Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Be Aqlon Ki Riyasat

Be Aqlon Ki Riyasat

بے عقلوں کی ریاست‎

یہ ملک اب محض ایک جغرافیائی حد نہیں، بلکہ ایک متزلزل شعور کی علامت بن چکا ہے، ایسا شعور جو اپنی بنیادوں سے کٹ کر بے‌سمتی کے خلا میں معلق ہے۔ ریاست کا وجود آج ایک بوسیدہ عمارت کی مانند ہے جس کے ستون اپنی ہی زنگ‌آلود جڑوں میں تحلیل ہو رہے ہیں۔ باطن و ظاہر دونوں میں اضطراب کا شور ہے، داخلی انتشار نے قوم کے باطن کو چھلنی کر دیا ہے اور خارجی دباؤ نے اس کے وقار کو ریزہ ریزہ کر دیا ہے۔

اندرونِ وطن، بغاوتوں کے خنجر ریاستی رگوں میں پیوست ہیں۔ مذہبی منافرت نے معاشرتی رگوں میں ایسا زہر اتارا ہے جو نسلوں تک سرایت کر چکا ہے۔ گلگت بلتستان کی وادیوں میں فرقہ واریت کی آتش زیرِ خاکستر دہک رہی ہے، بلوچستان کے پہاڑ احساسِ محرومی سے چیخ رہے ہیں، سندھ کے صحراؤں میں عدل کی ہوا ناپید ہے اور کراچی کے بوسیدہ چہروں پر ناانصافی کی گرد جم چکی ہے۔

یہ وہی مملکت ہے جس کے خمیر میں"ایمان، اتحاد اور نظم" کی خوشبو تھی، مگر آج اس خوشبو پر مفاد کی بدبو غالب آ چکی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ، جو کبھی دفاعِ وطن کی علامت تھی، اب سیاست کی دلدل میں دھنسی ایک مقتدرہ قوت بن چکی ہے۔ اس کے فیصلے وہ خفیہ طومار ہیں جو عوامی مفاد کے خون سے لکھے جاتے ہیں۔ سیاستدانوں کو وہی درجہ حاصل ہے جو مہرے کو شطرنج میں ہوتا ہے، حرکت میں ضرور ہے مگر اختیار میں نہیں۔

یہاں جمہوریت کے علم تلے آمریت کے سائے ہیں اور قانون کی کتابوں میں انصاف محض ایک فصیح لفظ ہے، بے روح، بے معنی۔ نو مئی جیسے واقعات نے اس ملک کی سیاسی روح کو چیر کر رکھ دیا ہے۔ ایک سیاسی جماعت پر شب خون، دوسری پر پابندی، تیسری پر مفاہمت کی زنجیر اور پھر کہا جاتا ہے کہ نظامِ آئین سلامت ہے! کیسا عجب مذاق ہے یہ، جہاں آئین بھی اقتدار کے تپتے تھال پر بچھا دیا گیا ہے۔

یہ ملک اب "دارالفساد" کی حدوں کو چھو رہا ہے، جہاں ہر ادارہ دوسرے کے اختیار پر حملہ آور ہے۔ عدلیہ نے اپنے آئین کو مصلحت کے لحاف میں لپیٹ رکھا ہے، پارلیمان اپنے وجود پر شرمندہ ہے اور عوام اپنی بقاء کے لیے خود اپنے خوابوں کا سودا کر رہی ہے۔ یہاں انصاف کا معیار چہروں سے ناپا جاتا ہے، کرداروں سے نہیں اور حب‌الوطن کی تعریف حکم دینے والے لکھتے ہیں، جینے والے نہیں۔

بین‌الاقوامی سطح پر ہماری حیثیت اب ایک شکستہ سفارت کے مترادف ہے۔ کبھی ایران کے ساتھ سفارتی نوک‌ جھونک، کبھی افغانستان سے سرحدی تکرار، کبھی ہندوستان سے نفسیاتی جنگ، مگر ان سب میں ہم ہمیشہ "ردِعمل" کی قوم ثابت ہوئے، "عمل" کی نہیں۔ نہ ہمیں بین‌الاقوامی بصیرت حاصل ہے، نہ داخلی نظم کی حکمت۔ ہمارے حکمران اقتدار کے افق پر طلوع ضرور ہوتے ہیں مگر بصیرت کے مغرب میں ہمیشہ غروب۔

ہماری داخلی پالیسی اس قدر پراگندہ ہے کہ تعلیم، معیشت اور اخلاق، تینوں کو زوال کے گڑھے میں پھینک دیا گیا ہے۔ قوم کا نوجوان اب علم کے حصول کے لیے نہیں، بلکہ نوکری کے بھیک‌نامے کے لیے تعلیم حاصل کرتا ہے۔ جامعات سے فارغ ہونے والے طلبہ اپنے خوابوں کے جنازے خود اٹھاتے ہیں۔ استاد، عالم، مفکر، یہ سب الفاظ اب اس معاشرے میں طنز بن چکے ہیں۔

یہ وہ مملکت ہے جہاں ہر شخص اپنے مفاد کا محافظ ہے، مگر ریاست کے مفہوم کا منکر۔ یہاں ہر شہری "انا" کے بت کا پجاری ہے۔ ہر ادارہ اپنے دائرے سے تجاوز کرتا ہے اور قانون ایک مسخ شدہ آئینہ ہے جس میں ہر کوئی اپنی مرضی کا عکس دیکھتا ہے۔ "اپنی لاٹھی اپنی بھینس" کا محاورہ اب ہماری قومی فلسفۂ حیات بن چکا ہے۔

دولت نے ضمیر کو غلام کر دیا ہے، مذہب نے عقل کو قید کر لیا ہے اور سیاست نے اخلاق کو فنا کر دیا ہے۔ قوم کا اجتماعی شعور "خوابِ غفلت" میں ہے، جہاں ظالم، مظلوم کے کاندھے پر کھڑا ہو کر انقلاب کا نعرہ لگاتا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ اس مملکت کے زوال کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا وہ عوام جو ہر بار دھوکے کو تقدیر سمجھ لیتی ہے؟ یا وہ حکمران جو ریاست کو اپنی جاگیر سمجھ کر نسلوں تک بانٹ دیتے ہیں؟ یا وہ مقتدرہ جو نظام کے پسِ پردہ اس کی نبض اپنے ہاتھوں میں رکھے بیٹھی ہے؟

شاید قصور سب کا ہے، کیونکہ ہم نے اصولوں کو قربان‌گاہ پر رکھ کر مصلحت کی قربانی دی۔

یہ ملک اب ایک ایسے خواب کی مانند ہے جو آنکھوں میں تو روشن ہے مگر حقیقت میں دھندلا۔ ہم نے اپنے ماضی کو دفن کر دیا اور مستقبل کو گروی رکھ دیا۔ وہ ریاست جو کبھی اُمّت کی امید کہلاتی تھی، آج اپنے ہی وجود کی گواہی مانگ رہی ہے۔

مگر ابھی چراغِ اُمید بجھا نہیں۔ اگر عسکری قوت اپنی اصل سرحدوں تک محدود ہو جائے، سیاستدان اقتدار نہیں بلکہ خدمت کو مقصد بنائیں اور عدلیہ اپنے فیصلوں کو ضمیر کے آئین سے تولے، تو شاید یہ بدنِ ریاست پھر سے سانس لے۔ قوموں کی حیات توپ و تفنگ سے نہیں، قلم و کردار سے سنورتا ہے۔

ہمیں اب کسی شورش نہیں، شعور کی ضرورت ہے۔ ہمیں کسی انقلاب نہیں، احتسابِ ذات کی حاجت ہے۔ جب تک ہم اپنی فکری غلامی سے آزاد نہیں ہوتے، کوئی نظام، کوئی آئین، کوئی رہبر ہمیں نجات نہیں دے سکتا۔

یہی وقت ہے کہ ہم اپنے دلوں میں ایک نیا "میثاقِ شعور" لکھیں، ایسا عہد جو ریاست کو دوبارہ انسانیت کا پیکر بنائے، جہاں عدل تلوار نہیں، میزان بنے اور سیاست مکر نہیں، خدمت کا استعارہ ہو۔

ورنہ یاد رکھو، اگر شعور مر جائے تو ریاست صرف ایک قبر بن جاتی ہے، جس پر ہر آنے والا فاتح اپنی تختی نصب کر دیتا ہے۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari