Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Nayyar
  4. Milan Kundera, Alvida

Milan Kundera, Alvida

میلان کنڈیرا، الوداع

کسی ادیب کے انتقال کے فوری بعد کچھ لکھنا اعصاب سے زیادہ، موت کو قبول کرنے کی ہماری صلاحیت کا امتحان ہے۔ موت سب سے بڑی اور ہر لمحہ برپا رہنے والی حقیقت ہے۔ ہم بڑی مگر ہر لمحہ برپا رہنے والی حقیقتوں کے عادی ہوجاتے ہیں، سوائے موت کے۔

موت ہر بار ہماری یہ آزمائش کرتی ہے کہ ہم اس کڑی، کڑوی، ظالم، سفاک سچائی کا سامنا کیسے کریں؟ ہم اسے ماندگی کا وقفہ کہہ کر، ایک ابدی زندگی کا پورٹل قرار دے کر یا لالہ وگل کی صورت پھر ظاہر ہونے کا ذکر کرکے، اس کے لیے منطق وضع یا قبول کرتے ہیں، یا عقیدے میں پناہ تلاش کرتے ہیں۔ لیکن سب منطق اس وقت بھک سے اڑ جاتی ہے، جب موت خود ہمارے پاؤں پر اپنا بھاری پاؤں رکھتی ہے۔ ہم اس لمحے، اپنی بنیادی انسانی سچائی کے ساتھ، خود اپنے روبرو ہوتے ہیں، تنہا اور مصیبت زدہ۔ اپنے وجود کی گہری رمز کے روبرو جس میں کوئی ہمارا شریک حال نہیں ہوسکتا۔

اپنے ناول Immortality میں کنڈیرا کچھ یہی بات کرتا ہے۔ درد، مصیبت اور دکھ ہماری ذات کی اصل کو ہمارے سامنے لے آتی ہے۔ ہم خیالات کی سطح پر ایک دوسرے سے مماثل ہوتے ہیں، ہم خیالات مستعار لے سکتے، سیکھ سکتے ہیں، ان کا تبادلہ کرسکتے اور ان کی نقل بھی کرسکتے ہیں، مگر مصیبت (suffering) کا نہ تبادلہ ہوسکتا ہے، نہ یہ کسی سے مستعار لی جاسکتی ہے۔ مصیبت جو انسان کے بیشتر احساسات کی بنیاد ہے، ہر شخص کی اپنی ہے؛اور اسے خود ہی اس کا سامنا کرنا ہے۔ مصیبت کے اسی لمحے میں آدمی خو د کو پہچانتا بھی ہے، اپنے سب تاریک، روشن، افضل، اسفل، اور ابہام میں لپٹے پہلوؤں سمیت۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ کنڈیرا کا ناول کا تصور بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ وہ ناول کو جدید انسان کے وجود کی صورتِ حال کا اظہار کہتا تھا۔ انسانی وجود ایک مخصوص حالت میں اپنا اظہار کرتا ہے، کنڈیرا اپنے ناولوں میں اسی مخصوص حالت کو دریافت کرتا اور اس کا قصہ لکھتا۔ وہ ناولImmortality ہی میں ایک جگہ کہتا ہے کہ کچھ استثنائی لمحوں ہی میں اپنی عمر سے آگاہ ہوتے ہیں، باقی لمحوں میں ہم ایک نوع کی ابدیت (ageless) میں ہوتے ہیں، یا اپنی عمر کی فراموشی کی حالت میں۔ وہ اپنے ناولوں میں انھی استثنائی لمحوں کی مدد سےا نسانی وجود کا انکشاف کرتا تھا۔ وہ کرداروں کی ہر حالت کونہیں، مخصوص استثنائی حالتوں ہی کو لکھتا، خواہ وہ جنسی ہی کیوں نہ ہوں۔

ان خاص لمحات میں سے ایک لمحے کو وہ کچ (Kitsch)بھی کہتا ہے۔ "وجود کی ناقابل برداشت لطافت" میں اس جرمن اصطلاح کا کنڈیرا نے خاصا استعمال کیا ہے۔ جرمن میں کچ سے مراد بے ذائقہ، بدمزہ چیز اور بدمذاقی پر مبنی گھٹیا آرٹ ہے۔ جب کہ کنڈیرا کے مطابق کچ میں وہ سب، بہ شمول ناگوار، واہیات، مبتذل چیزیں شامل ہیں جو واقعی زندگی میں موجود ہیں (جیسے "شِٹ") مگر ہم اسے اپنی زندگی کے تصور میں جگہ نہیں دیتے۔ مضحکہ خیزی انسانی زندگی اور تقدیر میں موجود ہے، اسے قبول نہیں کرتے۔ چیکوسلواکیہ کی کمیونسٹ سیاست کے لیے انفرادیت پسندی، آزادی اظہار کچ تھی۔ وہ یہ بھی کہتا کہ کچ تمام سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں اور سیاسی تحریکوں کا جمالیاتی آدرش ہے۔ سیاست پر طنز کی اس سے بہتر صورت کیا ہوگی!

آج ایک عجب اتفاق بھی ہوا۔ سرائیکی کے ممتاز شاعر و ناول نگار رفعت عباس سے فون پر بات ہورہی تھی۔ ہم نے ژنگ کے "زمانی اتفاق" یعنی synchronicity اور کنڈیرا کے کچ کے تصور پر گفتگو کی۔ یہ گفتگو، غیر رسمی بات چیت میں یوں ہی شامل ہوئی۔ اب سوچتا ہوں تو یہ زمانی اتفاق محسوس ہوتا ہے۔ زمانی اتفاق کیا ہے؟ ذہنی اور خارجی دنیاؤں کے واقعات میں بامعنی مماثلت، جس کی منطقی توجیہہ مشکل ہو۔ ہمیں قطعاً معلوم نہیں تھا کہ جس وقت ہم اس کا ذکر کررہے تھے، اس وقت پیرس میں چورانوے سالہ میلان کنڈیرا کا انتقال ہوچکا ہے، یہ عجب زمانی اتفاق تھا۔ خود کنڈیرا کے ناولوں میں اتفاق کی انوکھی منطق پر بہت کچھ موجود ہے۔

کنڈیرا اپنے کرداروں کے وجود کی اصل کو منکشف کرنے کے لیے جس قدر فکر مند ہوتا، اسی قدر وہ اپنے سلسلے میں بے فکر رہنا پسند کرتا۔ وہ اپنی ذات و شخصیت کے ذکر و نمائش کو سخت ناپسند کرتا۔ اس میں سیلبرٹی مصنف کا جانا پہچانا تفاخر نہیں تھا۔ وہ بس یہ چاہتا تھا کہ اس سے ناول پر بات کی جائے یا اس کے ناولوں کو پڑھا جائے۔ اسے خود بولنے سے زیادہ اپنے کرداروں کا قارئین سے گویا رہنا پسند تھا۔ وہ مصنف کے طور پر جیا، مقرر کے طور پر نہیں۔

وہ چیکوسلواکیہ میں تھا تو شاعری اور ڈرامے بھی لکھا کرتا تھا۔ پیرس آنے کے بعد ناول اور مضامین لکھے۔ اسے وطن بدر کیا گیا تو اس نے فرانس کو اپنا وطن بنالیا اور فرانس کی زبان میں فرانسیسی طریقوں کے مطابق لکھا۔ وہ چیکوسلواکیہ کی سیاسی صورتِ حال کو ناولوں میں ضرورشامل کرتا رہا مگر خود کو سوائے ناول نگار کے کچھ کہلوانا پسند نہ کرتا۔ ناول نگار کے ساتھ کوئی بھی سابقہ پسند نہ کرتا۔

میلان کنڈیرا کا "ناول کا فن" میں مقدمہ ہے کہ ناول جدید عہد کی چیز ہے۔ ڈیکارٹ نے کہا کہ سوچنے والی ذات (thinking self) ہی ہر شے کی بنیاد ہے اور اس میں یہ نکتہ مضمر ہے کہ آدمی کو اکیلے ہی کائنات کا سامنا کرنا ہے، اور اسی سے آدمی بہ قول ہیگل ہیرو بنتا ہے۔ دوسری طرف ایک ناول نگار یعنی سروانٹس کی نظر میں دنیا ابہام سے بھری ہےاور آدمی کو کسی مطلق سچائی سے واسطہ نہیں پڑتا۔ کئی متضاد سچائیوں کا گٹھا آدمی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ سروانٹس کے ناول ڈان کیہوٹے کی اہمیت یہ ہے کہ ا س میں ٹھیک اور غلط کے واضح، غیر مبہم زمرے نہیں ہیں۔ دنیا میں یہ زمرے ہیں، ناول کے کرداروں میں نہیں۔ اس باریک فرق کو ایک اعلیٰ تخلیق کار ہی سمجھ سکتا ہے۔ کنڈیرا یہ بات سمجھتا بھی تھا اور ناولوں میں برتتا بھی تھا۔

کنڈیرا کے مطابق ناول کے تخیلی کردار، اس یقین کے تحت وضع کیے جاتے ہیں کہ سمجھنا، حکم لگانے سے کہیں بہتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کنڈیرا کے نزدیک جس دنیا میں مذہب و آئیڈیالوجی حاکم ہوں یا جہاں مطلق العنانیت ہو، وہاں ناول کی جگہ نہیں۔ تاہم ہمارے نزدیک اس دنیا میں ناول ہی کی سب سے زیادہ ضرور ت ہے۔ مذہب ومطلق العنانیت، سچ کی اضافیت، شک، سوال کو خارج کرتے ہیں۔

واضح رہے، کنڈیرا جس ناول کی با ت کرتا ہے، وہ کوئی سادہ، دل چسپ کہانی پر مبنی ناول نہیں، بلکہ اسے وہ کہیں polophony اور کہیں polyhistoricalکہتا ہے۔ ایسا ناول جس میں کئی متضاد چیزیں یک جا ہوتی ہیں، جس میں نہ تو انسانی وجود کی کوئی ایک حالت منکشف کی جاتی ہے، نہ زندگی کا محض ایک پہلو۔ نیزاس میں اصناف کی حدیں پگھلا دی جاتی ہیں۔ شاعری، تاریخ، آپ بیتی، فلسفہ، مضمون سب ناول کا حصہ بنتے جاتے ہیں۔ تاہم اس سب کو اس توازن، موزونیت اور تناسب کے ساتھ پیش کیا جاتا ہےجو موسیقی سے مخصوص ہے۔ کنڈیرا نے موسیقی کی تعلیم حاصل کی تھی اور اس کا باپ بھی معروف موسیقا ر تھا۔ وہ ناول کو بھی کثیر آوازوں، کثیر زاویوں، کثیر ہیئتوں کی سمنفی بناتا ہے، کیوں کہ صرف اسی صورت میں جدید عہد کے انسان کے وجود کی ساری پیچیدگی کو منکشف کیا جاسکتا ہے!

Check Also

Christmas

By Javed Chaudhry