Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Fikri Zawiye Aur Tazad

Fikri Zawiye Aur Tazad

فکری زاویئے اور تضاد

انسان ایک گوشت پوست کا پتلا ہے، مگر اس کا اصل سرمایہ اس کا قلب اور اس کی فکر ہے۔ یہی فکر ہے جو آدم کو مسجودِ ملائک بناتی ہے اور یہی فکر ہے جو ابلیس کو ابدی لعنت کا سزاوار۔ زمین کے ذروں میں رہنے والا انسان جب اپنی فکر کو آسمانی نور سے منور کر لیتا ہے تو وہ فرشتوں سے بھی بڑھ جاتا ہے اور جب یہی فکر ظلمت کے اندھیروں میں کھو جاتی ہے تو وہ درندوں سے بھی پست تر ہو جاتا ہے۔

ابلیس کی اولین لغزش بھی فکر کی کجی کا نتیجہ تھی۔ اُس نے سجدے کا انکار کیا، مگر اس انکار کا استدلال ایک گمراہ فکر پر مبنی تھا۔ کہا: "أنا خیر منه خلقتني من نار وخلقته من طين"۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ایک اعلیٰ مخلوق اپنی عقل کے غرور میں اندھی ہوگئی اور حقیقت کی روشنی سے محروم رہ گئی۔ ابلیس کے لیے گمراہی کی ابتدا اس لمحے سے ہوئی جب اس نے خدا کے حکم کو اپنی عقل کے ترازو میں تولنے کی جسارت کی۔

اسی فکرکے دو دھارے وقت کے بہاؤ میں نمایاں ہوتے ہیں۔ ایک فکر ہابیل کی تھی جو قربانی میں تقویٰ کو مقدم جانتا تھا اور ایک قابیل کی، جو ریا، حسد اور خود غرضی کی تصویر تھا۔ دونوں نے ایک ہی خمیر سے جنم لیا، ایک ہی ماں باپ کی گود میں پلے، مگر فکر کا زاویہ جدا تھا۔ ہابیل کی فکر سراطِ مستقیم کا مظہر بنی اور قابیل کی فکر گمراہی کی علامت۔ انسان کی نجات یا ہلاکت کا تعین اس کی فکرکے زاویے سے ہوتا ہے، نہ کہ اس کے حسب و نسب سے۔

یوسف اور ان کے بھائیوں کی داستان میں بھی یہی فکری تضاد نمایاں ہوتا ہے۔ ایک طرف یوسفؑ ہیں، جن کی فکر پاکیزگی، توکل اور صبر کا پیکر ہے۔ دوسری جانب بھائیوں کی فکر ہے، جسے حسد، دنیا داری اور خود غرضی نے اندھا کر دیا۔ مگر وقت کی کسوٹی ہر فکر کو بے نقاب کرتی ہے۔ آخرکار یوسف کی پاکیزہ فکر غالب آئی اور بھائیوں کو جھک کر اقرار کرنا پڑا کہ: "اللہ نے ہمیں گمراہ پایا اور آپ کو سچوں میں پایا"۔ 

اسی فکر کی بلند ترین مثال کربلا میں ملتی ہے، جہاں ایک طرف عمر بن سعد کھڑا تھا، جس نے حسینؑ کی حقانیت کو دل سے پہچانا، مگر دنیا کی حکومت کی حرص میں آنکھیں بند کر لیں۔ دوسری طرف حر بن یزید ریاحی تھا، جو یزید کی صف میں تھا، مگر اس کی فکر میں ابھی شرم باقی تھی، ضمیر زندہ تھا، اسی لیے سچائی کی روشنی نے اسے جھنجھوڑا اور اس نے تلوار کو رخ بدلنے پر مجبور کیا۔ حر کا قدم اس بات کی دلیل ہے کہ اگر فکر بیدار ہو جائے، تو راہِ ہدایت کی طرف لوٹنے کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔

آج بھی ہر فرد، ہر قوم، ہر ریاست، ہر مذہب، ہر تحریک کسی نہ کسی فکر کی پیروکار ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کس کے پاس طاقت زیادہ ہے یا لشکر کتنا بڑا ہے، سوال یہ ہے کہ فکر کس بنیاد پر قائم ہے۔ اگر فکر کا منبع وہی نورِ الٰہی ہے جو انبیاء کے سینوں سے ٹپکتا رہا، تو وہ فکر چاہے کتنی ہی کمزور دکھائی دے، وہی غالب آ کر رہتی ہے۔ کیونکہ فکر اگر صیح ہو تو اللہ معمولی ذرات کو بھی ظالموں کے خلاف ہتھیار بنا دیتا ہے۔ ابابیل جیسے ننھے پرندے، جن کے پروں میں کوئی شمشیر نہ تھی، ان کی چونچ میں کوئی تیر نہ تھا، مگر ان کی پشت پر خدا کا غضب سوار تھا اور اسی نے ابرہہ جیسے فخرِ طاقت کو خاک میں ملا دیا۔ اسی طرح ایک مچھر، جسے نمرود نے شاید کبھی محسوس بھی نہ کیا ہو، خدا کی طرف سے موت کا پیغام بن کر آیا اور طاقت کے گھمنڈ کو نیست و نابود کر گیا۔

یہی قانونِ خداوندی ہے: "جب فکر ظلم کے خلاف ہو، جب زبان سچ کے لیے بلند ہو، جب قدم حق کی طرف اٹھیں، تو فتح تمہارا مقدر ہے، چاہے تعداد میں اقلیت ہو یا وسائل میں کمی۔ " فکر کی درستگی کے بغیر، سراطِ مستقیم کا زبانی دعویٰ فقط ایک خودفریبی ہے۔ ہر فرقہ، ہر نظریہ، ہر جماعت خود کو حق پر سمجھتی ہے، مگر خدا کی دی ہوئی کسوٹی – قرآن، عقلِ سلیم، سیرتِ انبیاء – کے بغیر کوئی دعویٰ معتبر نہیں۔

آج کے دور میں بھی فکر کا بحران سب سے بڑا بحران ہے۔ تعلیم یافتہ معاشرہ ہو یا جاہل، ٹیکنالوجی سے مزین دنیا ہو یا بدوی قبائل، جب فکر مادیت پرستی، نفس پرستی، قوم پرستی اور تعصب کے دائرے میں قید ہو جائے تو ظلم جنم لیتا ہے اور جب فکر قرآنی حکمت، فطری عدل اور الٰہی نور سے جُڑ جائے، تو وہ فرد ایک حسینؑ بن جاتا ہے، جو چاہے تنہا ہو، مگر حق کا عَلَم اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

حسینؑ کی فکر یہ نہ تھی کہ "ہم قلیل ہیں اور وہ کثیر"، حسینؑ نے عدد نہیں دیکھا، مادّی وسائل نہیں گنے، بلکہ اپنی فکر کو خدا کے میزان میں تولا اور پھر فرمایا: "اگر دینِ محمدﷺ اسی وقت باقی رہ سکتا ہے جب ہمیں قربانی دینی پڑے، تو اے نیزو، آ جاؤ! " ایسی فکر ہی انسان کو ظالم کے سامنے سر اٹھانے کی ہمت دیتی ہے، چاہے سر تن سے جدا ہو جائے۔

جب انسان کی فکر غلام ہو جائے تو وہ سچ بولنے سے ڈرتا ہے، وہ ظالم کو ظالم کہنے سے کتراتا ہے، وہ خیر و شر میں فرق کھو بیٹھتا ہے اور اسے شب و روز، حق و باطل، نبی و فرعون، حسین و یزید میں فرق مٹنے لگتا ہے۔ یہی فکری زوال ہے جو ایک باعزت قوم کو محکوم بناتا ہے اور یہی فکری بیداری ہے جو غلامی کی زنجیروں کو توڑتی ہے۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر انسان اپنی فکر کو، اپنے ضمیر کو، اپنے نظریے کو خدا کی کتاب، انبیاء کی سیرت اور عقلِ سلیم کی روشنی میں پرکھے۔ صرف جذبات یا روایات پر نہیں، بلکہ دلیل، عدل اور حکمت پر ایمان لائے۔ ایک لمحہ کا اخلاص، ایک آنسو کا خلوص، ایک سجدے کی سچائی اگر درست فکرکے ساتھ ہو تو وہ دنیا کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ حر کی ایک سوچ نے کربلا کا نقشہ بدل دیا، ابابیل کا ایک وار ایک سپر پاور کی اینٹ سے اینٹ بجا گیا اور یوسفؑ کی صبر بھری سوچ نے مصری سلطنت کو عدل کا پیکر بنا دیا۔

یاد رکھو! فکر اگر بیدار ہو، تو غلامی کے زنجیر بھی ہار مانتے ہیں۔ اگر فکر حسینؑ جیسی ہو، تو کربلا جیسے میدان بھی تمہارے لیے جنت کا راستہ بن جاتے ہیں اور اگر فکر ابلیس جیسی ہو، تو ہزار برس کی عبادت بھی کسی کام نہیں آتی۔

نوٹ: مجلس ہفتم علامہ سید عارف حسین شاہ کاظمی کا خلاصہ 

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam