Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nasir Abbas Nayyar
  4. Alvida 2023

Alvida 2023

الوداع 2023ء

برادرم پروفیسر سرورالہدیٰ کا اصرار ہے کہ سال 2023ء سے متعلق کچھ لکھوں، اور میں سو چ میں پڑا ہوں کہ کیا لکھوں؟ چند سطروں میں پورے سال کی کتاب کا خلاصہ کیسےلکھوں؟ خود انھوں نے کل، فیس بک پر سال بھر کے مطالعاتی سفر کا عمدہ جائزہ پیش کیا ہے۔

میں نے کل کے دی نیوز کے سنڈے ایڈیشن میں گزرے برس میں پڑھی گئی چند کتابوں پر کچھ لکھا ہے۔ کتابیں، پڑھی اس سے کہیں زیادہ تھیں۔ نئی بھی اور پرانی بھی۔ کچھ کتابیں اگلے ہی دن بھول گئیں، کچھ چند ہفتوں بعد، دوتین ذہن کا مستقل حصہ بن گئیں۔ اس میں میری اپنی یادداشت کی کسی خرابی یا میرے مزاج و ذوق کا عمل دخل ہوسکتا ہے۔

تاہم اعلیٰ کتابوں کی مانند، بری کتابیں بھی آدمی کو یاد رہا کرتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ آدمی کو ایسی چیزوں، لوگوں کی ضرورت رہتی ہے، جن کی وہ مسلسل ملامت کرسکے، بری کتابیں آدمی کی یہ نفسیاتی ضرورت پورا کرتی ہیں۔ اوسط درجے کی کتابیں جلد یا بدیر بھول جایا کرتی ہیں۔

یہ سال فلسطین کے المیے کے باعث بہت تکلیف دہ گزرا۔ نئے سال میں بھی فلسطینیوں کاالمیہ کم ہوتا محسوس نہیں ہوتا۔ خود اپنے وطن، خصوصاً بلوچستان کے حالات بھی بے حدتشویش ناک رہے۔ ملک میں سیاسی، مذہبی، لسانی، ادبی سطحوں پر بدترین تقسیم اس سال بھی برقرار رہی۔ ایک طاقت نے بدستور مزید طاقت حاصل کی۔

مصنوعی ذہانت، انسانی ذہن کی سب سے بڑی ایجاد کے ساتھ ساتھ، ایک بڑے چیلنج، خطرے اور مسئلے کے طور پر سامنے آئی۔ میں اب ماہ و سال کو کچھ اور طرح سے دیکھتا ہوں، پہلے اور طرح دیکھا کرتا تھا۔

ایک وقت تھا کہ جب سال کا آخری دن جیسے ہی طلو ع ہوتا، میں اس کی ایک ایک ساعت کو شدت سے محسوس کیا کرتا تھا۔ اس کے تین سو پینسٹھ دنوں کا حساب کیا کرتا۔ جو عہد وپیمان خود سے اور دوسروں سے کیے ہوتے یا ارادے باندھے ہوتے اور انھیں ایک نوٹ بک میں تحریر کیا ہوتا، ان کا حساب (آڈٹ) کیا کرتا۔

کون سی کتابیں پڑھنی تھیں، کیا کیا لکھنا تھا، کن لوگوں سے ملنا، کن سے گریز کرنا تھا، کہاں جانا اور کہاں ٹھہرنا تھا، اپنے شب و روز کو کیسے ترتیب دینا تھا، جلد سونا اور جلد اٹھنا تھا، کھانے پینے میں احتیاط و اعتدال سے کام لینا تھا وغیرہ، اس سب کا جائزہ لیتا۔ اس حساب کتاب کا حاصل، کمی اور فرق کااحساس ہوتا۔ ارادوں اور ان کی تکمیل میں کمی اور فرق۔

ارادے بلند ہوا کرتے اور انھیں عمل میں لانے کی رفتار خاصی سست رہا کرتی۔ ان اسباب کو سمجھنے کی کوشش کرتا جو اکتیس دسمبر کو باندھے گئے عزائم کی تکمیل میں حائل رہے۔ یہ اسباب خارجی سے زیادہ داخلی ہوا کرتے۔ ایک تصور کی گئی دنیا کو حاصل کرنے میں نارسائی کا إحساس ہوتا۔ آدمی کی اس نارسائی پر بیدل نے کیا غضب کا شعر لکھا ہے:

