Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mumtaz Malik
  4. Veraan Haweliyon Mein Baste Bhoot

Veraan Haweliyon Mein Baste Bhoot

ویران حویلیوں میں بستے بھوت

ہمارے ملک کے بہت سے گاؤں اور چھوٹے چھوٹے علاقے جہاں سے آئے ہوئے لوگ یورپ اور امریکہ میں دن رات محنت اور مشقت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جو آج بھی یہاں چھوٹے چھوٹے گھروں میں دو دو تین تین کمرے کے اکثر سرکاری فلیٹوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنے بیوی بچوں کو انہوں نے وہ لائف سٹائل نہیں دیا جو انہیں پسند ہے۔ لیکن جن علاقوں سے یہ آئے ہیں وہاں پر بڑی بڑی شاندار حویلیاں اور نت نئے ڈیزائن کی کوٹھیاں بنا کر اپنے بچپن کے احساس کمتری اور احساس محرومی کو دبانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اس سفر میں انہوں نے اپنی زندگی کے 40 سال 50 سال گنوا دیئے۔ اپنی زندگی بھر کی ساری کمائیاں پیچھے بڑے بڑے گھر بنانے میں لگا دیں۔ وہ گھر جو ویران حویلیوں کا منظر پیش کرتے ہیں، جہاں کوئی نہیں رہتا، جہاں صرف ان کے بچپن کے ادھورے خواب اور ناآسودہ خواہشیں دفن ہیں، لیکن وہاں دوسروں کو دکھانے کے لیئے انہیں ہر بننے والے گھر سے بڑا گھر چاہیئے۔ ہر پڑوسی سے بڑی گاڑی چاہیئے، لیکن کس کے لیئے؟ ان گھروں میں آباد بھوتوں کے لیئے۔ انہیں کون بتائے کہ گھر دیواروں سے نہیں بنتے، گھر گھر کے لوگوں سے بنتے ہیں۔

کتنی بدنصیبی کی بات ہے جہاں آپ کے گھر کے افراد اور لوگ رہ رہے ہیں۔ وہاں آپ نے سہولتوں کا فقدان کر رکھا ہے۔ ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ انہیں ترس ترس کے جینے پہ مجبور کر رہے ہیں اور جہاں کوئی رہنے والا نہیں، وہاں بھوتوں کے لیئے بڑے بڑے بنگلے بنا کر دیئے۔ آپ میں ایسے لوگ، جو اس قسم کے خلجان میں مبتلا ہیں، انہیں پہلی فرصت میں ضرور کسی اچھے ذہنی نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیئے، کیونکہ یہ کوئی نارمل بات نہیں ہے۔

دنیا کا کوئی بھی آدمی جہاں رہتا نہیں، وہاں پر اتنے بڑے بڑے بے مقصد گھروں پر اپنی ساری زندگی کی اپنی 18-18 گھنٹے کی کمائیاں، یہاں تک کہ اپنی پینشنیں بھی لگا رہا ہو، جبکہ جہاں اس کے بچے آباد ہوں، جہاں اس کا اپنا مستقل ٹھکانہ ہو، جہاں اس نے سال کے 11 مہینے رہنا ہو، وہاں پر وہ مفلوک الحال لوگوں جیسی زندگی گزار رہا ہو اور اگر مفلوک الحال سے ایک قدم اوپر اٹھ جائیں تو بمشکل ایک لوئر مڈل کلاس کی زندگی گزارتا ہے۔

ضروری یہ ہے کہ ان لوگوں کو احساس دلایا جائے۔ ان کی وہ ذہنی کمیاں، کوتاہیاں دور کرنے میں ان کی مدد کی جائے اور انہیں یہ بات سمجھنے کے لیئے تیار کیا جائے، راغب کیا جائے کہ انسان جہاں رہتا ہے اسے وہیں پر اپنی آمدنی، اپنے اخراجات اور اپنے لائف سٹائل کو مدنظر رکھنا چاہیئے۔ اپنی زندگی کو آسان بنانے پر اپنی کمائی کو خرچ کرنا چاہیئے۔ اس کمائی کا کیا فائدہ جو آپ کے اپنے گھر والوں، اپنے بیوی بچوں کے کام نہ آ سکی، اور ساری زندگی کے لیئے آپ نے اپنی کمائی ویران حویلیوں کے نام پر ایک خاموش قبرستان میں جھونک دی۔

آج آپ کے مرنے کے بعد آپ کا کوئی بچہ یورپ امریکہ سے اٹھ کر ان ویران حویلیوں کو آباد کرنے نہیں جائے گا اور آپ کی ساری عمر کی کمائی 50 سال 60 سال 70 سال کی کمائی اس دلدل میں ڈوب گئی۔ آپ نے کہیں کسی سے دعا نہیں لی۔ ان ویران حویلیوں کے بجائے یا تو وہاں کوئی ہسپتال بناتے، بوڑھوں کے لیئے کوئی سینٹر بنا دیتے، کوئی یتیم خانہ بنا دیتے، کوئی سکول بنا دیتے، کوئی ڈسپنسری بنا دیتے، کوئی ہنر سکھانے کا ادارہ بناتے تو شاید کوئی صدقہ جاریہ اور دعا کی جگہ آپ کے مرنے کے بعد بھی رہتی ہے اور دنیا میں بھی آپ کو یاد رکھا جاتا، لیکن اتنے بڑے بڑے گھر اور حویلیاں بنانے کے بعد آپ کو اس دنیا سے جانے کے بعد کون یاد کرے گا۔

ہمارے معاشرے کے گھٹیا دستور کے مطابق آپ وہاں پکارے تو اسی نام سے جائیں گے کہ دیکھا بھئی موچیوں کے منڈے نے بھی کوٹھیاں بنا لی ہیں۔ سنا تم نے نائیوں کا بیٹا بھی بنگلہ بنا رہا ہے۔ دھوبیوں نے بھی حویلی خرید لی ہے۔۔ جبکہ دراصل بھوت پریت جنات کے بسیرے کے لیئے تو آپ نے ٹھکانے بنائے اسکے بجائے آپ زندہ انسانوں کے بسیرے یا مفاد کے لیئے ٹھکانے بناتے تو وہ انسان آپ کو یاد بھی رکھتے۔

حقیقت میں یہاں آپ کی وفات کے بعد آپ کے بچے یا ان کے بچے آپ کے جنازوں کے ساتھ اس لیئے نہیں جاتے کہ آپ کے جنازے کو مٹی دینا ضروری ہے۔ بلکہ اس لیئے جاتے ہیں کہ وہاں جلدی سے جلدی اسی گرما گرمی میں ان ساری زمینوں، حویلیوں، دکانوں کا ریٹ لگا کر فوراً سے پہلے انہیں بیچ کر ان پریشانیوں سے بچا جا سکے جو وہاں ان زمینوں، جائیدادوں اور گھروں کو چھوڑنے کی صورت میں قبضوں اور پھر قانونی کاروائیوں کی صورت میں نئے جھمیلے تیار کئے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ لوگ یہاں آ کر اتنی لمبی قانونی لڑائیوں میں پڑ کر مزید اپنی زندگیاں کمائیاں تباہ نہیں کر سکتے اور یہاں رہنے کے حالات ان کے لیئے ویسے ہی موزوں نہیں ہوتے۔ اس لیئے وہ انہیں اونے پونے بیچ کر بھی نکلنا مناسب سمجھتے ہیں۔

اپنے سوچنے کا نظریہ بدلیئے اور اپنے آپ کو قیامت تک کے لیئے دنیا میں آیا ہوا مت سمجھیں۔ اپنی زندگی کو اس غم میں غرق نہ کریں کہ فلاں جگہ میرے خواب ادھورے رہ گئے اور میں وہاں مکمل کرنے کے لیئے جاؤں گا اور اگلے 20 سال میں یہ کروں گا اور اگلے 40 سال میں یہ کروں گا۔ زندگی کی اگلی گھڑی کا کوئی اعتبار نہیں۔ زندگی وہی ہے جو آج آپ گزار رہے ہیں۔ آنے والے لمحے میں کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا اور جو کل گزر چکا ہے۔

وہ ہمارے بس میں نہیں تھا۔ نہ ہم اسے واپس لا سکتے ہیں۔ نہ ہم اس میں جا کر اسے بدل سکتے ہیں۔ تو پھر بے وقوفوں کی طرح سانپ گزر جانے کے بعد اس لکیر کو پیٹنے کا کیا فائدہ۔ ماضی وہ سانپ ہے جو گزر چکا ہے۔ ہماری زندگیوں پر اپنے نشان چھوڑ کر۔ اسے جانے دیجیئے۔ آگے بڑھئیے۔ زندگی آج میں جی کر آنے والے وقت کے لیئے کچھ ایسا کرکے جائیئے۔ جو آپ کو آج بھی اور آنے والے وقت میں بھی اچھے ناموں کے ساتھ یاد رکھا جائے۔

نائی، موچی، دھوبی کے بنگلے دیکھ کر انکی تضحیک اور تمسخر اڑانے والے ان کے بنائے سکول، ہسپتال، کارخانے اور فلاحی ادارے دیکھ کر عقیدت سے نظریں جھکانے پر مجبور ہو جائیں اور انہیں سلام پیش کریں کہ جو کام وہاں کے مقامی مخیر حضرات سارے وسائل ہونے کے باوجود نہ کر سکے ان چھوٹے گھروں کے مفلس لوگ پردیس کاٹ کر، اپنی حق حلال کی کمائیوں سے وہاں کر گئے۔

تاریخ میں مشہوری تو تاج محل بنانے والے کو بھی ملی، لیکن عزت کنگ ایڈورڈ اور کملا دیوی جیسے ہسپتال بنانے لوگ والے لوگوں نے ہی پائی۔ تو اپنی زندگی کے مقاصد میں مشہور ہونے سے زیادہ عزت کمانے کو ترجیح دیجیئے اور عزت ان کاموں سے ملتی ہے، جس سے معاشروں میں لوگوں کو آسانیاں اور روزگار میسر ہو سکیں۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (2)

By Wusat Ullah Khan