Mirza Athar Abbas Se Mulaqat
مرزا اطہر بیگ سے ملاقات
محمد سلیم الرحمان کی مانند مرزا اطہر بیگ بھی کم آمیز ہیں۔ سلیم صاحب کم گو بھی ہیں، مرزا صاحب نہیں ہیں۔ دونوں اپنے اپنے میدانوں میں ممتاز ہیں۔
ان دونوں شخصیات سے ملاقاتیں طویل عرصہ سے ملتوی چلی آتی تھیں۔ روزمرہ کی مصروفیات بلکہ مکروہات دنیا حائل تھیں۔ چند دن پہلے سلیم صاحب سے ملاقات کی اور آج شام مرزا صاحب سے، ان کے گھر ملاقات ہوئی۔ غلام باغ، صفر سے ایک تک، حسن کی صورت حال، خفیف مخفی کی آپ بیتی کے مصنف سے۔ ہمارے عہد کے ممتاز فکشن نگار، جن سے کئی نئے لکھنے والوں نے اثر قبول کیا۔
مرزا صاحب گھر میں تنہا رہتے ہیں۔ کسی ملازمت کا طوق بھی نہیں۔ کوئی دوسری ذمہ داری بھی نہیں۔ اپنے معمولات کے تنہا مالک ہیں۔ مرضی سے لکھتے، پڑھتے، میوزک سنتے، فلمیں دیکھتے اور عجائب عالم کی سیر کرتے ہیں۔ میں نے کہا: مرزا صاحب، آپ تو جنت میں رہتے ہیں، یعنی اپنی لائبریری میں۔ تاہم جنت میں رہنے کی بھی قیمت ہے۔ یکسانیت اور تنہائی۔
ادیب کا تنہائی کے ساتھ دو قسم کا رشتہ ہوتا ہے۔ آرزو مندانہ بھی اور اکتاہٹ کا بھی۔ مرزا صاحب اکتاتے ہیں تو سیر وسفر کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ انھیں کوسمولوجی سے خاص دلچسپی ہے۔ وزیر آغا صاحب کو بھی فزکس اور فلکیات سے گہرا لگاو تھا۔ "یہ المیہ ہے کہ اردو میں پاپولر سائنس پر اورجنل لکھنے والے نہیں ہیں"۔ مرزا صاحب نے تاسف سے کہا۔ میں نے کہا کہ سائنسی فکر کو پاپولر کرنے کی جگہ پیدا ہونے ہی نہیں دی گئی۔ البتہ پاپولر ادب ضرور لکھا گیا ہے جو وطن عزیز کے "ماسٹر نیر یٹو" یعنی" سوال کرنے والے کا گلا دبا دو" کے مطابق مسلسل لکھا جارہا ہے اور اس سے زیادہ شوق سے پڑھا جارہا ہے۔
مجھے یاد ہے میں نے اردو سائنس بورڈ میں سٹیفن ہاکنگ کے لیے تعزیتی ریفرینس رکھا تو کیمبرج سے نظری طبیعیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل پروفیسر کو گفتگو کی زحمت دی۔ انھوں نے فرمایا کہ ہاکنگ معمولی سائنس دان تھا، کیوں کہ وہ دہریہ تھا۔ میں نے اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ ہم کسی بھی طرح کے علم سے بیگانگی کیسے اور کیوں اختیار کر لیتے ہیں؟ مرزا صاحب نے مثال دی کہ سیل فون اپنے اندر دو سو برس کی فزکس کو لیے ہوئے ہے، جس میں نظریہ اضافیت اور کوانٹم فزکس بھی شامل ہے۔۔ اسے استعمال کرتے ہوئے، آپ اسی سائنس بے حسی، فکری، دانشورانہ سطح پر کیوں کر بیگانہ ہو جاتے ہیں؟
ہم نے ادب، سائنس، فلسفہ، کلچر اور کتنے ہی موضوعات پر گفتگو کی اور اس پر سوچ بچار کی کہ کیسے اسے کچھ اور دوستوں کے ساتھ جاری رکھا جاسکتا ہے۔