Haqooq e Niswan Aur Qanoon
حقوق نسواں اور قانون
تحریر الفاظ کا محتاج ہوا کرتی ہے ایک محرر یہ سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ ایسا کیا لکھا جائے کہ جس کو عام و خواص پڑھ کے اپنے لیے اصلاح کا سامان تلاش کریں اگر تحریر حقیقت پہ مبنی ہو تو مبالغے سے بھر پور تحریر لکھنے والے قلمکار کو بھی غلو کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر لکھنے والا خود واقعہ کا چشم دید گواہ ہو تو پھر الفاظ جذبات کی حدوں میں قید ہوجاتے ہیں، اگر تحریر معاشرے کی بے توجہی اور ناانصافی پر مبنی ہو تو پھر جذبات حدود سے بڑھ کر آنسووں کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور اگر تحریر کسی خاتوں کی زندگی پر مبنی ہو تو پھر ہر لفظ کو ادب اور شائستگی کے دائرے میں قید کر کے بے پردہ عورت کو بھی عزت کی چادر میں لپیٹنا ہوتا ہے جس سے عورت حیا کے پردے میں چھپی دیوی نظر ائے۔
کہنے دیجئے! اگر خاتون کی بے کسی اور مظومیت کو بیاں کرنا ہو تو پھر نہ الفاظ کی قید ہے اور نہ جذبات کی حددیں بس قلم خود الفاظ کو تلاش کرتا ہوا محرر کو اس مقام پہ لا کھڑا کردیتا کہ جہاں محرر کو بھی اپنی تحریر پہ رشک اتا ہے اور جب خاتوں کی سسکیاں قلم کی نوک پر لانے کی کوشش کرتے ہیں تو سیاہی جواب دیتی ہے اور عاجز ہو کر مخاطب ہوتی اور کہتی ہے "اب مجھے رکھ دیجئے جس صنف کو خدا نے رحمت قرار دیا ہے انہیں سیاہی کی ظلمت میں قید کر کے تاریکیوں میں نہ دکھلے۔
خاتون کے نازک وجود کو چھیڑ کر اس چیز کو فراموش کرنا بہت بڑی ناانصافی ہوگی کہ ہم Domestic violence اور غیروں کے ہاتھ پامال ہونے والی خواتیں کا ذکر نہ کریں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ خدا نے اپنی صفت محبت کو خاتوں میں جلوہ گر کر کے انہیں انسیت کا محور قرار دیا ہے جبر و تشدد کی پہاڈگری انکی محبت کو پارہ پارہ نہیں کرسکتی۔ ان پر ہر طرح کے ظلم ڈھائے گئے پر انکی جانثاری اور خلوص میں کمی نہیں ائی صنف ذن ہمیشہ عبس و مظلوم رہی ہے، عرب میں زندہ در گور ہوئی، ہندستان میں خاوند کے ساتھ تحت خاک، مغرب میں ہوس کا سامان تو ہمارے معاشرے میں زحمت قرار دی گئی الغرض انکی خلوص و محبت کو نہیں سمجھا گیا اگر کسی نے لکھنا بھی چاہا تو ان کو زن مرید کا طعنہ دیا گیا۔ میرا دین مجھے خواتیں کی عزت کرنا سکھاتا ہے پر اندھی تقلید یہ اجازت نہیں دیتی کہ میں انہیں "مظہر صفات خداکہ دوں " کیونکہ معاشرے کی کج فہمی میرے گلے کی طوق ہے اور معاشرہ جبر تشدد کی نگرانی کرتا ہے میرے دیس کا مضبوط قانوں کاغذی ہے
نظام در كاغذى است
نور نىيست ظلمت است
جس کے وجود پر بے بصیرت انکھیں جنکو کچھ نظر نہیں اتا ایسا قانوں کا کیا فائدہ جو سر راہ ہوس کا نشانہ بنے والی ماں کو انصاف نہ دے سکے ایسا قانوں مجھے نہیں چاہے جو روز کالج یونیورسٹی اور دفاترمیں ہراساں ہونے والی ماں و بہنوں کو انصاف نہ دے سکے، آخر!!ایساآئین کا کیا فائدہ جو دختر قوم کو انصاف نہ دے سکے۔