Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Barood Mein Lipti Wafa Ki Qabrain

Barood Mein Lipti Wafa Ki Qabrain

بارود میں لپٹی وفا کی قبریں‎

زمین کے سینے پر جب بارود کی فصل بوئی جاتی ہے، تو اس کا پھل صرف لاشیں ہوتے ہیں، وہ لاشیں جو سروں پر کفن لیے، وطن کی مٹی میں دفن ہو جاتی ہیں اور جن کے قبروں پر کبھی کوئی جنرل پھول نہیں چڑھاتا۔ جنگیں ہمیشہ وزیروں کی میزوں پر کھیلی جاتی ہیں، لیکن ان کے ملبے تلے دبنے والے صرف وہ ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں قلم ہونا چاہیے تھا مگر انہیں بندوق تھما دی گئی۔

جب پاک بھارت سرحد پر کشیدگی بڑھتی ہے، تو خبروں میں جو "ہیرو" بنتے ہیں، وہ وزیر، مشیر اور جرنیل ہوتے ہیں، لیکن اصل ہیرو، جو اپنی چھاتی گولیوں کے سامنے کرتا ہے، وہ صرف ایک عام سپاہی ہوتا ہے، ایک غریب کا بیٹا، جو ماں کی دعا لے کر جنگ کے اندھے کنویں میں کود جاتا ہے۔ جس کی جیب میں بس ایک تصویر ہوتی ہے: اپنی بوڑھی ماں کی، یا اپنی ننھی بیٹی کی، جس نے شاید ابھی "ابو" کہنا سیکھا ہی ہوتا ہے۔

دھرتی جب سسکتی ہے، تو اس کی آہوں میں صرف ان ماؤں کے نوحے ہوتے ہیں جن کے لال شہید کہلا کر سیاستدانوں کے بیانات کی زینت بن جاتے ہیں۔ جنہیں سچ بولنے کی اجازت نہیں، جن کے آنسو حب الوطنی پر سوال نہ بن جائیں۔ جنگ کے دنوں میں وہ اشرافیہ جنہوں نے کبھی گولی کی آواز بھی فلموں میں سنی ہوتی ہے، ایوانوں میں بیٹھ کر جنگی ترانے لکھواتے ہیں اور غریبوں کے بچوں کو "شہادت" کے لالی پاپ دے کر توپوں کے آگے کھڑا کر دیتے ہیں۔

یہ جنگیں صرف مٹی کے ٹکڑوں کے لیے نہیں لڑی جاتیں، یہ تخت و تاج کے شوقین بادشاہوں کی "شہ مات" کی بساط ہوتی ہیں۔ عام آدمی کی جان ایک پیادے کی طرح قربان ہو جاتی ہے، نہ کوئی ماتم، نہ کوئی حساب۔ امیر کے بچے تو کسی مغربی یونیورسٹی میں "سیاست اور سفارت" پڑھ رہے ہوتے ہیں اور غریب کا بچہ بارڈر پر "موت اور شہادت" کی تعریف سیکھ رہا ہوتا ہے۔

جرنیلوں کی وردیوں پر چمکتے تمغے دراصل ان سپاہیوں کے خون کے داغ ہوتے ہیں، جنہیں وہ کبھی پہچانتے بھی نہیں اور جب امن کی فاختائیں اڑتی ہیں، تو ان کے پروں میں صرف وہی رنگ رہ جاتے ہیں جو اشتہارات میں دکھائے جا سکتے ہیں، جذبات، حقیقت اور آنسو کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

کیا کبھی کسی جنرل نے اپنے بیٹے کو سرحد پر بھیجا؟ کیا کسی وزیر نے اپنی اولاد کو مورچوں میں سونے دیا؟ نہیں، کیونکہ ان کے بچے قوم کی "امیدیں" ہیں اور غریب کے بچے قوم کے "قربانیاں"۔ وطن کے نام پر قربانی صرف وہی دیتا ہے جس کے پاس کھونے کو سب کچھ ہوتا ہے اور بچانے کو کچھ نہیں۔

جب توپیں گرجتی ہیں، تو صرف وہ چھتیں لرزتی ہیں جن پر پہلے ہی غربت کی دراڑیں پڑی ہوتی ہیں۔ جنگوں کا شور صرف ان گھروں کو اجاڑتا ہے جہاں روٹی بھی ناپ تول کر کھائی جاتی ہے اور خواب صرف چھت کی مرمت تک محدود ہوتے ہیں اور پھر، جب جنگ ختم ہوتی ہے، تو فاتح وہ ہوتے ہیں جنہوں نے لڑا نہیں اور مقتول وہ جنہوں نے جینا سیکھا بھی نہ تھا۔ گاؤں کے قبرستان چند اور قبروں سے بھر جاتے ہیں اور شہر کے محلات کچھ اور اونچے ہو جاتے ہیں۔

جنگ، اے سادہ لوح سپاہی، کبھی بھی تمہارے لیے نہیں تھی۔ یہ ہمیشہ ان کے لیے تھی جو جنگ کو کھیل سمجھتے ہیں اور تمہیں مہرہ۔ تم مرے تو "شہید"، وہ جئے تو "فاتح"۔ تمہاری ماں روئے تو قربانی، ان کی ماں مسکرائے تو قیادت۔

سوال صرف یہ ہے: کب تک؟ کب تک تمہاری قربانیوں سے ان کے بینک بھرے جائیں گے؟ کب تک تمہارا خون ان کے بیانات کی روشنائی بنے گا؟ کب تک تم لڑو گے اور وہ خواب دیکھیں گے؟

کب تم پوچھو گے: "اگر یہ جنگ واقعی ہماری ہے، تو تمہاری اولادیں کہاں ہیں؟"

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam