Azadari Mubara Hai Tamasha Nahi
عزاداری مبارہ ہے تماشا نہیں

عزاداریِ امام حسینؑ صرف آنسوؤں کی برسات نہیں، یہ عقل، شعور، احتجاج اور بیداری کی آفاقی تحریک ہے۔ لیکن افسوس کہ آج اس آفاقی پیغام کو رسومات کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ مکتبِ اہل بیتؑ جو کہ وحی، عقل اور فطرت کی بنیاد پر قائم ہے، اسے یوٹیوب چینلز، سوشل میڈیا کے مجازی واعظوں اور رسم پرست ذاکرین نے خرافات کے طوق میں جکڑ کر، عوام کی دینی جذباتیت کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ وہ عناصر جو کبھی منبر پر وعظ و تقویٰ کا چراغ لے کر آتے تھے، آج کیمرے کے سامنے ویوز اور سبسکرائبرز کی بھوک میں دین کی روح کو مجروح کر رہے ہیں۔
یہ تازیہ، علم، شبیہ ذوالجناح، تابوت، نعل مبارک، یہ سب برصغیر پاک و ہند کی مخصوص تہذیبی رسوم ہیں جن کا نہ کوئی سراغ معصومینؑ کے اقوال و افعال میں ملتا ہے، نہ ہی قرآن اور سیرتِ آئمہؑ میں ان کی کوئی جڑ دکھائی دیتی ہے۔ ان اشیاء کے سامنے جھکنا، سجدہ کرنا یا طواف کرنا شریعتِ محمدی ﷺ کی بنیادی تعلیمات سے متصادم ہے۔ اللہ کے سوا کسی کے سامنے جھکنا، خواہ وہ نیتاً تعظیمی ہو یا تشبیہی، وہ شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ قرآن مجید صاف الفاظ میں اعلان کرتا ہے: "فَلَا تَدُعُوا مَعَ اللہِ أَحَدًا" یعنی اللہ کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو۔ پھر جو لوگ ان علامتی اشیاء کے سامنے سجدہ کرتے ہیں، وہ کس آیت یا حدیث کی بنیاد پر یہ عمل کرتے ہیں؟ کیا اُن کے پاس کوئی قولِ معصومؑ ہے؟ کوئی شرعی دلیل؟ ہرگز نہیں! یہ خالصتاً ہندو رسوم سے متاثرہ برصغیری روایات ہیں جنہیں تقدس کا جامہ پہنا دیا گیا ہے۔
برصغیر کی کچھ مخصوص رسوم، جیسا کہ تازیہ نکالنا، شبیہ کو کندھوں پر اٹھانا، یا کسی گھوڑے کو امام کا ذوالجناح قرار دے کر اس پر چڑھاوے چڑھانا، یہ سب دین کے بجائے رسم کی پیداوار ہیں۔ تحقیق یہ ثابت کرتی ہے کہ بہت سی رسوم ہندومت کی رتھ یاترا یا دیوی دیوتاؤں کے جلوسوں سے ماخوذ ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے عقائد میں در آئے اور رفتہ رفتہ انہیں عین دین کا درجہ دے دیا گیا۔ امام حسینؑ کا ذکر تو عقلوں کو جگانے، ضمیروں کو جھنجھوڑنے اور باطل کے ایوانوں کو گرانے کے لیے تھا، مگر ہم نے اسے مجسموں، علامتی اشیاء اور خود ساختہ تاثر کے سہارے محض ایک جذباتی رسم میں بدل ڈالا ہے۔
یہ صرف ظاہری تماثیل تک محدود نہیں، بلکہ خون کا ماتم اور قمہ زنی جیسی حرکات تک جا پہنچا ہے، جن کے متعلق شیعہ علماء اور مراجع کے درمیان اختلاف موجود ہے۔ کچھ فقہاء اس عمل کو حرام قرار دیتے ہیں، جبکہ کچھ اسے مخصوص شرائط کے تحت جائز سمجھتے ہیں۔ لیکن کسی نے بھی اسے واجب یا دینی فریضہ قرار نہیں دیا۔ جب امام حسینؑ نے فرمایا تھا کہ میرا خروج اصلاحِ امت کے لیے ہے، تو کیا قمہ زنی، جسم کا لہو بہانا اور تیز دھار ہتھیاروں سے اپنے جسم کو کاٹنا اصلاح کا راستہ ہے؟ یا یہ محض دکھاوے کی شدت ہے جو عقل کو نظر انداز کرکے جذبے کو انتہا تک پہنچا دیتی ہے؟ امامؑ کا پیغام تو توازن، حکمت، صبر اور شعور کا تھا، نہ کہ افراط، ہیجان اور خرافات کا۔
افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ جو لوگ ان خرافات کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں، انہیں دین دشمن، عزاداری دشمن، یا مکتبِ اہل بیت سے دور قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اصل میں وہی لوگ سچے ترجمانِ عزاداری ہیں جو دین کی اصل روح کو، عقل و شرع کی بنیاد پر قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ عوام کا رواج، روایتی جذباتیت یا معاشرتی دباؤ کبھی بھی حق کا معیار نہیں ہوتا۔ مکتبِ اہل بیتؑ کی بنیاد قرآن، سنتِ معصومینؑ، عقل اور اجماع پر ہے، نہ کہ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز پر۔ امام صادقؑ کا قول ہے: "اعرف الحق تعرف أهله" یعنی حق کو پہچانو، پھر اہلِ حق کو پہچانو۔ مگر ہم نے اس کے برعکس اہلِ منبر اور اہلِ یوٹیوب کو پہلے مان لیا اور پھر ان کی ہر بات کو حق سمجھ لیا۔
یہاں المیہ یہ ہے کہ کچھ یوٹیوبرز دین کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں، وہ جذباتی کلپ بناتے ہیں، خون آلود مناظر دکھاتے ہیں اور خود کو عاشقانِ حسینؑ کے سفیر گردانتے ہیں، جبکہ اُن کی باتوں میں نہ علم ہوتا ہے، نہ فقہ کا شعور اور نہ ہی مکتب کی کوئی علمی بنیاد۔ وہ فقط ویورز، شیئرز اور فالوورز کے ذریعے دین کو بازار کی جنس بنا چکے ہوتے ہیں۔ کیا یہ وہی عزاداری ہے جسے سیدہ زینبؑ نے دربارِ یزید میں نعرۂ حق بنا کر بلند کیا تھا؟ کیا یہی وہ پیغام ہے جسے امام سجادؑ نے مدینہ میں صبر، دعا اور علم کے ذریعے زندہ رکھا تھا؟
عزاداری کی اصل روح احتجاج ہے، بیداری ہے، ظلم کے خلاف للکار ہے، جبر کے سامنے مزاحمت ہے، باطل سے نفرت ہے، حق کی پاسداری ہے اور دین کی حفاظت ہے۔ امام حسینؑ نے کبھی ظالم کے سامنے سر نہیں جھکایا، مگر ہم ظاہری نشانیوں کو سجدہ کرکے کس راہ پر جا رہے ہیں؟ اگر عزاداری کو واقعی خالص بنانا ہے تو ہمیں رسموں سے نہیں، علم سے رجوع کرنا ہوگا۔ قرآن، نہج البلاغہ، صحیفۂ سجادیہ اور احادیثِ معصومینؑ کو اپنی راہ کا چراغ بنانا ہوگا۔ ہمیں مراجعِ تقلید کے فتاویٰ کو بنیاد بنانا ہوگا نہ کہ سوشل میڈیا کے تماشوں کو اور سب سے بڑھ کر، ہمیں شعور، خلوص اور تحقیق کو اپنا طرزِ عمل بنانا ہوگا تاکہ عزاداری صرف آنکھ کا آنسو نہ رہے، بلکہ ضمیر کی بیداری اور امت کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے۔

