Gilgit Baltistan Ke Fitri Haqooq
گلگت بلتستان کے فطری حقوق
جمہوریت کا آغاز پانچویں صدی قبل مسیح میں یونان کی شہری ریاستوں سے ہوا۔ 509 قبل مسیح میں جمہوریہ روم نے عوامی نمائندگی کو قبول کیا اور یہی جدید جمہوری ریاستوں کی اساس ہے۔ جدید طرز جمہوریت میں " فطری حقوق " کو خاص درجہ حاصل ہے۔ سترہویں صدی عیسوی میں نظریہ فطری حقوق کے تحت انگلستان میں عوام بادشاہ چالس اول کے خلاف صف آراء ہوئے۔ پیورٹن انقلاب 1649 کے زمانے میں لوگ کو باور کرایا کہ عوام کی آزادی، حق ملکیت، آزادی ضمیر اور سیاسی معراعات فطری حقوق کے تحت حاصل ہیں۔ اسی طرح روسو اور والٹیر کے انقلابی افکار کے نتیجے میں فرانس میں انقلاب (1789) برپا ہوا۔ جس نے بنیادی حقوق یعنی آزادی، مساوت اور اخوت کا نعرہ دیا۔
بیسوی صدی عیسوی میں فطری حقوق کے تحت یہ محسوس کیا گیا کہ انسان کی شخصیت کی تکمیل صرف جمہوری نظام میں حکومت ہے۔ اس نظام کے لیے دنیا کے مختلف برے اعظموں میں تحریکوں نے سر اٹھایا مثلا ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ کی بے شمار ریاستوں نے آزادی حاصل کرنے کے بعد جمہوری حکومتیں قائم کیں۔ 1945 تک خود مختار ریاستوں کی تعداد پچاس کے لگ بھگ تھیں جن کے زریعہ سے عالمی فورم اقوام متحدہ کا قیام عمل ممکن ہوا اور 2000 تک تقریبا 184 ممالک اس تحریک میں شامل ہوئیں۔
بقول جمہوریت پسند پاکستان بھی ایک جمہوری ریاست ہے اور یہاں ہر پانچ سال بعد عوامی نمائندے منتخب ہوتے ہیں۔ اس کار انتخاب کے لیے چاروں صوبوں کے عوام کو برابری کے بنیادوں پر حق رائے دہی کا اختیار حاصل ہے۔ 1962 کے دستور میں فطری حقوق عوام کو حاصل نہیں تھے لیکن بعد ازاں سیاسی اور عوامی دباو کے تحت دستور میں شامل کیا گیا۔ موجود دستور میں بنیادی اور فطری حقوق کی ایک لمبی فہرست ہے اور ایسا قانوں جو دستوری اصولوں سے متصادم ہو، کالعدم تصور شمار ہوتا ہے۔ حکومتی نمائندے و ریاست بھی ایسا قانوں نہیں بنا سکتی جس کے نتیجے میں عوام بنیادی حقوق سے محروم ہو۔ یہ درجہ ذیل حقوق جو دستور ہے ائین کی رو سے۔
دستور ارئٹکل نمبر ۹ کے مطابق پاکستان کی ہر شہری کو آزاد زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ موجود دستور میں شہریوں کو گرفتاری اور حبس بے جا سے تحفظ حاصل ہے۔ آرئٹکل نمبر ۱۱ کے مطابق پاکستان میں غلامی کا کوئی وجود نہیں۔ پاکستان کے ہر شہری کو قانوں کے حدود میں رہتے ہوئے ہتھیار لیے بغیر اجتماعات کا حق حاصل ہے۔ تمام پاکستانیوں کو انجمن اور یونیں بنانے کا حق حاصل ہے۔ دستور آزادی تحریر و تقریر کی ضمانت دیتا ہے۔ آئین پاکستان کی رو سے ہر شہری کو "یکسان حقوق" حاصل ہیں۔ پاکستان کے آئین کی دفعہ ۳۷ کے مطابق پاکستان کے ہر شہری کسی بھی عہدے اور ملازمت کے لیے اہل ہیں وغیرہ وغیرہ۔
چلیے ان اصولوں کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہاں کہاں کالعدم اصول متعارف ہیں۔ پاکستان میں انتخاب کے حقوق یکسان ہے چاروں صوبوں میں رہنے والے شہری اپنے کسی بھی صادق و امین نمائندے کو منتخب کرسکتے و منتخب ہوکے جائے قومی اسمبلی اور اپنے علاقے کے حقوق مثلا تعلیم، صحت اور دیگر ضروریات کے لیے کوشش کرے۔ منتخب نمائندے عوام کی ترجمانی کرتے ہیں۔ کیونکہ جمہوریت کا مطلب ہی جمھور کے زریعہ بنے والی حکومت ہے یعنی Demos یعنی عوام caratia یعنی حکومت، یونانی اصطلاح میں Democaratia بمعنی عوام کے زریعہ سے بننے والی حکومت۔
ایسی حکومت کو کیا کہیں گے؟ جس میں عوام کو اپنے نمائندہ منتخب کرنے کا حق حاصل نہ ہو۔ بلکہ مسلط شدہ غیر منتخب حاکم ہو؟ آمریت کی تشریح کرنے کی کوشش کرے کیا پتہ درجہ بالا جملہ سمجھ آئے۔ وزیر اعظم کے انتخاب میں مجھے رائے دینا کا حق حاصل نہیں ہے! البتہ وفاقی مشیر جو کہ وزیر اعظم کا منتخب کردہ ہوگا میرے اوپر مکمل اختیار رکھتا ہے میں جس نمائندے کو منتخب کر کے قانوں ساز اسمبلی کے لیے اہل بناوں گا ان کو بھی وزیر اعظم اپنے اصولوں کے مطابق منتخب کرے گا۔
یہ بات سمجھ سے باہر ہے!
وزیر اعظم کو میں منتخب نہیں کرسکتا کیونکہ میں نیم پاکستانی ہوں تو پھر وزیر اعظم کو کیسے حق حاصل ہے کہ وہ وزیر اعلی کا انتخاب کرے۔ اس دستور کے بارے میں بہت سوچا انگریزی آئین پاکستان کو اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا کہ شاید سمجھنے میں دشوری ہو۔ ڈاکٹر صفدر محمود کا منتخب کردہ آئین پاکستان جو کہ سلیس اردو میں ہے باخدا تین بھر حرف با حرف پڑھنے کے باوجود بھی ایسا کوئی دستور نہیں مل کہ جس میں کہا ہو " وزیر اعظم کو منتخب کرنے میں اپ کو حق حاصل نہیں، بلکہ جگہ جگہ یہ دستور نظر سے گزارا آئین پاکستان کی رو سے تمام پاکستانیوں کو یکسان حقوق حاصل ہیں اور ہر پاکستانی اپنے نمائندہ کے لیے رائے دے سکتا ہے نا صرف رائے دی سکتا ہے بلکہ ووٹنگ کے زریعے نمائندے کا انتخاب بھی کرسکتا ہے "
جمہوری پاکستان میں جمہور کی کوئی حیثیت نہیں ! جیسا کہ مچھر دانی میں مچھر نہیں ہوتا جمہوریت میں جمہور نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم گلگت پہ کونسا نظام مسلط ہے پر Alfred cobbon کہتے ہیں "آمریت ایک فکر یا آدمی کی حکومت ہے جس میں تمام سیاسی قوتیں اس کی مرضی سے چلے " ریاست اور حکومت پاکستان توجہ کرے!
ہمارے سیاستدانوں کو چاہے کہ ایڈولف ہٹلر کی بد نام زمانے کتاب "Mein kamp"اور لینن کی انقلابی تحریک پر مبنی کتاب "The state Revolution" پڑھے تاکہ عقل ٹھکانے پہ اجائے کیسے فطری حقوق سے محروم محنت کشوں کے زریعہ سے چند گھنٹوں میں سلطنت کے بنیاد ہلائے جاسکتی ہیں۔ حقوق سے محروم لوگ جب علاقائیت و نظریہ کا طوق پہن کے بغاوت پہ اتر آتے ہیں تو دنیا کی سپر پاور بھی اپنی پوری توانائی کھو بیٹھتی ہے۔
یاد رہے دنیا میں ہر انسان پیدائشی طور پر امن پسند ہوتا پر حالات انسان کو بغاوت کرنے پر اکساتی ہے۔