Imam Hussain Ghair Muslimon Ki Nazar Main
امام حسین علیہ السلام غیر مسلموں کے نظر میں
معرکہ کربلا اسلامی تاریخ کا ایک حساس اور دلخراش باب ہے۔ جہاں پر کفر اور اسلام کی لڑائی نہیں تھی بلکہ ایک طرف خلافت کے دعویدار یزید کی افواج تھیں تو دوسری طرف نواسہ رسول امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام تھے۔ فوج یزید نے چھ ماہ کے بچے سے لے کر 80 سالہ بزرگ تک پر تلوار چلائی اور جسموں کو گھوڑوں کے پاؤں تلے پامال کیا، قیام گاہوں کو جلایا گیا خواتین کے سروں سے چادریں چھین لی گئی اسیری کے طوق پہنائے گئے یہی نہیں بلکہ راستے میں میلے لگے اسیروں کو نمائش کیلئے پیش کیا گیا اور اسیروں کو قید خانے کے بجائے درباروں میں لے جایا گیا اس مظالم سے بھری داستان کو جس نے بھی پڑھا ان کے آنسو اشکبار ہو گئے۔
کربلا ایک تحریک ہے جو یہ سبق دیتی ہے کہ نظام ظلم کے خلاف قیام کرو کیا فرق پڑتا ہے کہ اس راہ میں قتل کئے جاؤ کیونکہ سعادت مندی اور عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔ بس کربلائی بنے کے لیے بیدار روح کا ہونا ضروری ہے امام حسین کے 72 ساتھی شوق سے قتل گاہ عشق میں قتل ہو گئے کربلا مسلک سے بالاتر ہے کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وحب کی نو مسلم ماں نے اپنے جوان سال بیٹے کے سربریردہ کو اٹھا کر لشکر یزید کی طرف پھینک دیا اور کہنے لگی جو ہم راہ خدا میں دے دیتے ہیں واپس نہیں لیتے۔ راہ حسین کو اپنانے والا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے نومسلم خاتون نے پہلے مذہب کے بت کو توڑا پھر فکر کو بندشوں سے آزاد کیا اور حریت فکری نے ہی اسے اس کام پر آمادہ کیا۔ آج بھی حریت پسند سماج مذہب سے بالاتر ہوکر حسین کو پیشوا مانتا ہے۔ غیر مسلم نے بھی امام حسین کو استعارہ امن قرار دیا یہاں پر چند غیر مسلم دانشور فلاسفرز و شعراء کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے امام حسین کو خراج عقیدت پیش کیا۔
مینڈیلا کے لئے کربلا و امام حسین ؑؑآئیڈیل ہے۔ افریقہ کو آزادی اور حریت اور نسلی امتیاز کا خاتمہ کرنے والے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا نے اپنی کامیابی کا سہرا امام حسین ع اور کربلا کو آئیڈئل قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جب جیل میں میں یعنی نیلسن منڈیلا کی اسیری بیس سال سے زائد ہوئی تو ایک رات میں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ کل صبح حکومت کے تمام تر شرائط مان کردستخط کرکے تسلیم ہو جاؤ، لیکن اچانک اسی رات مجھے کربلا اور امام حسین کی یاد نے ہمت باندھی کہ جب امام حسین نے کربلا میں نامناسب حالات کے باوجود ظلم و یزیدیت کی بیعت نہیں کی تو میں نیسلن منڈیلا کیوں ظلم کے آگے تسلیم ہو جاؤ اسلئے میری کامیابی کا راز کربلا اور امام حسین کو آئیڈئل قرار دینا ہے۔۔
لبنان سے تعلق رکھنے والے عیسائی سکالر انٹویا بارا کہتے ہیں۔ کہ اگر ہمارے ساتھ حسین(امام حسینؑ) جیسی ہستی ہوتی تو ہم دنیا کے مختلف حصوں میں امام حسینؑ کے نام کا پرچم لے کر مینار تعمیر کرکے لوگوں کو عیسائیت کی طرف بلاتے، لیکن افسوس عیسائیت کے پاس حسین نہیں۔
انگلستان کے مشہور سکالر و ناول نگارچارلس ڈکسن کہتے ہیں کہ میں نہیں سمجھتا کہ حسین(امام حسینؑ) کو کوئی دنیاوی لالچ تھی یا اگر ایسا ہوتا تو حسین(امام حسینؑ) اپنا سارا خاندان بچے و خواتین کیوں دشت کربلا میں لاتے۔ کربلا میں بچوں و خواتین سمیت آنا یہ ثابت کرتا ہے کہ حسین(امام حسینؑ) نے فقط اسلام اور رضائے الہی کے لئے قربانی دی۔
ع۔ ل۔ پویڈ لکھتے ہیں:حسین(امام حسینؑ)نے یہ درس دیا ہے کہ دنیا میں بعض دائمی اصول جیسے عدالت، رحم، محبت وغیرہ پائے جاتے ہیں کہ جو قابل تغیر نہیں ہیں۔ اور اسی طریقے سے جب بھی کوئی برائی رواج پھیل جائے اور انسان اس کے مقابلے میں قیام کرے تو وہ دنیامیں ایک ثابت اصول کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ گذشتہ صدیوں میں کچھ افراد ہمیشہ جرأت، غیرت اور عظمت انسانی کو دوست رکھتے رہے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ آزادی اور عدالت، ظلم و فساد کے سامنے نہیں جھکی ہے۔ حسین(امام حسینؑ) بھی ان افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے عدالت اور آزادی کو زندہ رکھا۔ میں خوشی کا احساس کر رہا ہوں کہ میں اس دن ان لوگوں کے ساتھ جن کی جانثاری اور فداکاری بے مثال تھی شریک ہوا ہوں اگرچہ ۱۳ سو سال اس تاریخ کو گزر چکے ہیں۔
امریکہ کا مشہور ومعروف مورخ اپرونیک، واشنگٹن سے لکھتا ہے۔ حسین(امام حسینؑ) کے لیے ممکن تھا کہ یزید کے آگے جھک کر اپنی زندگی کو بچا لیتے۔ لیکن امامت کی ذمہ داری اجازت نہیں دی رہی تھی کہ آپ یزید کو ایک خلیفۃ المسلمین کے عنوان سے قبول کریں انہوں نے اسلام کو بنی امیہ کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ہر طرح کی مشکل کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیا۔ دھوپ کی شدت تمازت میں جلتی ہوئی ریتی پر حسین(امام حسینؑ) نے حیات ابدی کا سودا کر لیا، اے مرد مجاہد، اے شجاعت کے علمبردار، اور اے شہسور، اے میرے حسین(امام حسینؑ۔
برصغیر کے معروف رہنما مہاتما گاندھی کہتے ہیں۔۔ کہ اسلام بذور شمشیر نہیں پھیلا بلکہ اسلام حسین(امام حسینؑ) کے قربانی کی وجہ سے پھیلا اور میں نےحسین(امام حسینؑ) سے مظلومیت کے اوقات میں فتح و کامرانی کا درس سیکھا ہے۔
چلی کے مصنف و ناولسٹ رابرٹو بولانوں کا کہنا ہے امام حسینؓ کو شہید کرنا بنو امیہ کی وہ غلطی جس سے ان کا نام و نشان مٹ گیا۔
معروف برطانوی ادیب فریا اسٹارک کئی کتابوں کی مصنف ہیں 1934ء میں عراق کے بارے میں انہوں نے ایک سفر نامہ "دی ویلی آف حسینؓ " لکھا کہ امام حسینؓ نے جہاں خیمے لگائے وہاں دشمنوں نے محاصرہ کر لیا اور پانی بند کر دیا۔ یہ کہانی آج بھی اتنی ہی دلگیر ہے جتنی 1275 برس پہلے تھی۔ کربلا ان واقعات میں سے ایک ہے جس کو پڑھ کر کوئی روئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
مشہور انگریزی ناول نگار چارلس جان ہفم ڈکنزن کہتا ہے امام حسینؓ کی جنگ مال و متاع اور اقتدار کے لئے نہیں تھی اگر ایسا ہوتا تو وہ خواتین اور بچوں کو ساتھ لے کر کیوں جاتے۔ وہ ایک مقصد کے لئے کربلا گئے۔ اور ان کی قربانی اسلام کے لئے تھی۔
کیمبرج یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر ایڈورڈ جی برائون کے حوالے سے لٹریری ہسٹری آف پرشیا میں لکھا ہے۔ کربلا کا خون آلود میدان یاد دلاتا ہے کہ وہاں خدا کے پیغمبرؐ کا نواسہ اس حال میں شہید کیا گیا جب وہ بھوکے و پیاسے تھے اور اس کے ارد گرد ان کے لواحقین کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔
پرتپال سنگھ بیتاب نے عمدہ مرثیے کہے ہیں، اسی طرح امر سنگھ جوش بھی اپنے انداز میں سید الشہداؑ کو نذرانہ عقیدت مسدس کے اشعار میں یوں پیش کرتے ہیں،
ظالموں کے اتنے جھانسوں میں بھی تو آیا نہیں
دیکھ کر طاقت کو تیرا دل بھی گھبرایا نہیں
دولت ِ دنیا کے آگے صبر جھک پایا نہیں
زندگی ٹھکرائی تو نے عزم ٹھکرایا نہیں
دوسروں میں ایسی جرات کی فراوانی کہاں؟
سارے عالم میں بھلا تیری سی قربانی کہاں؟
چرن سنگھ چرن امام حسینؑ کے آسرے کو منزل ِ مراد سمجھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ
لیا خیال کا جب تیرے آسرا میں نے
ہوا یقیں کہ منزل کو پا لیا میں نے
خدا کرے کہ مجھے خواب میں حسینؑ ملیں
تمام رات اندھیروں میں کی دعا میں نے
ایک اور غیر مسلم شاعر سردار جسونت سنگھ راز چونتروی لکھتے ہیں،
وہ یاد آتے ہی ہو جاتی ہیں آنکھیں اشکبار اب بھی
زمیں ہے مضمحل اب بھی، فضا ہے لالہ زار اب بھی
ڈاکٹر امر جیت ساگر امام ؑعالی مقام کے حضور یوں ہدیہ سلام پیش کرتے ہیں
متاعِ زیست کو اس پر نثار کرتے ہیں
نہ ہم سے پوچھیے کس غم سے پیار کرتے ہیں
رواں ہے شام و سحر چشم ِ درد سے ساگر
غم ِ حسینؑ سے ہم بھی تو پیار کرتے ہیں
سردار ترلوک سنگھ سیتل اپنے قلم کو یوں وضو کراتے ہیں
جنگ کے میداں کو جب سرور چلے
ہر طرف بھالے گڑے، خنجر چلے
دھوپ کے صحرا کا منظر الاماں
اوڑھ کر تطہیر کی چادر چلے
اف رے آلِ مصطفیؐ پر یہ ستم
بیڑیوں میں پھول سا عابدؑ چلے
سن کے سیتل کربلا کا سانحہ
سینکڑوں خنجر میرے دل پر چلے
اسی طرح ایک اور شاعر ہر چرن سنگھ مہر کے اشعار ملاحظہ ہوں
حسینؑ تو نے راہِ حق میں جان دے دی
یہ وہ عمل ہے جو عالی وقار کرتے ہیں
کبھی نصیب ہو ہم کو بھی کربلا کی خاک
یہ وہ دعا ہے جسے بار بار کرتے ہیں
سورج سنگھ سورج کا ایک قطعہ بحضور امام عالی مقام دیکھیے
یہ معجزہ بھی پیاس جہاں کو دکھا گئی
آنکھوں میں آنسوئوں کی سبیلیں لگا گئی
کرب و بلا میں دیکھیے شبیر ؑکی "نہیں "
ہر دور کے یزید کو جڑ سے مٹا گئی
ہندو شاعرہ روپ کماری کہنہ مشق شاعرہ تھیں۔ قصیدہ، نعت اور مرثیے کے عمدہ اشعار کہے۔ ان کی نظمیں بھی ان کی فکری بلندی کی آئینہ دار ہیں۔ روپ کماری امام ؑعالی مقام کے حضور یوں ہدیہ عقیدت پیش کرتی ہیں۔۔۔۔
بے دین ہوں، بے پیر ہوں
ہندو ہوں، قاتل شبیر نہیں
حسینؑ اگر بھارت میں اتارا جاتا
یوں چاند محمؐد کا، نہ دھوکے میں مارا جاتا
نہ بازو قلم ہوتے، نہ پانی بند ہوتا
گنگا کے کنارے غازیؑ کا علم ہوتا
ہم پوجا کرتے اس کی صبح و شام
ہندو بھاشا میں وہ بھگوان پکارا جاتا