Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Hussan Parast Saste Ashiq

Hussan Parast Saste Ashiq

حُسن پرست سستے عاشق

سنِ طفلی فریب کار ماحول اور غبار آلود فضا میں گزرتی ہے۔ اس سے تھوڑا آگے بڑھتے ہیں تو ایک صحرا اس سے بھی خوف ناک نظر آتا ہے۔ جس کو دیکھ کر دل میں ہزاروں خواہشات جنم لیتی ہیں۔ اس وحشت خیز میدان میں پہنچنے تک ایک بچہ تمام بری صفات سیکھ چکا ہوتا ہے اور سماج کے رحم و کرم پہ پلنے والا یہ بچہ تمام خوشنماء چیزوں کی طرف لپکتا ہے، گندگی و غلاظت جو مختلف جہتوں میں میسر ہے اپنے وجود میں منتقل کر دیتا ہے اور یہی نہیں رُکتا بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھتا ہے اور باغِ جوانی میں قدم رکھتا ہے۔

سن جوانی میں خود کو فریب کار دنیا کے حوالے کر دیتا ہے۔ اس عمر میں اِنہیں نہ صحیح سے لذتِ زیست میسر ہوتی ہے اور نہ ہی خودنمائی کا اِنہیں خیال آتا ہے۔ البتہ اس عمر میں حسن پرستی کمال کو پہنچ جاتی ہے اور ہوس کو عشق قرار دے کے چند دنوں کے لیے خود کو جھوٹا عاشق بنا دیا ہے اور ایک خیالی معشوق کی چاہ میں کوہ بے سکوں کھودنے کی فنکاری کرتا ہے۔ کبھی نیم شبعی کو بیدار ہو کر آٹھ آٹھ آنسو بہاتا ہے اور کنبے کو باور کرانا چاہتا کہ واقعی وہ مثلِ قیس و فرہاد ٹھہرا ہے۔

کل اپنے بچپن کے دوست سے ملاقات ہوئی وہ بالکل لاغر ہو چکا ہے چہرے کی خوبصورتی زائل ہو چکی ہے۔ میں نے اُس کی اِس حالت پہ ان سے شکوہ کیا تو وہ یوں گویا ہوۓ۔

"مر گئی، ہاں مر گئی انتقال جی انتقال ہوگیا۔ بچپن میں کھبی ہم بھی عاشق ٹھہرے سن بلوغت سے پہلے ممیز بھی نہیں تھے، ہاں پانچویں جماعت کے طالب علم تھے۔ ان دنوں کسی شاہینہ کو لیکر پرواز پر جانے کی خواہش دل میں پیدا ہوئی اور عاشقی میں قیس کو بھی گرد کر گئے اور آدھی رات کے بعد معشوقہ کے لیے کوہ بے سکوں کھوتے رہے یعنی روتے رہے۔ امی سے ہماری حالت دیکھی نہ گئی اکثر چشم تر دیکھ کر پریشان ہوتی اور سقا بن کر گلو کو تر کر دیتی۔

ایک دن امی ہمیں حکیم کے مطب لے گئی اور حکیم سے حال دل چھوڑ کر حال چشم بیاں کرنے لگی، لاغر حکیم کو کیا معلوم ہونا تھا وہ خود جرعہ کش تھا جراح نہیں، اس نے نسخہ لکھا اور دوا خانے سے دوا کی اجرت ادا کر کے ہم گھر کی طرف واپس آ ہی رہے تھے کہ وہ مل گئی، یعنی ہماری معاشرتی زبان میں تمھاری بھابی کی امی یعنی ہماری ہونے والی ساس۔ انہوں نے امی کو سلام کہا، حال اِحوال پوچھا جس پر امی نے میرے متعلق بتایا کہ حکیم کے پاس لے گئی تھیں۔ امی نے یہ نہیں بتایا کہ تمھاری نزاکت کی چاہ میں میرے لال نے دل شگاف کیا ہے اور خبطی کی طرح آدھی رات کو اُٹھ اُٹھ کر رویا کرتا ہے۔

بہرحال وہ خاک نائے تو نہیں بنی پر خائن ضرور بنی اور محترمہ نے نزاکت کے رشتے کی بات کیں جو ان کے رشتہ دار کے ہاں تہ ہوئی تھیں جس کو سن کر میں نے خلطِ مُبحث کیں اور، امی کو گھر لے آیا اور جبین کو زانو میں چھپا کر خوب رویا اور کچھ خود سے کہا اور ایک شعر لکھ کر دل کو تغذیہ دیا اور ہم نے ان سے ہمیشہ کے لیے کُٹ کر دی ان سے یک طرفہ دوستی ختم کر دی اور کاہش سوچ میں رہے۔ اب تو بے آرزو زانوئے تلمذ تہ کرتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے دل سے نکل کر طویل المیعاد کہیں قیام پذیر ہے خفقان دل سے رحلت کر چکی یعنی۔ انتقال۔ ہو چکا ہے۔

مگر ان دونوں میری جوانی جاتی رہی اور پدرِ نامدار کی چشم ضوفشان بھی ختم ہوگئی۔ میں معاشرہ کا پیداور طاقِ نِسیان کا شکار ہوتا گیا، حالات نے پھر سے مجھے ظالم سماج کے آغوش میں ٹھہرا دیا۔ میں اتنا بےبس تھا جب نشہ چڑھتا تو پہن اترا پھینکتا یہی نہیں بلکہ دن کے مختلف ساعتوں میں بارہا جنت اور دوزخ کی سیر کرتا بادہ نوشی اور تمام اسبابِ نشے میں مبتلا ہو چکا تھا مگر کبھی سیر نہیں ہو سکا۔

ایک ہوس جسے میں نے عشق قرار دیا تھا نے مجھے گدائی کرنے پر مجبور کیا ہر مقدس اور نامقدس جگہ کی چیزوں سے استفادہ کرنے پر اکسایا۔ جب میں کسی کام کا نہیں رہا تو مجھے خودنمائی کا خیال آیا مگر اب بہت دیر ہو چکی۔ نہ اب احباب ہے نہ ساتھی۔ میں جہاں سے نکلا تھا اب اس سے بھی دو قدم پیچھے رہ چکا ہوں۔ اب میں ہوں اور میری تنہائی۔ "

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra