Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Darwinism, La Markism Aur New Darwinism Ka Fikri Tasadum

Darwinism, La Markism Aur New Darwinism Ka Fikri Tasadum

ڈارونیزم، لامارکیزم، اور نیو ڈارونیزم کا فکری تصادم

حیات کی کتاب کے صفحات ازل سے بکھرے پڑے تھے اور انسان نے ہمیشہ ان بکھرے لفظوں کو جوڑ کر کوئی مفہوم نکالنے کی کوشش کی ہے۔ زندگی کا ارتقاء کیسے ہوتا ہے؟ جاندار کس اصول کے تحت بدلتے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب میں کئی نظریات سامنے آئے، مگر تین بڑے فکری دھارے سب سے زیادہ اثرانداز ہوئے: لامارکیت، ڈارونیت اور نیو ڈارونیت۔ یہ تینوں نظریات ایک دوسرے کے خلاف کھڑے بھی ہوئے اور ایک دوسرے کو تقویت بھی بخشتے رہے۔ علم کی دنیا میں ارتقاء صرف جانداروں کا نہیں ہوتا، خیالات اور نظریات بھی اسی کشمکش سے گزرتے ہیں اور یہی کشمکش حقیقت کے قریب تر پہنچنے کا راستہ بناتی ہے۔

لامارک نے سب سے پہلے یہ تصور دیا کہ جاندار اپنی ضرورتوں اور خواہشات کے مطابق خود کو ڈھالتے ہیں اور یہ تبدیلیاں نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں۔ اگر کسی پرندے کو پانی میں شکار کرنا ہو تو اس کی چونچ لمبی ہو جائے گی، اگر کسی جانور کو دوڑنا زیادہ پڑے تو اس کی ٹانگیں مضبوط ہو جائیں گی۔ یہ سوچ فطری طور پر معقول لگتی تھی، مگر جب جینیات کی حقیقتیں سامنے آئیں تو یہ واضح ہوا کہ کوئی بھی جاندار اپنی زندگی میں حاصل کردہ خصوصیات کو اگلی نسل میں منتقل نہیں کر سکتا۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو پہلوانوں کے بچے پیدائشی طور پر طاقتور اور عالموں کے بچے ذہین پیدا ہوتے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔

پھر ڈارون آیا، جو لامارک کے برعکس قدرت کے کھیل کو ایک مختلف زاویے سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ فطرت میں ہر جاندار اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس جنگ میں وہی کامیاب ہوتا ہے جو سب سے زیادہ موزوں ہوتا ہے۔ یہ قدرتی چناؤ کا اصول تھا—ایک بےرحم مگر منصفانہ قوت جو کمزوروں کو مٹا دیتی ہے اور طاقتوروں کو آگے بڑھاتی ہے۔ زرافے کی گردن لمبی اس لیے نہیں ہوئی کہ اس نے ایسا چاہا، بلکہ جو زرافے فطری طور پر لمبی گردن کے ساتھ پیدا ہوئے، وہ بہتر طور پر خوراک حاصل کر سکے، زیادہ بچے پیدا کیے اور یوں ان کی خصوصیات نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں، یہاں تک کہ لمبی گردن والے زرافے غالب آ گئے اور چھوٹی گردن والے ختم ہو گئے۔

یہ نظریہ پہلے سے زیادہ سائنسی تھا، مگر یہ بھی مکمل نہیں تھا۔ ڈارون کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جینیاتی تغیرات کیسے ہوتے ہیں، یا یہ تبدیلیاں اگلی نسل تک کیسے منتقل ہوتی ہیں۔ یہاں نیو ڈارونیت کا آغاز ہوتا ہے، جو جدید جینیات کے ساتھ ڈارون کے نظریے کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب یہ واضح ہو چکا تھا کہ قدرتی چناؤ کے ساتھ ساتھ جینیاتی تغیرات بھی ارتقاء میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ تغیرات بعض اوقات حادثاتی طور پر ہوتے ہیں اور اگر یہ جاندار کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں تو وہ نئی نسلوں میں مستقل جگہ بنا لیتے ہیں۔

لیکن کیا ڈارونیت کے تمام اصول آج بھی اپنی جگہ قائم ہیں؟ نہیں، وقت نے کچھ نظریاتی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ڈارون کے دور میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ارتقاء ایک سست اور مسلسل عمل ہے، مگر جدید تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ بعض اوقات یہ بہت تیزی سے بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، نیو ڈارونیت کے باوجود بھی کئی سوالات باقی ہیں: کیا صرف اتفاقی تغیر اور قدرتی چناؤ ہی جانداروں کی پیچیدہ ساختوں کو بیان کر سکتے ہیں؟ انسانی دماغ کی حیران کن صلاحیت، آنکھ کا پیچیدہ ڈیزائن، یا جانداروں کے اندر موجود جینیاتی کوڈ کی غیرمعمولی ترتیب—کیا یہ سب محض حادثات کا نتیجہ ہیں، یا ابھی کوئی اور غیر دریافت شدہ قوت بھی کام کر رہی ہے؟

یہ وہ سوالات ہیں جنہوں نے ارتقاء کی تحقیق کو مزید آگے بڑھایا ہے۔ کچھ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ فطرت میں کوئی اور گہری منطق موجود ہے جو محض اتفاق اور چناؤ سے آگے کی چیز ہے۔ ایپی جینیٹکس، یعنی وہ عوامل جو کسی جاندار کے جینز کے اظہار کو متاثر کرتے ہیں، نے نئی بحثوں کو جنم دیا ہے۔ اگرچہ یہ تغیرات ڈی این اے کے اندر تبدیلی نہیں کرتے، مگر وہ اگلی نسلوں پر اثر ڈال سکتے ہیں اور یوں یہ نظریہ کسی حد تک لامارک کے خیالات کی بازگشت معلوم ہوتا ہے۔

یہ کہنا غلط ہوگا کہ ڈارونیت کو مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا ہے، کیونکہ جدید علم نے اس کے کئی پہلوؤں کو مزید تقویت دی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سائنس کبھی بھی کسی نظریے کو حرفِ آخر نہیں مانتی۔ نظریات ہمیشہ ترمیم و تنسیخ کے عمل سے گزرتے ہیں اور یہی سائنسی فکر کی خوبصورتی ہے۔ اگر ڈارون آج زندہ ہوتا تو وہ شاید اپنے ہی نظریے میں کچھ ترامیم کرتا، کیونکہ علم کا سفر کبھی مکمل نہیں ہوتا۔ ارتقاء صرف جانداروں تک محدود نہیں، خیالات بھی ارتقائی عمل سے گزرتے ہیں اور شاید مستقبل میں کوئی نیا نظریہ ڈارونیت کو وہی مقام دے جو ایک دن ڈارونیت نے لامارکیت کو دیا تھا۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan