Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Barood Ke Dhuen Mein Jalti Naslen

Barood Ke Dhuen Mein Jalti Naslen

بارود کے دھوئیں میں جلتی نسلیں‎

تاریخ کی چٹانوں پر کندہ تحریریں چیخ چیخ کر بتاتی ہیں کہ جنگ کبھی کسی قوم کی حقیقی فتح نہیں ہوتی، بلکہ یہ انسانیت کی اجتماعی شکست کا ماتم ہوتی ہے۔ برصغیر، جو کسی زمانے میں محبت، صوفیاء، سنتوں اور تہذیبوں کا گہوارہ تھا، آج ایک بار پھر بارود کے بارگاہ میں جھکا کھڑا ہے۔ پاکستان اور بھارت، دو ایٹمی طاقتیں، سفارتی جملوں، اشتعال انگیز بیانات اور سوشل میڈیا کی چیخوں میں گھِر کر ایک ایسی راہ پر گامزن ہیں، جس کا انجام صرف تباہی ہے، وہ تباہی جو بینائی کے بجائے بصیرت سے دیکھی جا سکتی ہے۔

اگر جنگ ہوئی، تو مرنے والے نہ نریندر مودی ہوں گے، نہ آصف زرداری۔ نہ امیت شاہ کا بیٹا کسی مورچے میں بیٹھے گا، نہ بلاول بھٹو بارود کی مہک سونگھے گا۔

مارا جائے گا وہ نوجوان جس نے غربت سے تنگ آ کر فوج کی وردی پہنی، وہ جس کا باپ کسی گاؤں میں مزدور ہے، یا وہ جو اپنی ماں کی دوائی کے لیے ہر مہینے تنخواہ کا انتظار کرتا ہے۔ وہ غریب، جس کی زندگی کی پوری معیشت ایک وردی، ایک رائفل اور ایک پرچم سے بندھی ہے، وہ بارود میں جلے گا، نہ کہ وہ جو اے سی کمروں میں بیٹھ کر جنگی بیانیے گھڑتے ہیں۔

یہ کیسا المیہ ہے کہ وطن پرستی کے نعرے ہمیشہ اُن کے منہ سے بلند ہوتے ہیں جن کے اپنے بچے بیرونِ ملک تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ مذہب کے نام پر مرنے کی بات وہ کرتے ہیں جنہوں نے خود کبھی کسی عبادت گاہ کی صف بھی نہیں جھاڑی۔

جنگ کی دہکتی آگ میں ہمیشہ غریب کا بیٹا ایندھن بنتا ہے، وہی غریب جو تھر کے صحرا میں پانی کو ترستا ہے، جو کشمیر کی وادیوں میں امن کی سانس کو ترس گیا ہے، جو آسام، بہار، بلوچستان اور وزیرستان کی دھول میں چھپا اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی تگ و دو میں ہے۔

تاریخ کی گرد جھاڑ کر دیکھیں تو 1947 کی خون آلود تقسیم، 1965 کی اندھی گولیاں، 1971 کا دل چیرتا زخم اور 1999 کی بلندیوں پر لڑتے ہوئے گرتی جوانیاں، یہ سب ہمارے حافظے میں کبھی کے دفن ہو چکے ہیں۔

کیا کارگل کی بلندیوں پر برف کے نیچے دبے وہ سپاہی جنہیں مہینوں بعد دفنایا گیا، ہمیں یاد ہیں؟

کیا مشرقی پاکستان کی ماں کی چیخیں، اُس کے بیٹے کے دو ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ملک سے بھی زیادہ تکلیف دہ نہ تھیں؟

کیا ہم نے ان ہزاروں بیواؤں اور لاکھوں یتیموں کی بددعاؤں سے کوئی سبق لیا ہے؟

نہیں! ہم نے کچھ نہیں سیکھا۔ ہم نے صرف دشمن کو گالیاں دینا سیکھا، امن کے علمبرداروں کو غدار کہنا سیکھا اور ہر نئے بحران میں جنگی ترانے بجانا سیکھا۔

