Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Dhoop Mein Jalte Hath

Dhoop Mein Jalte Hath

دھوپ میں جلتے ہاتھ‎

سورج اپنی تمازت کے عروج پر ہے، گویا آسمان کی چھاتی پر دہکتا انگارہ رکھ دیا گیا ہو۔ زمین تپش سے دھواں اگل رہی ہے، ہوائیں سنسان ویرانوں میں بھی دہکتے شعلوں کی مانند بھٹک رہی ہیں۔ چرند و پرند سب اپنی جان کی پناہ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ نہروں کے کنارے، کنوؤں کی تھالیوں اور گھاس کے سایوں میں حبس زدہ پرندے پانی کے چند قطروں کے لیے غوطہ زن ہیں۔

سرکاری و نیم سرکاری اداروں پر تالے پڑے ہیں، نجی کاروباروں کے دروازے سائیں سائیں کر رہے ہیں۔ سڑکیں ویران، بازار سنسان، گلی کوچے جیسے کسی نامعلوم آفت کے ڈر سے خالی ہو گئے ہوں۔

ایسے عالم میں، ایک نحیف الجثہ، جھریوں زدہ چہرہ، سر پر پرانی میلی پگڑی باندھے ایک بزرگ کسی سنسان شاہراہ کے کنارے اپنے شکستہ اوزارِ مشقت کو سینے سے لگائے بیٹھا ہے۔ امید کی کچی ڈور تھامے وہ نگاہیں دوڑاتا ہے کہ شاید کوئی مائی باپ آئے، مزدوری کا سوال کرے اور دو وقت کی روٹی کا سامان بنے۔

ہاں! یہی وہ محنت کش ہیں جنہیں دنیا نے ایک دن منسوب کیا ہے مگر جن کی قسمت میں آج بھی تپتے سورج تلے خون پسینے کا نذرانہ دینا مقدر ٹھہرا ہے۔ یہ دن بھی ان کے لیے باقی دنوں کی مانند "محنت یا موت" کا فیصلہ سنانے آتا ہے۔

اگر وہ ایک دن بھی رزق کی فکر سے دست کش ہو جائے تو اس کا چولہا بجھ جائے، اس کے بچوں کے لبوں پر بھوک کی پکار جم جائے۔ ان کی کہانی تو نسل در نسل لکھی جا رہی ہے، ان کے باپ دادا نے بھی مشقت کی خارزار راہوں پر قدم رکھے، کوڑے کھائے، پسینہ بہایا، مگر قسمت کی لکیریں وہیں کی وہیں رہیں۔

دھوپ کی تپش میں لوہے کے اوزار ان کے جھلسے جسم کو داغدار کرتے ہیں، مگر جھکی کمر، لرزیدہ ہاتھ اور زرد چہرہ پھر بھی مشقت سے باز نہیں آتا۔ ان کی آنکھیں، جن میں خوابوں کے بجائے صدیوں کی تھکن بسی ہے، بولتی ہیں۔ آنکھوں کے تال تلک اب انگاروں کی مانند دہکتے ہیں۔

شام ڈھلے جب یہ محنت کش اپنے پسینے اور تھکن سے شرابور بدن کے ساتھ گھر لوٹتا ہے، تو اپنے کچے صحن میں میلی پگڑی کو تکیے میں بدل کر نیند کے آسرے میں ڈوبنے کی کوشش کرتا ہے۔

چاروں طرف دیکھتا ہے تو دیواروں پر حشرات العرض رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کنبہ کی معصوم شکلیں دیکھ کر دل لرز اٹھتا ہے، بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

بزرگ ماں باپ کی جھریوں میں چھپی حسرتوں کو دیکھ کر آنکھوں سے بے ساختہ حسر ت ٹپکتی ہے۔ دل بے اختیار کہتا ہے:

"جائے تنگ است و مردباں بسیار! "

(جگہ تنگ ہے مگر بوجھ زیادہ!)

جب جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے تو دن بھر کی محنت کا حاصل، چند سکوں کی کھنک بن کر نکلتا ہے۔

چند سو روپے، جن سے فقط دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی کا بندوبست ممکن ہے۔

ان سکوں کی بےبسی دیکھ کر اس کا چہرہ پژمردہ ہو جاتا ہے۔

وہ کسی کونے میں بیٹھ کر ماضی کی تلخ یادوں کو کریدتا ہے۔

دل کے نہاں خانے میں کبھی کبھی استدراجی خیالات جنم لیتے ہیں۔

ایسے خیالات جو اسے غربت کا گلا گھونٹنے کی دعوت دیتے ہیں، مگر ضمیر کی قید، وقت کی بےرحمی اور معاشرتی رکاوٹیں اسے عمل سے باز رکھتی ہیں۔

اگلی صبح پھر سورج کی تمازت، پسینے کی ندیاں اور اوزارِ محنت کی طنابیں اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں۔

یہ روز کا معمول جاری رہتا ہے، دن مشقت کی سولی پر لٹکتا ہے اور رات بےخواب دعاؤں میں ڈوب جاتی ہے اور پھر ایک دن موت کا فرشتہ آتا ہے، چپکے سے دستک دیتا ہے اور یہ محنت کش اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں، ادھورے ارمانوں اور چھوٹے چھوٹے معصوم خوابوں کو سینے میں دفن کرکے خاک میں سو جاتا ہے۔

اس کا کچا مکان، پرانی پگڑی، زنگ آلود اوزار اور آنکھوں میں بسی امیدیں اس کی داستان کا کتبہ بن جاتے ہیں۔

کوئی کتبہ نہیں بنتا، کوئی سنگِ مرمر کا مزار نہیں بنتا۔

بس چند ٹھنڈی آہیں، چند آبلہ پا دعائیں۔

اور دنیا کی بےحسی کا ایک اور نوحہ!

ایسے محنت کش تاریخ کے صفحات پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔

مگر وقت کی بےرحم موجیں ان نقوش کو بھی آہستہ آہستہ مٹا دیتی ہیں۔

رہ جاتا ہے تو فقط وہی صدیوں پرانا سوال: "محنت کی عظمت کا نعرہ لگانے والے، محنت کشوں کو عزت کب دیں گے؟"

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali