Betiyan Buland Muasharti Iqdar Ki Zamin
بیٹیاں بلند معاشرتی اقدار کے ضامن
فرد سے افراد اور افراد سے خاندان اور خاندان سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور میاں بیوی معاشرے کے بنیادی عناصر ہیں۔ فطری قانون کی رو سے اولاد کی تربیت، نان نفقہ اور تمام لوازماتِ زیست مہیا کرنے کے زمہ دار والدین ہیں۔ ایک صحت مند اور اعلی اقدر سے بھرپور معاشرے کی تشکیل کے لیے میاں بیوی میں انسیت اور الفت کا ہونا ضروری ہے کیونکہ معاشرہ اعلی اقدار کے ساتھ پروان تب چڑھتا ہے جب دونوں میں خلوص اور محبت ہو۔
بدقسمتی سے ہمارے سماج میں پسندیدگی کے پہلو کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے اور اکثر رشتوں میں سمجھوتے ہوتے ہیں اور لڑکے لڑکیوں سے پوچھے بغیر خاندان کے بڑے خاندان میں ہی رشتہ طے کردیتے ہیں اس میں نا عمر کا لحاظ رکھا جاتا ہے نہ پسند اور ناپسند کا۔ جس عمر میں ان کی شادی ہوتی ہے اس عمر میں وہ اپنے بڑوں اور رشتہ داروں کے خوف سے کچھ نہیں کہتے البتہ جب انہیں یہ اندازہ ہونے لگتا ہے کہ اب ہم زندگی کے تمام فیصلے خود سے کر سکتے ہیں تو ایک دوسرے میں نقائص نکالنا شروع کردیتے ہیں لڑکیاں بچے ہونے کے بعد سمجھوتہ کر ہی لیتی ہیں مگر مرد تسلسل کے ساتھ بچے بھی پیدا کرتے اور اسی تیزی کے ساتھ رشتہ کو خراب کرنے کے لیے شبہات بھی پیدا کرتے ہیں۔
ان کا بنیادی مقصد رشتہ کو ختم کرنا ہوتا ہے اور طرح طرح کے بہانے تلاش کرنے لگتے ہیں اور ایسے مرد اپنی ناپسند بیگم سے ہونٕے والے بچوں کی بنیادی ضروریات مثلا کھانا پینا اور تعیلم تک سے غافل رہتے ہیں ہے اور ان کی نامردنگی کی انتہا کو جب پوچھتی ہے جب وہ اپنی بیوی پہ غلیظ الزامات لگاتے ہیں اور طلاق دیتے ہٕیں یا پھر گھر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے بعد ایک لاچار ماں اور دور دور تک بے بسی ہوتی ہے ہمارے معاشرے کی ستم ظریفی یہ ہے جس خاتون پہ خاوند الزام لگاۓ وہ خاتون خونی رشتوں سے بھی محروم رہتی ہے۔
ایسی خواتین معاشرے میں نکلتی ہیں دن رات ایک کرتی ہیں اپنی پوری توانانی اپنے بچوں پہ صرف کرتی ہیں اور اپنے بچوں کو محنت سے پروان چڑھاتی ہیں اور خواب دیکھتی ہیں کہ اب یہ جوان ہونگے اور کاندھوں سے بوجھ ہلکا کرینگے۔ مگر شہروں میں بیٹیاں ماں کے شانہ باشانہ کھڑی تو ہوتی ہیں اور مگر بیٹے بے لگام گھوڑے کی طرح چاروں جہدوں میں میسر غلاظت کو اپنے وجود میں منتقل کرنے میں لگے رہتے ہیں تمام فطری اور غیر فطری امور سے استفادہ کرتے ہیں۔
جوانی جب عروج کو پوچھتی ہے تو خود نمائی کا خیال آتا اور حسن پرستی کا دلدادہ بن جاتے ہیں اور معاشرہ میں میسر شدہ لڑکی کے جال میں پھنس جاتے ہیں ایسی دسترس شدہ لڑکی جس سے کسی پروگرام، علاقے، پارک یا سوشل میڈیا پلیٹفارم پہ ملاقات ہوئی ہوتی ہیں اس سے عشق لڑنا شروع کردیتے ہیں۔۔ ظاہر ہیں ایسی میسرہ شدہ لڑکیاں کوئی اچھی سلجھی ہوئی لڑکیاں تو نہیں ہوتی اور باکردار لڑکیاں چلتے پھرتے لڑکوں سے اظہارِ محبت کریں کیسے ممکن ہیں؟
مگر اکثر خردماغ نوجوان اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کیونکہ ان کی ذھن میں شہوت اور حسن پرستی عروج کو پہنچی ہوئی ہوتی ہے اور ناسمجھی میں اکثر ماں کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں والدہ کے انکار کرنی پہ گھر چھوڑنے اور خودکشی کرنے کی دھمکی دیتے ہیں مائیں تو آخر مائیں ہوتی ہیں وہ نا چاہتے ہوئے بھی ہاں کردیتی ہیں تاکہ باپ کی طرح بیٹا بھی باغی نا ہو۔
اب ایسی دسترس شدہ لڑکیاں ایسے نا فہم لڑکوں کے ذھن پہ مستقل سوار رہتی ہیں اور آہستہ آہستہ ماں بہنوں کے لیے شبہات پیدا کرنا شروع کردیتی ہیں تاکہ بہنوں کی جلدی شادی ہو اور وہ تنہا مالکن بنے ایسے ناسمجھ نوجوان اپنی معشوقہ کے باتوں میں اکے اپنی سگی بہنوں اور والدہ پہ بہودہ الزامات لگاتے ہیں اور اکثر مائیں اپنی بیٹوں کی عزت بچانے کی خاطر جلد بازی میں رشتہ طے کرتی ہیں اور سلجھی ہوئی لڑکیاں پھر انجان مردوں کے سپرد ہوجاتی اور بیٹیاں پھر ماں بن کے بے بس ہوجاتی۔
ایسے غلط فیصلوں سے تباہ شدہ گھر خاندانی پستی کی طرف گامزن ہوتے ہیں۔ ایسی ماٶں کی محنت اپنی جگہ مگر بیٹوں کی شادی میں تحقیق کرنی چاہیے بیٹے نا گھر چھوڑتے ہیں نا ہی خودکشی بس حصولِ مقصد کے لیے ڈرامہ رچاتے ہیں۔ بیٹیوں کو انجان لوگ کے سپرد کرنے کے بجاۓ ان کو حوصلہ دینا چاہیے ان کو ذھنی طور پر مضبوط بنانا چاہیے کیونکہ ماٶں کے حوصلوں سے پرواں چڑھنے والی یہ بیٹیاں ایک منظم معاشرے کی تشیکیل میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں اور پست معاشرتی اصولوں کو پروں تلے روندتے ہوۓ معاشرے میں موجود ہر بے بس اور لاچار دختر حوا کی آواز بن سکتی ہیں۔