Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Darinda Sifat Haiwan Numa Mard

Darinda Sifat Haiwan Numa Mard

درندہ صفت حیوان نما مرد‎

یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں مردانگی کی سند عورت کے خون سے لی جاتی ہے؟ یہ کیسی غیرت ہے جو صرف بیٹیوں، بہنوں اور عورتوں کے لیے جاگتی ہے، مگر بیٹے، بھائی اور مرد جب دن دہاڑے بے حیائی، ظلم، زنا اور فحاشی کے مناظر کا بازار گرم رکھتے ہیں تو غیرت گھنگرو باندھ کر سو جاتی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری غیرت درحقیقت بزدلی کا مقنعہ ہے اور ہم اپنی اخلاقی شکست کو نام نہاد عزت کی قبا میں چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں؟ ہم وہ لوگ ہیں جو کمزوروں پر شیر اور طاقتوروں کے سامنے گونگے بہرے ہو جاتے ہیں۔

بلوچستان کے کسی دور دراز گوٹھ میں، جہاں پہاڑوں کے سائے بھی وحشت کے رنگ لیے ہوتے ہیں، ایک بیٹی نے صرف پسند کی شادی کرنے کی جسارت کی۔ نہ وہ فرار ہوئی، نہ بد چلنی کی مرتکب ٹھہری، صرف اپنی خواہش زبان پر لائی۔ روایتوں کے ان اندھوں نے اس کو بدکاری کا مترادف سمجھا۔ اس پر گولیاں برسیں، گوشت کے چیتھڑے بکھرے، مگر کسی قبیلے کا خون نہ کھولا۔ وہاں غیرت تو جاگتی ہے، مگر صرف جب کوئی عورت اپنی مرضی کی بات کرے۔ کیا عورت انسان نہیں؟ کیا اس کی خواہش، اس کا خواب، اس کا دل، کوئی وقعت نہیں رکھتا؟ کیا غیرت صرف مرد کے غرور کا استعارہ ہے، جو عورت کی آزادی سے مجروح ہوتا ہے؟

یہ غیرت نہیں، یہ صدیوں پرانی وحشت ہے، یہ ذہنی افلاس ہے، یہ وہ سماجی ناسور ہے جو ہماری رگوں میں آباؤ اجداد کی پرستش کی صورت سرایت کر چکا ہے۔ ہم روایتوں کے ایسے غلام ہیں جنہیں نہ عقل کا چراغ نصیب ہوا، نہ دین کی اصل روح سے آگہی۔ ہم اس مقام پر آ کھڑے ہوئے ہیں جہاں روایت، مذہب سے بھی بالا تر ہو چکی ہے اور رسم، شریعت کے کندھوں پر چڑھ کر ناچ رہی ہے۔

عجیب المیہ ہے، جہاں ماں کی کوکھ سے پیدا ہونے والی بیٹی، ایک دن اسی ماں کی گود میں خون میں لت پت رکھ دی جاتی ہے، صرف اس لیے کہ اس نے اپنی زندگی کے فیصلے میں کچھ کہنا چاہا۔ مرد حاکم ہے، قاضی بھی، جلاد بھی۔ عورت صرف مجرم ہے، کیونکہ وہ عورت ہے اور جرم یہ کہ وہ سوچنے لگی ہے، پسند کرنے لگی ہے، جینے لگی ہے! وہ زبان سے بغاوت کا لفظ ادا کرے تو قتل، نہ کرے تو بدکار۔ گویا اس کا وجود ہی گناہ ہے۔ وہ پیدا ہو تو بوجھ، وہ بڑھے تو خطرہ، وہ مسکرائے تو فتنہ، وہ محبت کرے تو فحاشہ!

ان خون آشام رسوم کے محافظ اکثر وہی ہوتے ہیں جن کے گھروں میں ماں، بہن، بیوی موجود ہوتی ہیں، مگر وہ ان عورتوں کو اپنی عزت کا نمونہ مانتے ہیں اور باقی دنیا کی عورتوں کو گالی۔ کیا عزت اتنی ہی کمزور چیز ہے کہ ایک عورت کی پسند سے خاک ہو جائے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ دینِ اسلام میں شادی جیسے اہم فریضے میں رضا کو کتنا مقدم رکھا گیا ہے؟ لیکن ہم نے دین کو بھی اپنی مرضی کا لباس پہنا دیا ہے، جہاں فتویٰ صرف عورتوں پر صادر ہوتا ہے۔

غیرت کے نام پر قتل کوئی نیا واقعہ نہیں، یہ ایک مسلسل جاری اجتماعی قتل ہے۔ صرف بلوچستان میں نہیں، سندھ، پنجاب، خیبرپختونخوا، حتیٰ کہ گلگت بلتستان جیسے علاقہ جات میں بھی بیٹیوں کی لاشیں صرف اس لیے ٹھنڈی مٹی تلے دفن کی جاتی ہیں کہ وہ محبت کرنے کی جرات کر بیٹھیں اور المیہ یہ ہے کہ ریاست خاموش تماشائی ہے، عدالت اندھی اور سماج بہرہ۔ قبیلے، برادریاں اور روایات کے محافظ صرف اس وقت ایک ہوتے ہیں جب کسی عورت کو روندنا ہو۔ ان کے غیرت کے پیمانے صرف نسوانیت کے وجود سے ہی لرزتے ہیں۔ اگر یہی جرم کسی مرد سے سرزد ہو، تو اسے بہادری، شجاعت اور خودمختاری کی سند ملتی ہے۔

عورت کو اگر بغاوت کی جرأت ہو، تو وہ واجب القتل، مگر اگر وہ چپ رہے، تو مظلوم۔ ایک ایسی مخلوق جو جیتے جی بھی ماری جاتی ہے اور مرنے کے بعد بھی انصاف سے محروم رہتی ہے۔ یہ معاشرہ درحقیقت زندہ لاشوں کا مجموعہ ہے۔ نہ یہاں دل دھڑکتے ہیں، نہ ضمیر جاگتے ہیں۔ یہاں "خون سفید" نہیں، بلکہ "خون بے قیمت" ہو چکا ہے۔ یہاں کوئی بیٹی جب قتل ہوتی ہے تو دیواریں نہیں کانپتیں، بلکہ چولہے ٹھنڈے پڑتے ہیں اور کہرام کے بیچ "شکر ہے عزت بچ گئی" جیسے مکروہ جملے سنائی دیتے ہیں۔

کاش کوئی پوچھے: کیا عزت خون سے زیادہ قیمتی ہوتی ہے؟ وہ ماں جو اپنی بیٹی کی لاش پر نوحہ کرتی ہے، اس کی چیخیں آسمان کو چیر دیتی ہیں، مگر زمین پر بسنے والے لوگ بدستور خاموش رہتے ہیں۔ وہ معاشرہ مردہ ہوتا ہے جسے عورت کی تڑپ محسوس نہ ہو، جسے کسی بیٹی کے قتل پر غیرت نہ آئے، بلکہ تسکین ہو۔ ہم سب اس جرم میں برابر کے شریک ہیں: خاموشی سے، روایات کی وفاداری سے اور غیرت کے جھوٹے جھنڈے سے۔

ہمیں اب یہ مان لینا ہوگا کہ غیرت کے نام پر قتل دراصل مردانہ انانیت کا نشہ ہے، یہ جرائم ریاستی بے حسی کی پیداوار ہیں۔ قانون کو سخت بنائیں، مگر اس سے بھی پہلے ذہنوں کی تطہیر ضروری ہے۔ علماء کو چاہیے کہ وہ اس پر کھل کر فتویٰ دیں، تاکہ یہ دین کا حصہ نہ سمجھا جائے۔ اساتذہ، والدین اور ہر فرد معاشرے میں عورت کی شناخت، اس کے حقوق اور اس کی آزادی کو تسلیم کرے۔ جب تک ہم عورت کو ایک مکمل انسان نہیں مانیں گے، یہ معاشرہ مکمل انسانوں کا معاشرہ نہیں کہلا سکتا۔

ایک دن مورخ لکھے گا کہ یہ وہ قوم تھی جو بیٹیوں کو زندہ دفن کرتی تھی، پہلے مٹی میں، پھر گولیوں میں اور پھر خاموشی میں۔۔ کاش ہم اس تاریخ سے پہلے بیدار ہو جائیں۔ بیٹیاں محبت کے قابل ہیں، رشتوں کی امانت ہیں اور سب سے بڑھ کر انسان ہیں۔ اگر ہم نے اب بھی زبان نہ کھولی، تو ہر آنے والی نسل ہمیں قاتلوں کی قوم کہے گی۔ وقت ہے کہ آواز اٹھائیں، بیٹیوں کے لیے، انصاف کے لیے اور اس جھوٹے "غیرت" کے خلاف جو صرف خون مانگتی ہے۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam