Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Ilm e Ameen, Magar Mafroozon Ke Aseer

Ilm e Ameen, Magar Mafroozon Ke Aseer

علم کے امین، مگر مفروضوں کے اسیر

کبھی کبھی دانش کی راہ پر چلتے مسافر، اپنے شعور کی دھن میں ایسی راہوں پر نکل پڑتے ہیں جہاں ان کی بصیرت کا چراغ مدھم ہونے لگتا ہے۔ علم کی دنیا میں ایسے بے شمار نابغہ روزگار افراد ہوئے، جنہوں نے ایک مخصوص دائرے میں بے مثل مہارت کے جوہر دکھائے، مگر جب اسی دائرے سے باہر نکل کر نظریاتی و مذہبی و سیاسی گنجلکوں میں ہاتھ ڈالے، تو فکری توازن ڈگمگا گیا اور روشنی کا منبع دھند میں لپٹ گیا۔

ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن اسی علمی اشجار کے ایک سایہ دار، مگر متذبذب شاخ کی مانند ہیں۔ بلاشبہ اُن کی سائنسی تحریریں لائقِ تحسین، فکری اعتبار سے گہری اور معلوماتی آفاق سے مالا مال ہوتی ہیں۔ ان کی نثر میں تحقیق کی متانت، حوالہ جات کی جامعیت اور فہمِ جدید کی روشنی ہوتی ہے۔ حیاتیات، فلکیات، سائنسی منطق اور نظری تجربات پر ان کے مضامین پڑھ کر قاری کی فکری تشنگی بجھتی ہے اور علمی ذوق میں لطافت کی آمیزش ہوتی ہے۔

مگر افسوس، کچھ عرصے سے یہ صاحبِ علم اپنے اصل دائرہِ کار یعنی سائنس سے ہٹ کر مذہبی اور نیم سیاسی خیالات پر بھی طبع آزمائی فرمانے لگے ہیں۔ یہاں وہ علمی ٹھوس بنیادیں، جن پر ان کی سائنسی تحریریں استوار تھیں، مفروضوں کے زہریلے شیش محل میں بدل جاتی ہیں۔ تحقیق کی جگہ رجائیت پسند انداز، منطقی استدلال کی جگہ جذباتی لفاظی اور حوالہ جاتی ثقاہت کی جگہ خود ساختہ تشریحات لے لیتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ایک ماہر فلکیات اچانک زائچوں کی بنیاد پر سیاروں کی قسمت کا فیصلہ کرنے بیٹھ گیا ہو۔

ڈاکٹر صاحب کی مذہبی و تاریخی تحریروں میں اکثر ایسی باتیں ملتی ہیں جو نہ سائنسی منطق سے ہم آہنگ ہوتی ہیں، نہ تاریخی اسناد سے مطابقت رکھتی ہیں اور نہ ہی تہذیبی سیاق و سباق میں جچتی ہیں۔ عقائد اور افکار کے گرد بُنے گئے وہ نظریاتی جال، جو نہ معروضی تحقیق پر مبنی ہیں نہ ماضی کی دستاویزات سے اخذ شدہ، صرف ایک اہل علم کی قلمی معصیت محسوس ہوتے ہیں۔ ایک ماہر اگر اپنے مقامِ اختصاص سے انحراف کرے تو فکری انتشار کا باعث بنتا ہے اور یہی کچھ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔

اسی قبیلے کا ایک اور فرد، مبشر علی زیدی، جس کی ادبی نثر میں ایک خاص طرح کی شیرینی، مائیکروفکشن میں جدت اور تہہ داری کی نزاکت ہے، وہ بھی آج کل "مذہبیت زدہ" استعاروں میں الجھ کر فکری سطحیت کی طرف سرکنے لگا ہے۔ جس ہاتھ نے "نمک پارے" اور "شکر پارے" جیسے ادبی میٹھے لکھے، وہی ہاتھ اب مذہب کے کھٹے پکوان پکا رہا ہے، جن میں ذائقہ کم اور تعصب زیادہ ہے۔

زیدی صاحب کا شمار اردو کے جدید مائکروفکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی مختصر تحریریں قاری کے ذہن پر ایسی دستک دیتی تھیں جیسے بند کھڑکی پر اچانک کوئی دستک دے اور اندر سے یادوں کی بارات نکل پڑے۔ مگر حالیہ تحریروں میں مذہب کے نام پر جو موقف اپنایا گیا ہے، وہ نہ فقط ادبی توازن کو بگاڑتا ہے بلکہ ان کی فکری وسعت کو محدود کر دیتا ہے۔ اب ان کے کالمز میں روایت شکن دلیلیں کم اور مقدس لبادے میں ملفوف مفروضے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ دین کے نام پر پیش کیے گئے کچھ "بیانات" نہ تاریخ سے مطابقت رکھتے ہیں، نہ سائنسی مفہوم میں فٹ بیٹھتے ہیں، بلکہ صرف ایک مخصوص سوچ کی پروجیکشن دکھائی دیتی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ایسے نابغۂ روزگار افراد جب اپنے اصل میدان سے نکل کر نظریاتی و عقائدی دلدل میں قدم رکھتے ہیں تو علم، ادب اور تحقیق تینوں کو داغدار کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن اگر سائنس پر لکھیں، تو یقیناً پاکستان میں اُن جیسے کم ہی محقق دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے اندر وہ ذہنی نظم و ضبط، تجزیاتی صلاحیت اور تحقیق پسندی موجود ہے جس سے نئے ذہنوں میں روشنی کی کرن ڈال سکتے ہیں۔ لیکن جب وہ مذہب یا تاریخی واقعات پر رائے دیتے ہیں تو نہ صرف ان کی تحریر میں عمومیت در آتی ہے بلکہ قارئین کو ذہنی الجھن کا سامنا ہوتا ہے۔

مبشر زیدی بھی اگر ادب، فکشن اور انسانی نفسیات کے موضوعات پر توجہ مرکوز رکھیں تو اردو ادب کو کئی نئی جہتیں عطا کر سکتے ہیں۔ ان کا قلم جب کردار تراشتا ہے، تو اس میں زندگی کی جلن، کرب اور تلخی کی سچائیاں پنہاں ہوتی ہیں۔ مگر جب وہ اسی قلم سے مذہب کے نقوش کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ سادہ لوح قاری کو الجھا دیتے ہیں اور اپنے فن کو مشتبہ بنا بیٹھتے ہیں۔

ادب اور سائنس دونوں ایک دوسرے سے جُداگانہ اصول و منہج رکھتے ہیں۔ سائنس کا دامن دلیل، تجربہ اور ثبوت سے بھرا ہوتا ہے، جبکہ ادب کا دامن تمثیل، تجربہ ذات اور فکری وجدان سے۔ مذہب ان دونوں سے مختلف ایک عقیدتی نظام ہے جو تاریخ، روحانیت اور ماورائی حقیقتوں کے گرد گھومتا ہے۔ جب ایک سائنسی محقق یا ادیب، بغیر فکری تیاری کے، مذہب پر اظہار خیال کرتا ہے تو وہ نہ صرف اپنے شعبے کی قدر کھوتا ہے، بلکہ مذہب جیسے سنجیدہ موضوع کو بھی فکری سطحیت کا شکار بنا دیتا ہے۔

بقول فیض:

"جنہیں تھا دعویٰ تدبر کا، وہ گم شدہ راہوں میں جا اترے۔۔ "

ہمیں ضرورت ہے کہ ہر فن کا ماہر، اپنے فن کو ہی وسعت دے، اسی کی گہرائیوں میں اترے اور اس میں نئی منزلیں تلاش کرے۔ ڈاکٹر حفیظ الرحمٰن کی سائنس پر تحریریں اگر تسلسل سے جاری رہیں تو وہ نئی نسل کو فکر، تجزیہ اور تحقیق کا ایسا سرمایہ دے سکتے ہیں جو قوموں کی تقدیر بدلتا ہے۔ اسی طرح مبشر زیدی اگر اپنے افسانوی و فکاہی دائرے میں رہ کر تخلیق کریں تو ان کی تخلیقات اردو ادب کی قیمتی وراثت بن سکتی ہیں۔

مفروضے، تعصبات اور جذباتی اظہار نہ سائنس کو نفع دیتے ہیں، نہ ادب کو وقار بخشتے ہیں۔ اگر ہم نے اپنے اہلِ قلم کو اسی طرح ہر سمت میں بھٹکنے دیا، تو نتیجتاً فکری انارکی اور علمی انتشار ہی ہمارے حصے میں آئے گا۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari