Haiz Walay Mard Aur Pandra Sala Chaand
حیض والے مرد اور پندرہ سالہ چاند

منیر نیازی کا وہ جملہ محض ایک ذاتی مکالمہ نہیں تھا، یہ پورے معاشرتی ضمیر پر ہتھوڑے کی ضرب تھی۔ "پتر! تجھ میں اور حیض والی عورت میں کیا فرق ہے؟" بظاہر یہ فقرہ ایک تلخ جملہ معلوم ہوتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیچھے ایک پورا فلسفہ چھپا ہوا ہے۔ یہ جملہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ مرد اپنی مردانگی کے غرور میں کتنا بانجھ ہو سکتا ہے، کہ عبادت کے نغمے گنگناتا رہے، دعاؤں کے تسبیحی موتی پروتا رہے، مگر کردار کی کھیتیاں ویران پڑی رہیں۔ وہ مرد جو اپنے آپ کو زمانے کا رہنما سمجھتا ہے، وہ حقیقت میں"حیض والا مرد" ہے، کیونکہ اس کے اعمال، اس کی ذہنیت اور اس کی اخلاقی بانجھ پن نے اسے عورت کی طرح نہیں بلکہ عورت سے بھی زیادہ بے کار بنا دیا ہے۔
ہمارا سماج ان "حیض والے مردوں" سے بھرا ہوا ہے۔ ان کے چہرے پر نور کے بجائے منافقت کی کالک ہے، ان کی زبان پر ذکرکے بجائے زہر ہے اور ان کے دل میں روشنی کے بجائے اندھیروں کے سانپ رینگتے ہیں۔ یہ وہ کردار ہیں جو ہر حرام کام کا آغاز "بسم اللہ" سے کرتے ہیں۔ سود کے معاہدے، رشوت کی ڈیل اور غیبت کے جلسے، سب کچھ "بسم اللہ" کے لفظی عطر سے معطر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے لفظ کی تقدیس سے عمل کی گندگی دھل جائے۔ یہ لوگ "بسم اللہ والے درویش" ہیں، جن کی زبان پر پاکیزگی ہے مگر ہاتھوں پر ناپاکی کے چھینٹے۔
ان میں کچھ "اصطلاحی ولی" ہیں، جن کی زبان پر فلسفے اور نظریات کی بارش ہے۔ وہ "ہیومن رائٹس"، "سوشل جسٹس" اور "فلاسفی آف لائف" جیسے الفاظ کی مالا جپتے ہیں، مگر ان کی زندگی میں انصاف، مساوات اور اخلاق کا ایک قطرہ بھی موجود نہیں۔ ان کے گھروں میں علم کی کتابیں ہیں مگر دماغ میں جہالت کے سانپ رینگتے ہیں۔ یہ وہی ہیں جو زبان سے دانائی کے دریا بہاتے ہیں اور عمل سے جہالت کی نالیاں۔
پھر وہ بھی ہیں جو مسجد میں صفِ اول میں کھڑے ہو کر "آمین" کی صدا بلند کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھتے ہیں مگر انہی ہاتھوں سے تول کم کیا جاتا ہے۔ یہ وہ "نماز والے منافق" ہیں جن کی عبادت آسمان تک نہیں پہنچتی کیونکہ زمین پر ان کا کردار اتنا بھاری ہے کہ دعائیں ہوا میں ہی گر کر مر جاتی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کی تلاوت تو کرتے ہیں مگر قرآن کی تعلیمات کو اپنے وجود میں اتارنے سے انکار کرتے ہیں۔
اس سماج میں ایسے کردار بھی ہیں جو "صدقہ والے ظالم" ہیں۔ یہ مزدور کا خون نچوڑتے ہیں، اس کے پسینے کو نوچتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم نے تو راہِ خدا میں ہزاروں روپے بانٹ دیے۔ یہ ظالم انسانیت کی ہڈیاں توڑ کر اس کا صدقہ بانٹتے ہیں، جیسے کوئی قصائی جانور ذبح کرکے اس کا گوشت خیرات میں تقسیم کرے۔
کچھ "روزہ دار چور" ہیں۔ یہ دن بھر بھوک اور پیاس کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور شام کو منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور دھوکہ دہی کے تماشے لگاتے ہیں۔ ان کا روزہ محض پیٹ کے لیے ہے، دل اور کردار تو برسوں سے فاقہ کش ہیں۔
کچھ "استغفار والے غدار" ہیں۔ زبان پر "استغفراللہ" کی تسبیح چلتی ہے مگر ہاتھوں میں وطن بیچنے کے معاہدے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ضمیر کا سودا بھی کرکے اللہ کے حضور جھوٹے آنسو بہاتے ہیں۔ یہ وہی ہیں جو قوم کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر پھر مصلے پر بیٹھ کر آنکھوں میں آنسو بھر لیتے ہیں۔
ان کے گھروں میں قرآن سب سے اونچے خانے میں لپیٹ کر رکھا جاتا ہے، جیسے وہ کوئی تعویذ ہو۔ ان کے ہونٹ اس کے الفاظ پڑھتے ہیں مگر زندگی میں جہالت کی گندگی پھیلاتے ہیں۔ یہ "قرآن والے جاہل" ہیں جن کے گھروں میں غلاف پر غبار ہے اور دلوں میں اندھیرا۔
کچھ "تصوف والے تاجر" ہیں جو فنا فی اللہ کے نعرے لگاتے ہیں مگر سودا زمینوں، جاگیروں اور نذرانوں کا کرتے ہیں۔ ان کے حجرے دنیاوی منڈیوں سے کم نہیں، جہاں ذکر اللہ کی آڑ میں دنیاوی دکانیں کھلی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مریدوں کی جیبیں خالی کرتے ہیں اور اپنی تجوریاں بھر لیتے ہیں۔
کچھ "ایمان والے بزدل" ہیں۔ ایمان کے ترانے ان کی زبان پر ہیں مگر ظلم دیکھ کر ان کی زبان گونگی ہو جاتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان کو ڈھال بنا کر اپنی بزدلی کو چھپاتے ہیں۔ ان کے دلوں میں خوف کے بت ہیں اور زبان پر یقین باللہ کے ترانے۔
اور کچھ "نمازِ جنازہ والے قاتل" ہیں۔ یہ خود لاش گراتے ہیں اور پھر انہی کے کندھوں پر جنازہ بھی اٹھتا ہے۔ یہ مغفرت کی دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں مگر قبر کے کتبے پر ان کے گناہوں کی سیاہی لکھتی ہے۔ یہ وہی ہیں جو قبرستان کے دروازے پر روتے ہیں اور قبر سے نکلتے ہی نئی لاش گراتے ہیں۔
یہ سب چہرے وقت کے پندرہ سالہ چاند میں بے نقاب ہو چکے ہیں۔ وقت نے اپنی گردشوں میں یہ دکھا دیا ہے کہ ہمارے معاشرے کی اصل حقیقت کیا ہے۔ چاند جب پورے جوبن پر ہوتا ہے تو اندھیروں کے پیچھے چھپے عیب اجاگر ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح وقت کی روشنی نے ہمیں یہ دکھا دیا ہے کہ عبادت کے جامے میں چھپے منافق، دعا کے پردے میں لٹیرے اور علم کے لبادے میں جاہل سب برہنہ کھڑے ہیں۔
ہم سب کسی نہ کسی روپ میں"حیض والے مرد" ہیں۔ ہم میں سے کوئی عبادات میں حاضر ہے مگر اخلاق میں غائب، کوئی زبان پر ذکر کرتا ہے مگر عمل میں فتنہ ہے، کوئی دل میں روشنی کا دعویٰ کرتا ہے مگر اندر اندھیروں کا ڈیرہ ہے۔ یہ معاشرہ ایک ایسے جنگل میں بدل گیا ہے جہاں ہر درخت کے تنے پر نیک نامی کا بورڈ لگا ہے مگر جڑوں میں دیمک نے سب کچھ کھا لیا ہے۔ یہ وہی جنگل ہے جہاں نیکی کا پھل صرف زبان پر اگتا ہے اور بدی کی جڑیں دلوں میں پیوست ہیں۔
یہ پندرہ سالہ چاند ہمیں بتاتا ہے کہ وقت سب کچھ بے نقاب کر دیتا ہے۔ روشنی کے سامنے کوئی نقاب باقی نہیں رہتا۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اپنی منافقت کے نقاب خود اتارتے ہیں یا وقت کی کرخت روشنی انہیں نوچ ڈالتی ہے۔ "حیض والے مرد" صرف منیر نیازی کی زبان کا جملہ نہیں، یہ ہم سب کے وجود کی کہانی ہے، جسے ہم جتنا بھی چھپائیں، ایک دن پورے چاند کی روشنی اسے سب کے سامنے لے آتی ہے۔

