Friday, 21 March 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Darwinism Mehaz Aik Nazriya Hai

Darwinism Mehaz Aik Nazriya Hai

ڈارونیزم محض ایک نظریہ ہے

کائنات ایک وسیع و عریض مخزنِ اسرار ہے، جس کے ہر ذرّے میں ایک نئی گتھی الجھی ہوئی ہے۔ حیات کا ارتقاء بھی ایک ایسی ہی گتھی ہے، جسے انسانی فکرنے ازل سے سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ چارلس ڈارون نے جب اپنی کتاب On the Origin of Species میں نظریۂ ارتقاء کو پیش کیا، تو گویا فکرِ انسانی کے سمندر میں ایک ایسا پتھر پھینک دیا، جس کی لہریں آج تک سائنسی، فلسفیانہ اور مذہبی مباحث کے ساحلوں سے ٹکرا رہی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ڈارونیت (Darwinism) حیات کی اصل حقیقت کو مکمل طور پر عیاں کر چکی ہے، یا یہ محض ایک جزوی نظریہ ہے جو ابھی نامکمل ہے؟

ڈارون ازم ایک فکری منار ہے، مگر کیا یہ روشنی کا منبع بھی ہے؟ اس نظریے کی بنیاد "قدرتی چناؤ" (Natural Selection) پر رکھی گئی ہے، یعنی جو جاندار اپنی بقا کے لیے موزوں ترین ہوتے ہیں، وہی نسل در نسل زندہ رہتے ہیں، جبکہ باقی نابود ہو جاتے ہیں۔ بظاہر یہ ایک سادہ سا تصور ہے، مگر حقیقت کی گہرائی میں اتر کر دیکھیں تو یہ ایک پیچیدہ فکری جال کی مانند ہے، جس میں کئی سوالات ایسے ہیں جو ابھی تک تحقیق کی بھٹی میں تپ رہے ہیں۔

بعض لوگوں نے ڈارونیت کو ایک ناقابلِ تردید حقیقت سمجھ کر اسے حرفِ آخر مان لیا، جبکہ کچھ نے اسے فوراً دیوانے کا خواب قرار دے کر رد کر دیا۔ درحقیقت، یہ نظریہ نہ تو آسمانی صحیفہ ہے جس پر ایمان لانا لازم ہو اور نہ ہی ایسا بودا خیال جسے بغیر تجزیے کے مسترد کر دیا جائے۔ ڈارونیت ایک سائنسی نظریہ ہے اور سائنسی نظریات ہمیشہ تغیر پذیر ہوتے ہیں، جیسے کسی دریا کا بہاؤ جو وقت کے ساتھ اپنا راستہ بدلتا رہتا ہے۔

یہ کہنا کہ ڈارون کا نظریہ حیات کی تمام گتھیوں کو سلجھا چکا ہے، ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ چاندنی رات میں جگنو کی روشنی سورج کے برابر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ارتقاء کی تعبیر کے کئی پہلو اب بھی تحقیق کے پردے میں مستور ہیں۔ جینیات، molecular biology اور فوسل کی دریافتیں اس نظریے کی کئی شقوں کو تقویت دیتی ہیں، مگر کئی بنیادی سوالات ایسے ہیں جن پر ابھی ارتقائی حیاتیات (Evolutionary Biology) کے ماہرین سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔

اگر ڈارون ازم کو حیات کے پورے سفر کا مکمل نقشہ قرار دیا جائے، تو یہ حقیقت سے نظریاتی انحراف ہوگا۔ ڈارون کا کام ایک سنگِ بنیاد ضرور تھا، مگر یہ کوئی مجسمہ نہیں کہ اس میں ترمیم ممکن نہ ہو۔ اگر ہم قدرتی چناؤ کو ہی واحد عامل مان لیں، تو پھر پیچیدہ حیاتیاتی نظاموں، جیسے انسانی آنکھ، دماغ اور جینیاتی کوڈ کی حیران کن مطابقت کو کس طرح سمجھایا جائے؟ کیا محض حادثات اور چناؤ کے ذریعے اتنے متوازن اور مربوط نظام وجود میں آ سکتے ہیں؟

یہی وہ سوالات ہیں جنہوں نے کئی مفکرین کو اس نظریے پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کیا ہے۔ کچھ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ ارتقاء میں محض قدرتی چناؤ ہی نہیں بلکہ جینیاتی تغیر، ماحولیاتی عوامل اور نامعلوم عوامل بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گویا ڈارونیت ایک ادھورا گیت ہے، جس کی دھن تو بج چکی ہے، مگر ابھی تک تمام سر مکمل نہیں ہوئے۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ کچھ لوگ یا تو ڈارونیت کو مذہب کی طرح اپنا لیتے ہیں، یا پھر اسے شیطانی خیال سمجھ کر اس پر بات کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تحقیق کسی نظریے کی مخالفت سے نہیں، بلکہ اس کے عمیق مطالعے اور تنقیدی تجزیے سے پروان چڑھتی ہے۔ اگر ہم کسی بھی علمی نظریے کو محض عقیدے کی عینک سے دیکھیں گے، تو علم کی روشنی ہم تک پہنچنے سے پہلے ہی تعصب کے دبیز پردوں میں تحلیل ہو جائے گی۔

ڈارونیت پر تنقید ہو سکتی ہے، مگر اسے رد کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی چاند کی موجودگی کو اس لیے جھٹلا دے کہ وہ رات کو نظر آتا ہے اور دن کو غائب ہو جاتا ہے۔ یہ نظریہ اپنی جگہ پر ایک مضبوط سائنسی بنیاد رکھتا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ واحد سچائی نہیں، بلکہ حیات کی گتھی سلجھانے کے ایک زاویے کا نام ہے۔ تحقیق کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے، کیونکہ اگر ہم کسی نظریے کو مطلق سچ یا مطلق باطل قرار دے کر تحقیق سے روک دیں، تو یہ علم کی ترقی کو تاریکی میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔

سائنس کا حسن ہی یہی ہے کہ یہ کبھی بھی کسی نظریے کو جامد نہیں ہونے دیتی۔ ارتقاء کی داستان ابھی مکمل نہیں ہوئی اور شاید آئندہ صدیوں میں ہم ایسے انکشافات دیکھیں جو ڈارونیت کے موجودہ فریم ورک کو مزید وسعت دے دیں، یا شاید کسی نئے نظریے کی بنیاد رکھ دیں۔ سچائی تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ تحقیق کا سفر جاری رہے اور تعصب کے بجائے دلیل کی روشنی میں ہر خیال کو پرکھا جائے۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Voice Of America Ki Yaadein (2)

By Mubashir Ali Zaidi