ہمہ عمر باتو قدح زدیم و نرفت رنج خمار ما

چہ قیامتی کہ نمی رسی زکنار ما بکنار ما

(پوری عمر تیرے ہمراہ (تصور میں) قدح نوشی کی، لیکن ہمارے خمار کا رنج ختم نہ ہوا۔ کیا قیامت ہے کہ تو ہمارے پہلو سے ہمارے پہلو تک نہیں پہنچتا۔۔ حالاں کہ پہلو سے پہلو تک کا فاصلہ ہی کتنا ہے!)

کیا آدمی اپنی ہر خواہش میں، لازماً غیر حقیقت پسند ہوا کرتا ہے؟ کیا آدمی کا ہر ارادہ، اس کی طبعی قوتوں اور دستیاب وسائل کا درست اندازہ لگانے سے قاصر رہا کرتا ہے؟ یاہم میں سچائیوں سےگریزکی قدیمی عادت ہے؟

بہر کیف، رفتہ رفتہ آدمی کا ایک مزاج بنتا جاتا ہے۔ کام کرنے، جلد یا آہستہ کرنے، کام کو ٹالتے چلے جانے یا سرے سے کام نہ کرنے کا ایک پیٹرن بن جایا کرتا ہے۔ آدمی کایہ مزاج اور پیٹرن، وقت کے مقداری پیمانے سے، باہر کے أسباب سے بے نیاز ہوجاتے ہیں۔

یہ بات بھی سمجھ میں آگئی کہ کوئی سال، سال کے مہینے، ہفتے، دن آدمی کے لیے بہ طور خاص سازگار نہیں ہوتے۔ یہاں تک کہ معاش و صحت کے مسائل یا کسی جذباتی بحران کے دن بھی آدمی سے کام کرنے کا مخصوص مزاج اور پیٹرن نہیں چھینتے، صرف کام کی رفتار کو عارضی طور پر سست ضرور کرتے ہیں اور اس کی بھی آدمی تلافی کر لیا کرتا ہے۔

البتہ آدمی میں اپنے ارادوں کو عمل میں نہ لانے کے اسباب فرض کرنے اور تراشنے کا ملکہ ضرور موجود ہے۔ ہم سب، کم یا زیادہ، اپنی ذمہ داری قبول کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اپنی حالت کی ذمہ داری، حالات، زمانے یا دوسروں پر ڈال لیا کرتے ہیں۔ کئی بار حالات، زمانے اور تقدیر کی ملامت یا شکوے کے پیچھے ہمارا اپنا احساس ندامت کام کررہا ہوتا ہے مگر ہم اسے کم ہی تسلیم کرتے ہیں۔

اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ میں موٹیویشنل مقرروں کی مانند آدمی سے متعلق کسی مثالی تصور کو دہرانا چاہتا ہوں کہ آدمی جو چاہے حاصل کرسکتا ہے۔ میں تو بس وقت سے متعلق اپنے ایک عام ساتجربہ بیان کررہا ہوں۔ یہ کہ ہم رفتہ رفتہ باہر کے مقداری، کیلنڈری وقت سے زیادہ اپنے اندر کے وقت اور موسم کے مطابق زندگی بسر کرنا شروع کرتے ہیں اور اندر کے وقت میں سال، مہینوں کی نہ تو گنتی ہوتی ہے، نہ ہفتوں، دنوں کے نام ہوتے ہیں۔ یہاں ماضی و حال و مستقبل کی بھی تخصیص نہیں ہوتی۔

لہٰذا سال 2023ء بھی اسی ڈھب سے گزرا، جس ڈھب سے گزشتہ کئی سال گزر رہے ہیں۔ وہی لکھنا پڑھنا، پڑھانا، گفتگوئیں، تقاریب میں شرکت۔ کتابوں، مضامین کی اشاعت۔ عام قارئین کی طرف سے کتابوں کی تحسین، اور معاصر ادیبوں کی طرف سے تحسین وتردید کی وہی روش!

Check Also

Udas Naslain, Khan Deedawar, Trump Maseeha

By Nusrat Javed