ہم نے سیکھا کہ "غازی" بننے کے لیے کسی اور کے بچے کو مرنے بھیج دو اور خود "محب وطن" کہلا کر ٹویٹر پر ٹرینڈ چلا دو۔

جنگ کا پہلا نشانہ سچ ہوتا ہے۔

دوسرا نشانہ وہ کسان ہوتا ہے، جو کل تک زمین میں ہل چلا رہا تھا، آج وردی پہن کر بارودی سرنگ پر چلا جاتا ہے۔

تیسرا نشانہ وہ بچی ہوتی ہے جس کا اسکول دشمن ملک کی فضائیہ نے اڑا دیا اور چوتھا نشانہ وہ چرچ، وہ مسجد، وہ گوردوارہ، وہ مندر ہوتے ہیں، جہاں خدا کی پناہ لینے والے انسانوں کو خود انسان ہی کاٹ دیتا ہے۔

کیا یہ مہذب دنیا ہے؟

کیا یہ 21ویں صدی کا شعور ہے؟

کیا یہ اقوام متحدہ، G20، OIC اور انسانی حقوق کے دعوے داروں کی دنیا ہے جہاں دو ایٹمی طاقتیں ٹکراجانے کی تیاری میں ہیں اور باقی دنیا تماشائی بنی بیٹھی ہے؟

سوال صرف یہ نہیں کہ جنگ کس کے خلاف ہوگی، سوال یہ ہے کہ جنگ کے بعد کیا بچے گا؟

کیا جیتنے والے کا بچہ یتیم نہیں ہوگا؟

کیا ہارنے والے کی ماں بیٹے کی لاش پر بین نہیں کرے گی؟

کیا امن کے امکانات ہمیشہ کے لیے دفن نہیں ہو جائیں گے؟

سچ یہ ہے کہ جنگیں صرف دشمن کو ختم نہیں کرتیں، یہ اپنی روح کو بھی جلا دیتی ہیں۔

جب توپیں بولتی ہیں تو شاعر خاموش ہو جاتے ہیں، جب ٹینک آگے بڑھتے ہیں تو درخت جل جاتے ہیں، جب میزائل داغے جاتے ہیں تو ندیوں کا پانی سرخ ہو جاتا ہے اور جب جنگ ختم ہوتی ہے تو خاموشی میں رونے والی آوازیں باقی رہ جاتی ہیں، وہ آوازیں جنہیں تاریخ کبھی نہیں لکھتی۔

برصغیر کی مٹی میں مہنگائی، غربت، بے روزگاری، طبقاتی تقسیم، مذہبی جنون اور تعلیمی پسماندگی کے ایسے انگارے چھپے ہیں جو کسی بھی جنگ سے زیادہ خطرناک ہیں۔

ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں، ہمارے اپنے ہی نظام، ہمارے اپنے حکمران، ہمارے اپنے لالچی تاجر اور ہمارے اپنے کرپٹ افسر ہمیں کھوکھلا کرنے کے لیے کافی ہیں۔

کاش ہم جنگی بجٹ کو تعلیمی اداروں پر خرچ کرتے۔

کاش ہم توپ کے مقابلے میں کتاب کو فوقیت دیتے۔

کاش ہم "ہندو مسلم" سے زیادہ "انسان" کہلوانا سیکھتے۔

کاش ہم یہ سمجھ پاتے کہ "غازی" وہ ہے جو معاشرہ بدلتا ہے، نہ کہ وہ جو دشمن کا گلا کاٹتا ہے۔

آج بھی وقت ہے۔

ہمیں جنگ سے پہلے سوچنے کی ضرورت ہے۔

خود کو جلانے سے پہلے بارود کی بو محسوس کرنے کی ضرورت ہے اور اس زمین کی گود کو قبرستان بنانے سے پہلے اس پر محبت، تعلیم اور رواداری کے بیج بونے کی ضرورت ہے۔

ورنہ کل جب جنگ ختم ہوگی اور فتح کا اعلان ہوگا۔

تو مورخ صرف یہ لکھے گا:

"برصغیر کی دو قومیں ایک بار پھر دھوکے میں آگئیں۔

انہوں نے جنگ تو جیت لی۔

مگر اپنے اندر کی انسانیت ہار گئے"۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam