:

"آپ لوگ امام خمینی تک یہ اطلاع پہنچا دو کہ ہم بہت جلد روس میں آزادی ایمان کا قانون پاس کرنے والے ہیں"۔

امام خمینی نے ہمیشہ دینِ اسلام کی خدمت کی اور کبھی بھی دشمن سے نہیں گھبراۓ، آپ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے نمونہ حیات تھے۔ جس وقت زبان قلم خاموش تھی اہل سخن کی زبانوں پر پہرا ہونے کے باعث ان کے دم گھنے جا رہے تھے، ہر چیز پر پابندی تھی اسلام ایران کی سرحدوں پر دم توڑ رہا تھا۔ امریکہ اور دیگر اسلام دشمن ممالک اسلام کو زندہ درگور کر دینا چاہتے تھے ایسے بگڑے ہوۓ ماحول میں آپ نے حق کے اظہار اور باطل کی تردید سے ذرہ برابر دریغ نہیں کیا۔

یہی وجہ تھی کہ جب آپ نے 3 جون 1989ء رات کے وقت اس دنیا سے رحلت کی تو ملت اسلامیہ خون کے آنسو رو رہی تھی ہر گھر ماتم کدہ بنا ہوا تھا۔ ملک و بیرونِ ملک اسلام کے چاہنے والوں نے فرش عزا کا اہتمام کر کے ان کی رحلت کو شدید رنج و غم سے تعبیر کیا، حوزہ علمیہ قم میں زیر تعلیم ملک و بیرون ملک کے طلبا اور ایران کی کل آبادی کے پانچویں حصہ نے آپ کی نماز جنازہ اور تشیع جنازہ میں شرکت کی۔ اسی طرح جس وقت آپ پیرس سے ایران آئے تھے تو تقریباََ چھ ملین افراد نے استقبال کیا لیکن نماز جنازہ میں تقریباََ نو ملین افراد نے شرکت کی اور اپنی عقیدت کا ثبوت دیا۔

(اقتباس نقوش فقیہ: استاد سید شمشاد حسین رضوی)۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Pyara Herry

By Saira Kanwal