Aadhe Sach Ki Saltanat Aur Kamal Ki Gumshudgi
آدھے سچ کی سلطنت اور کمال کی گمشدگی

انسانی معاشرت ایک پیچیدہ تانا بانا ہے جس میں دھاگے سچائی اور فریب، اخلاص اور مصلحت، روشنی اور ظلمت کے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ یہ تانا بانا ہمیشہ ادھورا بُنا جاتا ہے۔ کائنات کا خالق جب اپنے بندوں پر سچائی کے دروازے کھولتا ہے تو بھی وہ مکمل انکشاف نہیں کرتا، بلکہ آدھی حقیقت، ادھوری بصیرت اور نیم روشنی میں ہی انسان کو چلنے دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کی گتھیاں کبھی سلجھتی نہیں بلکہ مزید پیچیدہ ہو جاتی ہیں۔
کاروبار کی دنیا کو ہی دیکھ لیجیے۔ تاجر کبھی اپنے خفیہ نسخے، پوشیدہ تدابیر اور رازِ کامیابی پوری دیانت داری سے کسی کے سامنے نہیں رکھتا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور ہاتھوں میں گرمجوشی ضرور ہوگی مگر دل کی تہہ میں چھپا ہوا اصول وہ کبھی ظاہر نہیں کرے گا۔ کیونکہ اگر وہ لمحہ آ گیا، اگر اس نے اصل ضابطہ، اصل نسخہ اور وہ بنیادی گُر بتا دیا تو سمجھ لیجیے کہ اس کی اپنی عمارت زمین بوس ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کاروباری دنیا میں"ادھورا سچ" ایک روایت کی طرح رائج ہے۔
یہی اصول مذہب، مسلک، زبان، قومیت، سیاست اور یہاں تک کہ گھریلو زندگی تک پھیلا ہوا ہے۔ واعظ کے منبر سے لے کر سیاست دان کے ایوان تک، استاد کی کرسی سے لے کر صنعتکار کے دفتر تک، ہر کوئی اپنی بات، اپنی تعلیم اور اپنا پیغام اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ اس کے اصل راز پردے میں رہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ شعوری طور پر صرف فریب دینا چاہتا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان کے اندر ایک خوف اور ایک خود غرضی دفن ہے۔ وہ ڈرتا ہے کہ اگر اس نے سب کچھ کھول دیا، تو دوسرا اس سے آگے نکل جائے گا اور یہی انسانی جبلت، یہی نفسیاتی کھچاؤ معاشرے کو جمود کے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔
پاکستانی معاشرہ بھی اسی ادھورے پن کا شکار ہے۔ یہاں علم کی بھی تقسیم ادھوری ہے، کاروبار کے اصول بھی نیم روشن ہیں، مذہبی خطبات بھی انتخابی ہیں اور سیاست بھی مفاد کے ترازو پر تولی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ترقی ایک خواب کی مانند ہے۔ جس دن یہ معاشرہ فیصلہ کر لے کہ سچ کو مکمل بیان کرنا ہے، اصولوں کو کھول کر رکھ دینا ہے، وہ دن تبدیلی کا نقطۂ آغاز ہوگا۔ مگر افسوس کہ آج تک یہ ہمت کسی نے نہیں کی۔
علم ایک ایسی مشعل ہے جو اندھیروں کو چیر کر آگے بڑھتی ہے، مگر جب اسے آدھا چھپا دیا جائے، تو وہ مشعل چراغِ مردہ بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں علم استاد سے شاگرد تک محض الفاظ کی صورت میں پہنچتا ہے، حکمت کی اصل روح منتقل نہیں ہوتی۔ استاد کتاب کا حوالہ دے کر اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتا ہے، لیکن وہ اصول، وہ فلسفہ، وہ کائناتی ربط جو علم کو زندہ کرتا ہے، کبھی بیان نہیں کیا جاتا۔ نتیجہ یہ کہ طالب علم محض رٹے کا شکار رہتا ہے اور معاشرہ تحقیق سے محروم۔
