Zuban Dna Ka Hissa Hai
زبان ڈی این اےکاحصہ ہے
جس طرح اس بات سے بہت فرق پڑتا ہےکہ آپ آدمی کی تعریف کیا کرتے ہیں؟ اسے دوسری مخلوقات سے اشرف اور ان پر غالب سمجھتے ہیں یا انھی کی مانند سیارہ زمین پر بسنے والی، ایک قدرے مختلف مخلوق، آدمی کو سوچنے والی مخلوق خیال کرتے ہیں یا صارفی ڈنگر۔
ان تعریفوں سے آدمی کے اس سارے تجربے پر بہت فرق پڑتا ہے جسے دنیا میں اس کے ہونےکا تجربہ کہا جاسکتا ہے۔ آدمی کےہرعمل کی نوعیت، مقصد، معنی اس کی اپنی اختیار کردہ یا وضع کردہ شناخت سےطےپاتےہیں۔ آدمی کادل وذہن وتخیل ہی باہرمنعکس ہوتاہے۔
اسی طرح اس سے بہت فرق پڑتا ہے کہ آ پ زبان کو صرف ایک آلہ ابلاغ خیال کرتے ہیں، جو آدمی سے الگ ہوتی ہے یا ایک ایسی چیز جو آدمی کے ڈی این اے کا حصہ ہے۔
زبان اگر محض آلہ ابلاغ ہےتو وہ آدمی سےالگ ہے۔ اس سے رشتہ محض ضرورت کاہے، قلب کانہیں۔ اسے ضرورت پوری ہونےکے بعد ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے بگڑنے، ضائع ہونے، یہاں تک کہ مرجانے کا کوئی تاسف نہیں ہوتا۔
جب آپ زبان کو ڈی این اے کا حصہ سمجھتے ہیں تواسےخود سے جدا کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ تب آپ زبان کی کی اصل اہمیت، قوت، اختیار کو محسوس کرتے ہیں۔
پھر آپ محسوس کرتے ہیں کہ دنیا میں سب سے بڑا اختیار، زبان کا ہے۔ آ پ اگر اپنی زبان رکھتے ہیں، اس میں موجود ادب وثقافت کی روایت سے دلی رشتہ رکھتے ہیں، زندہ اور مردہ روایت کا فرق کرسکتے ہیں اور زندہ عناصر کو نئے زمانے میں بامعنی بنانے کی تخلیقی اہلیت رکھتے ہیں، نیز خود اپنی ہی روایت کے نقاد بننے کی بصیرت اور جرأت رکھتے ہیں تو کوئی جنگ نہیں ہار سکتے۔
سب سے بڑی ہار، اپنی ذات، اپنی تاریخ، اپنی ثقافت، اپنی اساطیر، اپنی شناخت اور اپنی یادداشت کی ہار ہے۔ بیرونی استعمار دیسی لوگوں کے لیے ایسی ہی ہار کا انتظام کرتا ہے۔
آپ اپنی زبان کے ہوتے ہوئے، اس عظیم شکست سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اپنی اجتماعی یادداشت اور اپنی کہانیوں کی بازیافت کرکے اور اپنے قصوں میں بیرونی اور مقامی استعمار کے اصل تاریک چہرے کو، اس کی ساری کثیف تاریکی سمیت، سامنے لاکر، سیاسی میدان میں شکست کا بدلہ بھی لے سکتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ ہم نے زیادہ تراستعمار کو فرشتہ صورت، نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا اور بیرونی اور اندرونی استعمار کی تدبیروں کو پہچاننے میں غفلت کی۔ ہم نے ایک نسل کی شکست کو اپنی قوم کی شکست بنا کر رکھ دیا۔