Hawwa Ki Beti
حوا کی بیٹی
غربت نے غریب کو پامال کردیا محنت کش بھی اوزار مشقت سے تنگ آکر نامیدی کی زندگی گزار رہا ہے، بیوہ اور یتیم بھی جھولی پھیلا کر سر راہ کھڑے ہیں۔ افسوس صد افسوس! حوا کی جوان سالہ بیٹی بھی اپنی بہن کو لیکر بھیک مانگنے پر مجبور ہے اور ان کی بےکسی یہ رو داد سنا رہی ہے کہ ان کے تن پر کپڑے نہیں اور چولہا بھی ٹھنڈا پڑا ہے۔ اور ہر واقف نہ واقف سے سوال زر کررہی ہے، درکنار میں خیرات لیے بیٹھی ہے ہر گلی، کوچہ، سڑک و شاہرار سے ایسے لاچارروں کی آوزیں آرہی ہے۔
جی ہاں! کل رات بازار سے گزر ہوا دیکھا کہ 18سالہ باحیا، باپردہ و غیرت مند گھرانے کی لڑکی کانپتے وجود کے ساتھ روتی ہوئی ہاتھ جوڑ کر التماس ضروت زیست کررہی تھیں اور کہ رہی تھیں"تن پہ کپڑے نہ ہونا و پیٹ کے لیے روٹی نہ ہونا معمول ہے میری بیکسی تو یہ ہے کہ میرے ساتھ میری جوان سالہ بہن ہے اور یتیم ہوں اور رہنے کے لیے گھر نہیں " کتنی ہی ایسی مائیں بہنیں ہونگی جو آب و دانے کے لیے ماہ صیام میں بھی بھیگ مانگتی ہوگی اور آنچ پر پانی گرم کرتی ہوئی اپنے بچوں کو دلاسے دیتی ہونگی ابھی کھانا پکتا ہے تھوڑا اور انتظار کرو۔
صاحبان اقتدار تو کرسی حکمرانی پہ ہیں ان کی عیاش پرستی انہیں اس طرف متوجہ نہیں کرتی مگر میں اورآپ تو اسی محلے میں رہتے ہیں نا جہاں ہر شب دختر قوم اپنی خودراری کو شرم کی چادر میں لپیٹ کر دو وقت کی روٹی کے لیے بھیگ مانگنے پر مجبور ہے۔ مجھے ڈر ہے یہ اللہ کے پاس جا کر یہ کہہ دے کہ میں دو وقت کی روٹی کے لیے بھیک مانگ رہی تھیں تب قوم کا ہر فرد افطاری کے لیے دستران خوان کو زینت دے رہا تھا اور اپنے اولاد کے ساتھ من و سلوی کے مانند مزے لوٹنے میں مگن تھا اور میں بےکسی کی تصویر بنی گلیوں میں اواز دے رہی تھیں اللہ کے لیے اللہ کے مہنے میں میری مدد کرو۔
میں یہ نہیں کہ رہا کہ ہم کسی کا گھر بسائے یہ مہینہ غریبون کی بھوک درد کو سمجھنے کے لیے ہے اگر اس مہنے میں بھی احساس پیدا نہ ہوا تو پھر کبھی احساس پیدا نہیں ہوگا۔ ہم روز صاحبان منصب کو زبان کی تیر ونشتر سے زخمی کر دیتے پر اپنے اوپر غور نہیں کرتے خود میں احساس پیدا نہیں کرتے یعنی ہم معذرت کے ساتھ بے حس ہو چکے ہیں۔