Selab Ki Tabah Karian Aur Hamari Zimmedari
سیلاب کی تباہ کاریاں اور ہماری ذمہ داری
پاکستان میں بارش کی صورتحال انتہائی سنگین ہو گئی ہے، سندھ اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوئے، طوفانی بارشوں اور سیلاب نے نظام زندگی مفلوج کر دیا، اب تک 326 بچوں سمیت 903 افراد جاں بحق جبکہ 1200 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، سیلاب سے ایک لاکھ 25 ہزار گھر تباہ، جبکہ 2 لاکھ 88 ہزار مکانوں کو جزوی نقصان پہنچا، 3 ہزار کلو میٹر سڑکیں تباہ ہو گئیں، صرف مٹیاری میں 400 مکانات گر گئے۔
اسی طرح بلوچستان میں بارشوں اور سیلابی ریلوں کے نتیجے میں ہونے والے حادثات میں اموات کا سلسلہ نہ رک سکا۔ یکم جون سے 24 اگست تک جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 230 ہو گئی ہے، اس تعداد میں 110 مرد 55 خواتین اور 65 بچے شامل ہیں۔ یہ ساری صورت حال اللّٰہ تعالیٰ کی حاکمیت، اُس کی الوہیت و ربوبیت اور اُسی کے قادرِ مطلق و ملجا و ماویٰ ہونے پر دلالت کر رہے ہیں، تاہم کتنے لوگ ہیں کہ جنہیں آج بھی، اس نازک ترین صورتِ حال کے باوجود، کیا خدا یاد نہیں آ رہا ہے؟
آج بھی جو لوگ سیلاب کی نظروں سے اوجھل ہیں، اُن کی عیاشیوں میں رائی کے دانے برابر بھی فرق آیا ہے؟ جبکہ اس کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنے والوں میں، اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی امداد کرنے والوں کے ساتھ ساتھ، ایسے تماش بیں بھی موجود ہیں، جو آفت زدگان کی بے چارگی پر ویڈیوز سازی اور تصویر کشی میں مصروف ہیں، گویا ان کی مظلومیت پر آنسو بہانے اور ان کی حالت زار دیکھ کر عبرت پکڑنے کی بجائے، انہیں سامانِ تفریح سمجھے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ قرآن مجید میں اس جیسی آزمائش کے وقت رجوع الی اللہ کا حکم دیا گیا ہے۔
ارشاد باری ہے، "قیامت کے بڑے عذاب کے سوا ہم انہیں عذابِ دنیا کا مزہ بھی چکھائیں گے، کہ شاید (اس عذاب کو دیکھ کر ہی ہماری طرف) لوٹ آئیں۔ " (سورہ ٔسجدہ)
اسی طرح سرکار دو عالم ﷺ نے ہمیں بتایا کہ قدرتی آفتیں پہلی امتوں کی طرح اس امت میں بھی آئیں گی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا اظہار ہوں گی۔ اس لیے سیلاب، آندھی اور طوفان کے ظاہری اسباب پر ضرور نظر کی جائے اور ان کے حوالے سے تحفظ کی تدابیر بھی ضرور اختیار کی جائیں، لیکن اس کے ساتھ بلکہ اس سے زیادہ ضروری ہے کہ اس کے باطنی اسباب اور روحانی عوامل کی طرف بھی توجہ دی جائے اور ان کو دور کرنے کے لیے بھی محنت و جدوجہد کی جائے۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ جب کسی قوم پر خدا کا عمومی عذاب آتا ہے تو نیک و بد سب اس کا شکار ہوتے ہیں۔ البتہ قیامت کے دن سب لوگ اپنی نیتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔ (جامع بخاری)۔
سیلاب کی صورت حال اور ہمارے فرائض:
(1) توبہ و استغفار کرنا۔
ہمارا سب سے پہلا فریضہ ہے کہ ہم توبہ و استغفار کریں، اپنے جرائم اور بد اعمالیوں کا احساس اجاگر کریں، اپنی زندگیوں کو بدلنے کی کوشش کریں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کریں، معاشرے میں برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو پھیلانے کی محنت کا عہد کریں، اور دین کی طرف عمومی رجوع کا ماحول پیدا کریں۔
حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا: خدا کی قسم! تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ضرور سر انجام دیتے رہنا، ورنہ تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نازل ہو گا، پھر تم دعائیں کرو گے تو تمہاری دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔ (جامع ترمذی)
اسی طرح سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب لوگ معاشرہ میں منکرات یعنی نافرمانی کے اعمال کو دیکھیں اور انہیں تبدیل کرنے کی کوشش نہ کریں، اور جب کسی ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے نہ روکیں تو قریب ہے کہ سب پر اللّٰہ کا عذاب آ جائے۔ (ابو داود)
(2) اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرنا۔
دوسری چیز ہمیں ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرنا چاہیے۔ عافیت سب سے بڑی نعمت ہے، عافیت کا مطلب بیان کرتے ہوئے حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ لکھتے ہیں، "عافیت کا مطلب تمام دنیوی و اخروی اور ظاہری و باطنی آفات و بلیات سے سلامتی اور تحفظ ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے عافیت کی دعا مانگتا ہے وہ برملا اس بات کا اعتراف اور اظہار کرتا ہے، کہ اللہ کی حفاظت اور کرم کے بغیر وہ زندہ و سلامت نہیں رہ سکتا، اور کسی چھوٹی یا بڑی مصیبت اور تکلیف سے اپنے کو نہیں بچا سکتا۔ پس ایسی دعا اپنی کامل عاجزی و بے بسی اور سراپا محتاجی کا مظاہرہ ہے اور یہی کمالِ عبدیت ہے۔ اس لیے عافیت کی دعا اللہ تعالیٰ کو سب دعاؤں سے زیادہ محبوب ہے۔ "(معارف الحدیث:911/5)
ایک موقع پر نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے، تم میں سے جس کے لیے دعا کا دروازہ کھل گیا اس کے لیے رحمت کے دروازے کھل گئے۔ اور اللہ کو سوالوں اور دعاؤں میں سب سے زیادہ محبوب یہ ہے کہ بندہ اس سے عافیت کی دعا کرے، یعنی کوئی دعا اللہ تعالیٰ کو اس سے زیادہ محبوب نہیں۔ " (ترمذی)
اسی طرح حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ، ایک صاحب آئے اور نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ کون سی دعا افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے پروردگار سے دین و دنیا کے معاملہ میں عافیت مانگنا۔ وہ دوسرے دن آئے اور یہی سوال کیا، آپ ﷺ نے یہی جواب دیا، پھر تیسرے دن آئے اور یہی سوال کیا، آپ ﷺ نے یہی جواب دیا اور فرمایا کہ، اگر تجھے دنیا و آخرت میں عافیت نصیب ہو جائے سمجھو کہ تم کامیاب ہو گئے۔ (جامع ترمذی)
(3) مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کرنا۔
تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کریں، ان کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی جائے، کہ یہ ہماری دینی اور قومی ذمہ داری ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ ہزاروں خاندان اور لاکھوں افراد ہماری مدد اور توجہ کے مستحق ہیں۔ اگرچہ مختلف رفاہی تنظیموں کی جانب سے امدادی سرگرمیاں وسیع پیمانے پر جاری ہیں، لیکن یہ اصل ضرورت سے بہت کم ہیں اور ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقتی مسئلہ نہیں ہے اس کے لیے لمبا زمانہ درکار ہے اور غیر معمولی محنت و قربانی کی ضرورت ہے۔
یاد رکھیں، آفاتِ سماویہ کا یہ موقع ہم مسلمانوں کے لیے دعوتی نقطۂ نظر سے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دراصل غیر مسلم بھائیوں کے سامنے اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کرنے کا زریں موقع ہے۔ ہم اپنے عمل کے ذریعہ برادران پاکستان کو بتا سکتے ہیں، کہ اسلام انسانیت اور اخوت و بھائی چارگی کا مذہب ہے۔ فرقہ پرستی کے اس تاریک ماحول میں قومی یکجہتی، انسانی ہمدردی اور ایک دوسرے سے خلوص و محبت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
(4) جاں بحق افراد کے لیے دعائے مغفرت کرنا۔
ہماری چوتھی ذمہ داری یہ ہے کہ سیلاب میں جاں بحق ہونے والے خواتین و حضرات کے لیے دعائے مغفرت کا اہتمام کیا جائے۔ چونکہ وہ لوگ اچانک اور حادثاتی موت کا شکار ہوئے ہیں، اس لیے حضور ﷺ کے ایک ارشاد کے مطابق وہ شہداء میں شامل ہیں۔ نیز اچانک اور ناگہانی موت کے متعلق سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں، اچانک کی موت مومن کے لیے آسانی و تخفیف کا سبب ہے اور کافر کے لیے حسرت و افسوس کا باعث ہے۔ (مصنف عبدالرزاق)
لہٰذا ان کے لیے مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا بھی ہم پر ان کا حق ہے، اللہ تعالیٰ تمام شہدا کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اور ان کے ورثہ کو صبر جمیل عطا فرمائے، جن کے مکانات گر گئے ہیں، اللہ تعالیٰ غیبی اسباب کے ذریعے ان کے مکانات کی تعمیر کے لیے اسباب پیدا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