Adhoore Khwabon Ki Saleeb
ادھورے خوابوں کی صلیب

خواب جب کرچی کرچی ہو جائیں تو چہرے کی مسکراہٹ بھی رزقِ خاک ہو جاتی ہے۔ امیدوں کی شمعیں بےرحم ہواؤں کے تھپیڑوں میں لرزتی ہیں اور یاسیت کے گھنے بادل وجود کے افق پر چھا جاتے ہیں۔ ایسے افراد، جن کے سپنے تعبیر کے دامن سے محروم رہتے ہیں، وہ اپنی ذات کے بھنور میں یوں الجھ جاتے ہیں جیسے وقت کے بے رحم سمندر میں کسی کشتی کی ڈولتی ہوئی پتوار۔ وہ بظاہر دنیا کی بھیڑ میں موجود ہوتے ہیں مگر درحقیقت وہ اپنی ہی خاموش دنیا کے اسیر ہوتے ہیں۔
غصہ ان کی طبیعت کا مزاج بن جاتا ہے، ایک ایسا الاؤ جو ہر لمحہ سلگتا رہتا ہے۔ اس کا منبع وہ اضطراب ہوتا ہے جو شکستِ آرزو کے بعد ان کے اندر پنپتا ہے۔ ان کی نگاہیں اکثر کائنات کے اس اَن دیکھے گوشے کو تکتی ہیں جہاں خوابوں کے ملبے پر صبر کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔ وہ اپنے خیالات کی بھٹکتی موجوں میں یوں مستغرق ہوتے ہیں جیسے کوئی مفکر ازل سے ابد تک کے رازوں کو کھوجنے میں مصروف ہو۔
ایسے لوگ جب قلم اٹھاتے ہیں تو تحریر ان کے تخیل کا آئینہ بن جاتی ہے۔ وہ الفاظ کو یوں بُنتے ہیں کہ قاری ہر جملے میں اپنی ہی عکاسی دیکھتا ہے۔ ان کی تحریریں زندگی کے ننگے حقائق کو یوں بیان کرتی ہیں جیسے کسی شفاف آئینے پر دھند کے آثار ثبت ہوں۔ وہ حقیقت کی تلخیوں کو مجاز کے دبیز پردوں میں چھپاتے ہیں اور استعاروں کے سنگ مرمر سے ایسا فن تراشتے ہیں کہ دنیا دم بخود رہ جاتی ہے۔
ان کے قلم سے نکلی ہوئی سطریں فلسفے کے ان گہرے چشموں کی مانند ہوتی ہیں جن سے شعور کے پیاسے سیراب ہوتے ہیں۔ ان کا طرزِ تحریر ایک ایسی ندی کی مانند ہے جو شعور کے بنجر صحراؤں میں حیات کی رمق پیدا کرتی ہے۔ ان کی زبان پیچیدہ مگر گہری، ان کا اسلوب الجھا ہوا مگر پرتاثیر اور ان کی سوچ وقت کی قید سے آزاد، بے باک اور دو ٹوک ہوتی ہے۔ وہ خوابوں کے شکستہ آئینے کو فلسفے کی روشنی میں جوڑ کر، زندگی کو نئے معانی دیتے ہیں۔
یہ وہ قلمکار ہوتے ہیں جو اپنے ہی زخموں کو تحریر کی مسیحائی میں ڈھال کر دنیا کے لیے نوحہ لکھتے ہیں، مگر ان کی تحریریں پڑھنے والا انہیں بین سمجھنے کے بجائے بصیرت کا ایک دریچہ تصور کرتا ہے۔ وہ الفاظ کی ایسی تصویر گری کرتے ہیں کہ خیالات کے دھندلے عکس بھی حقیقت کے دھارے میں واضح ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے الفاظ سے ایک ایسی دنیا تخلیق کرتے ہیں جہاں حقیقت اور فسانہ یکجا ہو کر شعور کی نئی راہیں ہموار کرتے ہیں۔
یہی وہ مسافر ہیں جو اپنی ہی سوچ کے ریگستان میں ننگے پاؤں چلتے ہیں، اپنے زخموں کو تخیل کے پانی سے سیراب کرتے ہیں اور دنیا کو دکھوں کے نئے معانی سکھا دیتے ہیں۔ ان کے قلم سے نکلے ہوئے الفاظ معاشرے کے چلتے پھرتے عکس ہوتے ہیں، جہاں ہر جملہ ایک چیختی حقیقت، ہر لفظ ایک دبے سہمے احساس اور ہر خیال زندگی کی کسی ان کہی کہانی کا استعارہ بن جاتا ہے۔

