Aman Ka Tamgha Qatil Ke Naam
امن کا تمغہ قاتل کے نام

جس وقت اقوامِ عالم میں انسانیت کا قتلِ عام ہو رہا ہو، جب فسلطین، یمن، شام، افغانستان اور کشمیر میں بچوں کے کلیجے چیروں پر دشمن کے پرچم لہرا رہے ہوں، ایسے میں اگر کوئی ملک، جس کے ماتھے پر اسلامی جمہوریہ کا جھومر چمک رہا ہو، امن کا نوبل انعام کسی ایسے شخص کو دینے کی نامزدگی کرے جو خود انسانیت کے گلے پر خنجر چلاتا رہا ہو، تو پھر یقیناً یہ قوم نہ صرف تاریخ کے ہونٹوں پر طمانچہ ہے بلکہ جغرافیے کے سینے پر دھبہ بھی۔
ڈونلڈ ٹرمپ، وہی ٹرمپ جس نے بیت المقدس کو صیہونی دارالحکومت مانا، جس نے ایران پر پابندیاں لگائیں، جس نے مسلمانوں کو "دہشت گرد" کے القابات سے نوازا، جس نے امریکہ میں مسلم ممالک کے شہریوں کا داخلہ بند کیا، آج وہ "امن" کا سفیر؟ اور نامزدگی کرنے والا؟ پاکستان؟ حیرت ہے کہ ایک طرف قاتل کا چہرہ خون آلود ہو اور دوسری طرف ہم اسے سفید کفن میں لپیٹ کر امن کا علمبردار بنائیں۔
پاکستان کی جانب سے ایسی نامزدگی اُس وقت کی گئی جب خود پاکستان دہکتی ہوئی جنگی فضاؤں میں سانس لے رہا تھا۔ بھارت کی طرف سے جنگی جنون، لائن آف کنٹرول پر خون کی ندیاں اور ہوائی حملوں کی تلواریں لہرا رہی تھیں۔ ایسے میں امریکی صدر کی "ثالثی" کو "امن" کا تاج پہنا کر ہم کس کو دھوکہ دے رہے ہیں؟ خود کو یا دنیا کو؟ کیا یہ ثالثی واقعی غیر جانب دار تھی؟ اگر ہاں، تو کیا کشمیر میں ظلم کا سلسلہ رک گیا؟ کیا بھارتی افواج پیچھے ہٹ گئیں؟ کیا کشمیریوں کے گلے سے رسیاں کھل گئیں؟ اگر یہ سب نہیں ہوا، تو ثالثی کیسی؟ اور امن کیسا؟
یہ سوال اور بھی سنگین ہو جاتا ہے جب یہ سوچا جائے کہ اگر بھارت اس جنگ سے متاثر ہوتا تو کیا وہ ٹرمپ کو نامزد کرتا؟ اگر پاکستان کو فائدہ نہ ہوتا، تو کیا وہ کرتا؟ تو یہ ماننا پڑے گا کہ ٹرمپ کی مداخلت نے بھارت کے فائدے میں جنگ کو روکا اور پاکستان نے اسی پر شکر گزار ہو کر اُس کے لیے نوبل کی التجا کر دی۔ یعنی ایک طرح سے تسلیم کر لیا کہ بھارت جیتا، ہم بچ گئے اور ثالث ہمارا منجی قرار پایا۔
شاید ہم اب بھی غلامی کی زنجیروں میں ہیں، صرف رنگ بدلا ہے، زنجیر وہی ہے۔ ہمیں آج بھی یہ گمان ہے کہ عالمی قوتوں کے قدموں میں لیٹنے سے ہمیں عزت ملے گی، ہمیں خوشامد کے نذرانوں میں سلامتی نظر آتی ہے۔ ہم بھول چکے ہیں کہ عزت لی جاتی ہے، خیرات میں نہیں ملتی۔ امن کے ایوارڈ کی سفارش کرنا قاتل کے ہاتھ میں گلاب تھمانے کے مترادف ہے اور گلاب بھی وہ جو معصوموں کے لہو سے رنگین ہو۔
دنیا مذاق کیوں نہ اُڑائے؟ عالمی میڈیا کا ہنسنا بجا ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی تاریخ امن کی نہیں، نفرت کی، تفریق کی اور استعمار کی ہے۔ اُس نے امن نہیں بانٹا، ہتھیار بیچے، معاہدے توڑے اور دیواریں کھڑی کیں۔ جب ایک مسلمان ملک، جو خود دہشت گردی کا شکار رہا ہو، جس نے ہزاروں معصوموں کا خون بہتے دیکھا ہو، وہ قاتل کو "امن کا سفیر" مانے، تو دنیا کیوں نہ کہے کہ یہ قوم اپنا شعور گروی رکھ چکی ہے؟
یہ صرف ٹرمپ کی نامزدگی نہیں، یہ ہمارے قومی فہم و فراست کی ماتم سرائی ہے۔ یہ پاکستان کی سیاسی غیرت کی قبر پر کتبہ ہے، جس پر لکھا ہے: "یہاں وہ دانش دفن ہے جس نے سچ بولنے کی جرات کی تھی"۔ اگر کل کو نیتن یاہو یا مودی کو بھی ہم امن کے ایوارڈ کے لیے نامزد کر دیں تو تعجب نہ ہو، کیونکہ ہم نے معیار بدل دیے ہیں، اب قربانی نہیں، سودے بازی عزت کا پیمانہ ہے۔
ہمیں اب یہ طے کرنا ہے کہ ہم تاریخ کے اندھے صفحے بنیں گے یا وہ قلم جو سچ لکھے گا۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم ظالم کو سلام کریں گے یا مظلوم کی آواز بنیں گے۔ کیونکہ اگر ہم نے قاتلوں کو امن کے تمغے دینے کی رسم جاری رکھی، تو پھر ہمارے شہداء کی قبریں ہمیں معاف نہیں کریں گی اور ہماری آنے والی نسلیں ہمیں لعنت سے یاد کریں گی، تعظیم سے نہیں۔

