America Ke Mansoobe
امریکہ کے منصوبے
چھ اگست 1945 کو امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر "لٹل بوائے"نامی ایٹمی بم گرایا تھا۔ دنیا کے اس پہلے جوہری حملے میں تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ انگنت افراد اس صدمے سے سالوں تک نہیں نکل سکے۔
ہیروشیما پر جوہری بم کے صرف تین دن بعد نو اگست کو ایک اور شہر ناگاساکی پر دوسرا جوہری بم"فیٹ مین"گرایا گیا جس کے نتیجے میں لگ بھگ 74 ہزار افراد لقمہ اجل بنے۔ اس بعد امریکہ نے خود کو سپر پاور تسلیم کرایا اور برتری کی جنگ میں مسلسل خود کو دفاعی اعتبار سے مضبوط کرتا رہا۔ روس سے سپر پاور کا ٹائیٹل چھینے کے بعد امریکہ کے لیے کوئی مضبوط حریف موجود نہیں تھا۔ ان کے دفاعی سسٹم کو بھی مضبوط کرنا تھا جو کہ تیل کے بغیر ممکن نہیں تھا جس کے لیے امریکہ نے تمام اسلامی ممالک سے معاہدے کئے۔ انقلاب اسلامی ایران سے پہلے ایران کے معدنی وسائل پر امریکہ کی مکمل اجارہ داری تھی۔
امریکہ نے ایران کے ساتھ عراق اور سعودی عرب سے بھی روابط استوار کئے ہوئے تھے۔ ایران میں امام خمینی کے انقلاب کے بعد امریکا اور ایران کے حالات کشیدہ ہوگئے یا یوں کہہ لیجئے کے تعلقات سفارتی عمارت تک رہ گئی۔ امریکہ عراق کے ذخائر سے استفادہ کرتا رہا ہے ان کی نظر عراق کے معدنی ذخائر کے ساتھ ایران پر بھی تھیں۔ کیونکہ ماضی کا حلیف ان کے لیے حریف بن چکا تھا۔ امریکہ نے اس منصوبے کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا اور عراق پر الزام عائید کیا۔ کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ اس بات کو لیکر امریکہ عراق میں داخل ہوا اور صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور صدام کو پھانسی دی گئی تاہم پایا گیا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود نہیں تھے۔
2003 سے اب تک اس افسانوی پہلو کو لے کر ہزاروں جانیں تباہ ہوئی ہیں اور لاکھوں افراد بے گھر اور بے روزگار ہوئے ہیں اور امریکہ کے پاس 2011 کے بعد کوئی معقول جواز موجود نہیں تھا اس لئے 2013 میں داعش کے نام کو استعمال کیا اور پھر سے اپنی اجارہ داری برقرار رکھی۔ ایرانی انقلاب کے بعد دراصل امریکہ عراق میں بیٹھ کے ایران پر نظر رکھنا چاہتا تھا اور ہے اس کے علاوہ عراق میں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
انیس سو اٹھانوے کو جب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو امریکہ پاکستان کی طرف متوجہ ہوا کیونکہ ایرانی انقلاب طالبان کی حکومت کے فورا بعد پاکستان کا کا ایٹمی دھماکہ کرنا امریکہ لیے کے حیرت خیز تھا جس کے خلاف ایک منصوبہ تیار کیا یعنی ٹھوس شواہد کے مطابق امریکن ایجنسی سی ائی اے نے 11 ستمبر 2001 کو ٹاور پر حملہ کروایا جس کے نتیجے میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے اس کا ذمہ دار القاعدہ کے سرغنہ اسامہ بن لادن کو قرار دیا یا آسان لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ امریکہ افغانستان میں داخل ہو کر پاکستان پر نظر رکھنا چاہتا تھا کیونکہ پاکستان کے تعلقات چین کے ساتھ دوستانہ تھے اور چین بہترین معاشی نظام کی وجہ سے امریکہ کے مقابلے میں کھڑے ہونے جارہا تھا۔ بہرحال 7 اکتوبر 2001 کو امریکی صدر جارج بش نے افغانستان پر فضائی حملے حکم دیا اور پاکستان سے تعاون کی اپیل کی اور پاکستان نے ڈالر کی چمک کو دیکھتے ہوئے فراغ دلی کے ساتھ اڈے مہیا کیے اور یوں امریکہ کثیر جہتی مشن میں کامیاب ہوا یعنی پاکستان نظریاتی اور علاقائی جنگ میں کود پڑا۔ جس سے گزشتہ بیس سالوں میں 70 ہزار پاکستانی ہلاک ہوئے اور 120 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ملک میں خودکش حملے ہوئے اور دھماکے بھی ہوئے۔
اب سوال تو بنتا ہے گزشتہ دو عشروں میں اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھی تو ہلاک ہو چکے ہیں یہ امریکہ کا دعوی کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں ہلاک ہوئے ہیں اور امریکنز یہ بھی سمجھتے ہے کہ نظریاتی جنگ میں کسی کی جیت نہیں ہوسکتی۔ پر امریکہ اب بھی افغانستان میں جنگ لڑنا چاہتے ہیں اس کی یہ وجہ ہے؟ اس کی ایک وجہ چین کی راہداری منصوبہ ہے وہ پاکستان کو پھر سے افغانستان کی جنگ میں شامل کرکے پاکستان کے اندرونی حالات خراب کرنا چاہیے ہیں اس سے براہ راست منصوبہ پر اثرات مرتب ہو وہ نہیں چاہتا کہ چین کا وسطی ایشیا تک رسائی ہوا اور مستقبل قریب میں اسی روٹ سے چین ایران سے تیل کے معاہدے کرنا چاہتا ہے امریکہ نہیں چاہتا کہ انکے دو خطرناک حریف میں معاہدے ہو۔
پاکستان کو اب محتاط رہنا چاہے پاکستان نظریاتی اور علاقائی سازشوں سے مقابلہ کرنے کا گر سیکھے۔ خصوصا بلوچستان اور گلگت بلتستان پر نظر مرکوز کرے اور انہیں وسائل و روزگار مہیا کرے سی پیک کا انحصار ان دو علاقوں پر ہیں اور سب سے زیادہ محروم بھی یہی علاقے ہیں۔ اور ہندوستان اپنے خفیہ منصوبہ بندی کے لیے ان ہی علاقوں کا استعمال کرتا ہے خصوصا بلوچستان سے کلبھوشن کی تخریب کاریاں ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ گزشتہ دنوں کا وزیر اعظم کا بیاں جو کہ ان تمام پہلو کو سامنے رکھ دیا ہوگا خیرمقدم کرنا چاہے معاشی بد حالی کے باوجود absolutely not کہنا ہمت والی بات ہے۔