اسی طرح مذہب کو دیکھیے۔ مذہب کا بنیادی پیغام انسانیت، اخوت اور انصاف ہے۔ لیکن جب یہ پیغام گروہوں اور مسالک کے ہاتھوں بکھر گیا تو ہر گروہ نے اپنے اپنے اصول وضع کیے، مگر اصل اصول، یعنی وحدتِ انسانیت، پردے کے پیچھے ہی رہا۔ یہاں بھی آدھی حقیقت ہی چلتی رہی اور مکمل سچ ہمیشہ حاشیے پر رہا۔ اسی ادھورے پن نے معاشرے کو خانہ جنگی، فرقہ واریت اور نفرت کی کھائیوں میں دھکیل دیا۔
انسانی ذہن کے اندر ایک عجیب کشف فہمی ہے۔ یہ فطرت ہے کہ انسان دوسروں پر فوقیت چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا راز اس کے ساتھ دفن رہے، تاکہ اس کا مقام، اس کا مرتبہ اور اس کا غلبہ قائم رہے۔ اسی لیے جب وہ اصول جان لیتا ہے تو اسے دوسروں سے چھپاتا ہے۔ یہی وہ نفسیاتی دیوار ہے جو علم اور ترقی کے درمیان حائل ہے۔ اگر انسان اپنی اس جبلت کو توڑ دے، اگر وہ اپنی خود غرضی کو قربان کرکے اصول دوسروں تک منتقل کر دے، تو معاشرے کی اجتماعی دانش کئی گنا بڑھ جائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ قربانی دینے کی جرات بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔
پاکستانی معاشرے کی مثال ایک ایسی بستی کی سی ہے جہاں ہر گھر میں روشنی ہے، مگر کھڑکیاں بند ہیں۔ ہر شخص اپنے چراغ کی روشنی میں جیتا ہے، لیکن دوسروں کے ساتھ اس روشنی کو بانٹنے سے انکاری ہے۔ نتیجہ یہ کہ پوری بستی اندھیرے میں ڈوبی رہتی ہے، حالانکہ ہر گھر میں چراغ موجود ہے۔ اگر ایک لمحے کے لیے یہ چراغ اجتماعی طور پر باہر لائے جائیں تو اندھیرا غائب ہو جائے۔ مگر افسوس کہ ہم چراغ جلانے کے باوجود روشنی بانٹنے کو تیار نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں علم تو ہے مگر حکمت نہیں، کاروبار ہے مگر ترقی نہیں، مذہب ہے مگر اخوت نہیں، سیاست ہے مگر انصاف نہیں۔ ہم نے ہر شعبے کو آدھے سچ کے حوالے کر دیا ہے۔
یہ "آدھے سچ کی سلطنت" ہے، جہاں سب کچھ ہے مگر مکمل نہیں۔ ہم نے سچ کو، اصول کو اور ضابطے کو تنگ دائروں میں مقید کر دیا ہے۔ یہی ادھورا پن ہماری ناکامی کا راز ہے۔
اصل فلسفہ یہ ہے کہ سچ ہمیشہ اجتماعی ہوتا ہے، اصول ہمیشہ سب کے لیے ہوتے ہیں۔ جب تک ہم ان اصولوں کو قید میں رکھیں گے، جب تک ہم آدھی حقیقت پر قناعت کریں گے، تب تک یہ معاشرہ کبھی روشن نہیں ہوگا۔
کمال اسی دن ظاہر ہوگا جس دن یہ معاشرہ اپنے دل کی تہہ میں چھپے راز کھول دے گا، اصول دوسروں تک منتقل کرے گا اور سچ کو آدھا نہیں بلکہ پورا بیان کرے گا۔ لیکن یہ دن کب آئے گا؟ شاید اسی دن جب انسان اپنی خودغرضی پر فتح پائے گا اور یہ سمجھے گا کہ سچ بانٹنے سے روشنی کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہے۔

