Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Fikr Ki Baghawat Aur Zehan Ki Azadi

Fikr Ki Baghawat Aur Zehan Ki Azadi

فکر کی بغاوت اور ذہن کی آزادی

یہ دنیا افکار کا سمندر ہے اور ہم اس میں تیرتے وہ آبی پرندے ہیں جن کے پروں پر یا تو روایتوں کا بوجھ ہے یا بغاوت کی ہوا۔ ہم اس معاشرے میں سانس لیتے ہیں جہاں سوچنا جرم ہے، سوال کرنا گناہ ہے اور اختلاف کرنا کفر کے مترادف۔ یہاں جو شخص خاندانی روایات، مذہبی تعصبات اور قومی تفاخر کے چابک سے باندھا نہیں گیا، وہ یا تو "گمراہ" کہلاتا ہے یا "باغی"۔ گویا عقل کی آنکھ کھلتے ہی تمھیں الزام کی صلیب پر چڑھا دیا جاتا ہے۔

یہ معاشرہ کھوپڑی کو صرف اس وقت قیمتی سمجھتا ہے جب وہ جھکی ہوئی ہو۔ جیسے کھوپڑی کوئی کاسۂ گدائی ہو جسے جھکانے سے خیراتِ قبولیت ملتی ہو۔ لیکن جو کھوپڑی سر اٹھا کر دیکھتی ہے، سوال کرتی ہے، تجزیہ کرتی ہے، اُسے "فالتو" اور "خراب" قرار دیا جاتا ہے۔ تمہاری سوچ اگر "نظریاتی لکیر" سے ذرا ہٹ جائے، تو تمھارے حصے میں تنہائی آتی ہے، تمغہ نہیں۔

تمھاری بغاوت تمہیں لوگوں کی نظروں میں "فتنہ پرور" بناتی ہے، لیکن درحقیقت یہی بغاوت وہ نطفہ ہے جس سے فکر کا جنین پیدا ہوتا ہے، جو آگے چل کر شعور کا بچہ بنتا ہے۔ وہ بچہ جسے جب تک بولنا نہ سکھایا جائے، وہ معاشرہ ہمیشہ گونگا رہتا ہے۔

مطالعے کی کتابیں مت چنو، بلکہ وہ کتابیں پڑھو جن پر سوالیہ نشان درج ہو، جن پر زمانے نے پانی چھڑک دیا ہو۔ علم وہی ہے جو ہجوم سے الگ ہو، جو دل و دماغ کی بیڑیوں کو توڑے، جو روح میں بغاوت کا چراغ روشن کرے۔ اُن انسانوں کی مجلس میں بیٹھو جن کے افکار روایات کے دھاروں سے ہٹ کر بہتے ہیں، جو فکرکے صحرا میں بھٹکنے سے نہیں ڈرتے۔ وہ جو میناروں کی صداؤں سے نہیں، ضمیر کی خاموش سرگوشی سے راستہ چنتے ہیں۔

کبھی اُن گلیوں کا بھی سفر کرو جن کے دروازوں پر "مت جانا" کی تختیاں لٹکی ہیں۔ علم کبھی دروازے کے باہر نہیں کھڑا ہوتا، وہ ہمیشہ اُس اندر کے حجرے میں بیٹھا ہوتا ہے جہاں جانے کی اجازت صرف اُنہیں ملتی ہے جو خوف سے آگے سوچتے ہیں۔

ہر مذہب کو پرکھو۔ ہر دھرم کو سمجھو۔ مگر تعصب کی عینک اتار کر۔ کیونکہ کوئی بھی عقیدہ پیدائشی سچائی نہیں ہوتا، وہ انسان کی سوچ، اس کے خوف، اس کے خواب اور اس کی امیدوں سے جنم لیتا ہے۔ وہ خیال جو انسانی دل و دماغ کے امتزاج سے پھوٹا، آج اُسے حتمی صداقت مانا جاتا ہے۔ مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر خیال انسان کے ذہن سے جنما ہے اور ہر ذہن سوال کے دریا سے سیراب ہوتا ہے۔

قوم پرستی کی چادر میں لپٹے لوگ تمہیں زمین کے ٹکڑے کے نام پر جینے اور مرنے پر اُکساتے ہیں۔ جیسے خاک کے اس ٹکڑے میں کوئی آسمانی تقدس دفن ہو۔ وہ تمہیں ماضی کی فتوحات کے مزار دکھاتے ہیں، حال کی محرومیوں سے نظریں چرا کر۔ تمہیں اپنی شناخت کا وہ بت دیتے ہیں جسے ہر وقت خون سے غسل دیا جانا ضروری ہے۔

ایسے ہر شخص سے دور رہو جو نفرت کی فصل اگاتا ہے، چاہے وہ مذہب کے پانی سے سیراب ہو یا قومیت کے خون سے۔ یہ لوگ تمہارے دل میں محبت کی جگہ خوف بوتے ہیں، تمہارے ذہن میں فکر کی جگہ نعرہ ٹھونستے ہیں اور تمہارے وجود سے انسان چھین کر ایک "پیروکار" بنا دیتے ہیں۔

انقلابیوں کے ساتھ بیٹھو، لیکن وہ انقلابی جو شعور کے کنویں سے سیراب ہوتے ہیں، صرف نعروں کے دھوئیں سے نہیں۔ جو صرف تختہ اُلٹنے کا خواب نہیں دیکھتے، بلکہ نظام بدلنے کی تربیت بھی دیتے ہیں۔ وہ تمہیں سوچنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں، دلیل کی روشنی میں جینا بتاتے ہیں اور تمہیں فکر کی ایسی آزادی دیتے ہیں جو کسی جھنڈے کی غلام نہیں۔

مذہب شناسوں کی محفل میں جاؤ، مگر اُن کے حلقے میں جو علمِ دین کو عقل کی چھلنی سے گزارتے ہیں۔ جو وحی کو انسانی فہم کے زاویے سے پڑھتے ہیں، جو فتوے سے زیادہ فکر پر یقین رکھتے ہیں، جو جنت کے وعدے سے زیادہ دنیا کی اصلاح کو اہم جانتے ہیں۔

نئی نسل کو وہی نہیں پڑھاؤ جو تمہیں پڑھایا گیا، بلکہ اُسے سوال کرنا سکھاؤ۔ اسے مت کہو کہ صرف "سچ بولنا" عظمت ہے، بلکہ بتاؤ کہ "سچ کو تلاش کرنا" سب سے بڑی عظمت ہے۔ اُس کے ذہن میں بند راستوں کو مت بناؤ، بلکہ اُس کے قدموں کے نیچے سوچ کی نئی پگڈنڈیاں بچھاؤ۔

ایسے جلسوں میں مت جاؤ جہاں ہر جملے کے بعد شور ہوتا ہے اور ہر شور کے بعد عقل پر تالیاں بجتی ہیں۔ وہ جلسے جہاں خیال نہیں، فقط جذبات ہوتے ہیں، جہاں دلیل نہیں، صرف تکرار ہوتی ہے، جہاں نیا کچھ نہیں سیکھا جاتا، صرف پرانے کو دہرایا جاتا ہے۔

جاؤ اُن تحریکوں میں، جو امن کا پیغام دیتی ہیں، جو مذہب اور قوم کے دائرے سے نکل کر انسان کو انسان بننے کا سبق دیتی ہیں۔ وہ لوگ جو دلوں کو جوڑتے ہیں، وہی اصل میں خدا کے قریب ہوتے ہیں۔ باقی سب تو بس شور ہیں، جو تمہاری سماعت چھین لیتے ہیں۔

آخر میں، تم سے یہی کہوں گا کہ تم اپنی سوچ کے چراغ کو بجھنے نہ دینا۔ چاہے آندھیاں کتنی ہی تیز ہوں، چاہے لوگ کتنے ہی فتوے دیں، چاہے تنہائی کتنی ہی تلخ ہو، تم اپنے ذہن کے دروازے کھلے رکھنا۔ کیونکہ بغاوت وہ خوشبو ہے جو صرف اُسی کے اندر پنپتی ہے جو خوف سے آزاد ہو اور ایسا شخص کبھی گمراہ نہیں ہوتا، وہ رہنما ہوتا ہے۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali