Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Hamein Siasat Se Koi Lena Dena Nahi, Magar

Hamein Siasat Se Koi Lena Dena Nahi, Magar

ہمیں سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، مگر

پاکستان کی تاریخ ایک ایسی ضخیم کتاب ہے جسے پڑھ کر کبھی ہنسی آتی ہے، کبھی رونا، کبھی غصہ، مگر سب سے زیادہ حیرت، کیونکہ یہاں واقعات نہیں ہوتے، بلکہ کروائے جاتے ہیں۔ جمہوریت نہیں چلتی، چلائی جاتی ہے۔ حکومتیں نہیں بنتیں، بنائی جاتی ہیں اور سب سے دلچسپ بات یہ کہ جنہیں پوری دنیا "جنرل" کہتی ہے، ہم انہیں محبت سے "سویلین بھائی جان" کہہ کر دل بہلاتے رہتے ہیں۔

اب تاریخ کی یہ کتاب کھولیے تو صفحہ اوّل پر ہی جنرل ایوب خان کا مسکراتا ہوا چہرہ نظر آتا ہے۔ وردی پہن کر آئے مگر دعویٰ یہ کہ وہ عوام کے "چنے ہوئے" تھے۔ چنے ہوئے بھی وہ چنے جن پر کبھی عوام کا ہاتھ نہیں پڑا۔ مادرِ ملت فاطمہ جناح کے جلسے سمندر کی طرح لہرا رہے تھے، مگر نتیجہ آیا تو ایوب خان کی جیب میں اتنی جمہوریت تھی کہ خود جمہوریت بھی حیران رہ گئی۔ عوام نے ووٹ دیا، لیکن ووٹ کسے ملا؟ یہ راز آج تک چھپایا گیا ہے، جیسے ہمارے ملک میں اکثر راز پڑے پڑے بوڑھے ہو جاتے ہیں۔

ایوب خان نے آئین ایسے بار بار بدلا جیسے کوئی بچہ مٹی کی کار کو توڑ کر بار بار نیا ڈھانچہ بنائے۔ کبھی اصول بدلا، کبھی نظام، کبھی طریقۂ کار، بس ایک چیز نہیں بدلی، اقتدار کی حرارت۔ وہ حرارت جس سے آئین موم کی طرح پگھلنے لگتا ہے اور اصول اپنی جگہ چھوڑ دیتا ہے۔

پھر یحییٰ خان آتے ہیں۔ تاریخ نے انہیں ایک ایسی "معصوم روح" کے طور پر پیش کیا ہے جس نے غلطی سے پورا ملک اپنی شراب کے گلاس میں گرایا اور سمجھا کہ پانی چھلک گیا ہے۔ مشرقی پاکستان کے عوام چیختے رہے، دنیا چیختی رہی، پورا پاکستان چیختا رہا، مگر یحییٰ خان کے کان پر جوں تک نہ رینگی، شاید جوں کو پروٹوکول میں آنے کی اجازت نہیں تھی۔ ملک دو ٹکڑوں میں بٹ گیا، مگر قصور کس کا تھا؟ ظاہر ہے سیاست دانوں کا! کیونکہ یہاں غلطی خواہ ٹینک سے ہو، حساب کتاب سیاسی دکان پر ہی لگایا جاتا ہے۔

پھر بھٹو آئے، وہ بھٹو جس کے جلسوں میں عوام ایسے اُمڈتی تھی جیسے برسوں سے سوئی فصل اچانک بارش پا کر اٹھ کھڑی ہو۔ مگر غلطی کیا کی؟ جی وہی جو اس سرزمین پر ناقابلِ معافی ہے، عوام میں مقبول ہو جانا۔ عوام کی دلوں میں جگہ بنانا یہاں سب سے بڑا جرم ہے، کیونکہ طاقت کے محل میں جگہ پھر کم پڑنے لگتی ہے۔

ضیا الحق نے آئین کی گرد جھاڑی، آئین کو سلام کیا، ٹانگیں کھینچیں اور پھر خالص "اسلامی محبت" میں ملک کو مارشل لا کا غسل کرایا۔ بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا کر قوم کو سمجھایا: جمہوریت کا مطلب ہے وہی جسے ہم سمجھتے ہیں۔ ضیا الحق نے گیارہ سال تک حکومت کی، مگر چونکہ وہ "جمہوری سویلین" تھے، اس لیے ان کا اقتدار بھی "عوام کی مرضی" سمجھا گیا۔ ان کی مرضی عوام کے دل سے زیادہ عوام کے سروں پر چلتی تھی، مگر چونکہ تاریخ میں لکھا ہے کہ وہ شفیق تھے، اس لیے ہم بھی مان لیتے ہیں کہ شفیق ہی تھے۔

نواز شریف کی باری آتی ہے۔ ضیا نے پال پوس کر سیاست کا پہلا قدم سکھایا، پھر جمہوریت کے تھال میں رکھ کر اقتدار کا پہلا نوالہ دیا۔ لیکن پھر وہی مسئلہ! شاگرد کچھ زیادہ ہی ذہین نکلا۔ استاد نے فرمایا: "بیٹا پرواز ضرور کرو، مگر اتنی اونچی نہیں، کہ ہمیں نیچے دھوپ لگنے لگے"۔

نواز شریف نے کبھی جان بخشی کی بھیک مانگی، کبھی جلاوطنی میں گئے، کبھی لوہے کے پرزے بیچتے رہے، کبھی خود لوہا بنتے رہے۔ مگر دھاگہ ہمیشہ کسی اور کے ہاتھ میں رہا۔ وہی دھاگہ جس سے ہماری پوری سیاست کی پتنگیں بندھی ہوئی ہیں۔

بے نظیر بھٹو کا سفر بھی اسی طنزیہ دستاویز کا حصہ ہے۔ گورنر جنرل الگ، صدر الگ، عدالتیں الگ، مگر غریب بے نظیر بھٹو ہر بار ایک ہی جگہ گرتی رہیں: اقتدار کی سیڑھی سے نیچے۔ جب عوام انہیں منتخب کرتی تو کوئی نہ کوئی "قومی ضرورت" جاگ اٹھتی۔ کبھی کرپشن کا بہانہ، کبھی غیر ملکی ایجنڈا، کبھی خدا جانے کیا۔ اصل بات وہی کہ جب لوگ منتخب کریں تو اتنا نہیں کریں کہ طاقت کی آنکھ میں چبھنے لگے۔

پھر پرویز مشرف، پاکستان کی تاریخ کا وہ باب جس میں آئین کو نہایت عزت سے سائیڈ پر رکھا گیا، پھر ٹیبل پر چائے رکھی گئی اور کہا گیا: اچھا بچہ بن کر ادھر رہو، ہم قومی مفاد میں کچھ اصلاحات کر لیتے ہیں۔

مشرف نے آتے ہی بتایا کہ وہ قوم کے محبوب لیڈر ہیں اور یہ خبر قوم نے ٹی وی پر بیٹھ کر سنی۔ عوام گهروں میں ہنس پڑے مگر ہنسنے کی اجازت نہ تھی، بس چائے پی اور ٹی وی بند کیا۔

مگر کمال یہ کہ مشرف بھی "سویلین بالادستی" کے علمبردار تھے، یعنی وردی وہ پہنتے تھے مگر حکمرانی سویلین انداز میں کرتے تھے۔ سویلین انداز سے مراد یوں سمجھ لیں کہ فیصلے عوام کے لیے ہوتے تھے مگر عوام کو معلوم نہیں ہوتے تھے۔

جنرل باجوا کا دور آیا تو انجینئرنگ کو سائنس کا درجہ دے دیا گیا۔

سیاست کی ٹانگیں کھینچنے کا جدید طریقہ ایجاد ہوا، بیانیے کی سرجری کی گئی، عدالتوں کو پروٹوکول کے حساب سے جگایا اور سلایا گیا، میڈیا کو اسی طرح چلایا گیا جیسے پیپر میں سب سے ذہین بچے کو "خاموش بیٹھنے" کا حکم دیا جاتا ہے۔ عوام کو کبھی بتایا گیا کہ فلاں لیڈر "ایماندار فرشتہ" ہے اور چند سال بعد وہی فرشتہ "بدکردار شیطان" ثابت ہوا۔

پھر موجودہ دور آیا، وہ دور جس میں دعویٰ تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست سے دور ہے، مگر سیاست دانوں کے فون اگر خاموش ہوں تو سمجھ لیں یا تو بجلی گئی ہے یا کال کسی اور طرف divert ہوگئی ہے۔

عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے بے چارے وزیر، سیکریٹری، ایم این اے، ایم پی اے سب ایسے چلتے ہیں جیسے کسی دربار کے خادم اور دربار کہاں ہے؟ یہ تو سب جانتے ہیں مگر زبان پر لانا گناہِ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔

یہاں حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ وہ شجرِ ممنوعہ ہے جس کے سائے میں سب رہتے ہیں مگر نام لینے کی اجازت نہیں۔ سیاست دان اگر نالائق ہوں تو یہی کہہ دیا جاتا ہے: "یہ تو چور ہیں، ڈاکو ہیں، ان کو ہانکنا پڑتا ہے"۔

اور اگر عوام پوچھ بیٹھے کہ صاحب! آپ ہی کیوں ہانکتے ہیں؟

تو جواب ملتا ہے: "ملکی سلامتی!"

گویا سلامتی کے نام پر یہ ملک ایک ایسے "اندرونی حفاظتی حصار" میں رکھا گیا ہے کہ باہر کی ہوا بھی پہلے اجازت لے کر آتی ہے۔

پاکستان کی تاریخ یہی بتاتی ہے:

جہاں ووٹ کی حرمت کم اور طاقت کی حرارت زیادہ ہو، وہاں سیاست ہمیشہ بوجھ لگتی ہے۔

جہاں ٹینک سڑک پر آئے بغیر فیصلے درست نہیں سمجھے جاتے، وہاں جمہوریت کبھی جوان نہیں ہوتی۔

جہاں ہر سیاسی لیڈر کو "پروجیکٹ" بنا کر لانچ کیا جائے، کبھی نواز شریف نامی ماڈل، کبھی عمران خان نامی پروٹوٹائپ، وہاں قوم تماشائی اور تاریخ مسخرہ بن جاتی ہے۔

اصل مسئلہ سیاست دانوں کی خرابیاں نہیں، اصل مسئلہ وہ "چھپا ہاتھ" ہے جس کا نام لینا بدتمیزی، بھول جانا معصومیت اور سمجھ جانا ذہانت کہلاتی ہے۔

پاکستان کا مستقبل تب ہی بدلے گا جب سیاست کی لگام عوام کے ہاتھ آئے، نہ کہ ان ہاتھوں میں جو ہر دور میں بس اتنا ہی کہتے ہیں:

"ہمیں سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، مگر"۔

یہی "مگر" پاکستان کے دل کی فائل میں سب سے خطرناک لفظ ہے۔

جب تک یہ "مگر" زندہ ہے، ہماری سیاست ایک ایسا ڈراما رہے گا جس میں ہیرو بدلتے رہیں گے، مگر اسٹیج کا مالک نہیں بدلے گا۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam