Rukiye, Qurbani Karne Ja Rahe Hain
رکیئے، قربانی کرنے جا رہے ہیں
ایک بار پھر سے اللہ تعالی نے ہمیں عید قرباں کا موقع اس کے پیارے نبی حضرت ابراہیمؑ اور ان کے فرزند حضرت اسماعیلؑ کی قربانی کی یاد میں منانے کا موقع دیا۔ آج کے دن ان کی قربانی کی یاد میں اللہ کے حکم پر بھیڑ، بکرا، گائے، بیل، اونٹ کوئی بھی جانور حسب توفیق حسب استطاعت اپنی مالی اور جذباتی قربانی کے طور پر اللہ کے حضور پیش کی جاتی ہے۔
بے شک یہ دنیا کا وہ تہوار ہے جہاں پر صرف اس ایک تہوار کی وجہ سے ان دو تین روز کے اندر اربوں کھربوں روپے کا نہ صرف جانوروں کا چمڑا میسر آتا ہے۔ بے شمار ایسے لوگوں کی پیٹ میں خدا کے نام کا یہ گوشت رزق بن کر پہنچتا ہے۔ جنہوں نے شاید سال بھر میں ایک ہی بار گوشت کا مزہ چکھا ہو۔ بے شمار لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے۔ کئی لوگوں کو تو شاید ان تین دنوں کے اندر پورے سال بھر کا روزگار میسر آجاتا ہے۔
گوشت کاٹنے والے، بنانے والے، بیچنے والے، جانوروں کا چارہ بیچنے والے، ان کی دیکھ بھال کرنے والے، ان کی نگرانی کرنے والے، اور پھر اس کے بعد ان کی الائشوں کو ٹھکانے لگانے والے، شہر کی صفائی کرنے والے، اس کے سوا بہت سارے کام کرنے والے لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے، لیکن اس قربانی کے دن یاد رکھنے کی خاص بات بہت ہی زیادہ خاص بات یہ ہے کہ ان جانوروں کو بہت پیار سے محبت کے ساتھ رکھیئے۔ کیونکہ یہاں صرف آپ نے مالی طور پر انہیں خرید کر ہی پیش نہیں کرنا اللہ کے ہاں، بلکہ اس جانور سے وابستہ آپکے جذبات، محبت، ہمدردی، پیار یہ سب کچھ اس کے ساتھ جائے گا اللہ کے دربار میں، تو اسے محبت سے پالیئے۔
محبت سے سہلائیئے۔ اس کے کھانے پینے کا خیال رکھیئے۔ اس کی نگرانی کیجئے۔ اور پھر اس سے بھی بڑی خاص بات یہ قربانی کے روز ان کے ذبیحہ کے روز انہیں ایک دوسرے کے سامنے مت ذبح کیجئے۔ ان کے سامنے ذبح کرنے والے ہتھیار چھری، چاقوؤں یا ٹوکے، ان کو کاٹنے والے، کبھی بھی ان کے سامنے نہ تیز کیجئے، نہ لہرائیے، ان کی انکھوں میں موت کی وحشت اور خوف مت پیدا کیجئے۔ انہیں کھلا پلا کر پرسکون انداز میں قربان گاہ کی طرف لے کر جائیں۔ پھر انہیں گرانے کا وہ طریقہ استعمال کیجئے۔ جس سے انہیں کم سے کم تکلیف ہو۔ چھری کی دھار کو تیز تر رکھیں۔
انہیں ذبح کرتے وقت صرف وہی رگیں کاٹیئے جو کہ اللہ تعالی نے احسن قرار دی ہیں۔ ان کو تھوڑی دیر کے لیے پھڑک کر اپنے اندر سے وہ سارا خون خارج ہونے دیجئے جو ان کے اندر رہ جانے کی صورت میں اس گوشت کے مزے کو حرام گوشت سے مختلف کرتا ہے۔ اس خون کو ان کے اندر سے خود قدرتی بھرپور طریقے سے نکلنے دیجئے۔ کھال اتارنے میں جلدی مت کیجئے اور دوسری بات جانور کا گوشت تقسیم کرتے وقت یہ یاد رکھیں ان گھروں میں گوشت بھیج کر کہ جن گھروں سے آپ کو واپس مل جائے گا اور آپ اپنے ڈیپ فریزر بھر لیں گے۔ کوئی فائدہ نہیں اس قربانی کا۔ یہ گوشت ان لوگوں کا حق ہے۔ جو کسی بھی مجبوری، کسی بھی وجہ سے، عید قرباں پر اللہ کی راہ میں قربانی نہیں کر سکے۔ ان کی استطاعت نہیں تھی یا ان کے پاس اتنے ذرائع نہیں تھے۔ تو گوشت کے بدلے گوشت کی تجارت مت کیجئے۔
عید کے موقع پر جبکہ سارا سال آپ گوشت کھاتے ہیں اور پھر اللہ نے آپ کو استطاعت دی کہ آپ نے حصہ ڈالا یا الگ سے مکمل ایک پورا جانور خرید کر اللہ کے راہ میں قربان کرنے کا ارادہ کیا، تو جب اتنا خوبصورت ارادہ کر ہی لیا ہے، تو اس سے بڑھ کر خوبصورت کردار ادا کیجئے۔ اللہ نے اتنی استطاعت دی ہے کہ آپ سارا سال کھا سکتے ہیں تو ایک دن کا جانور اللہ کی راہ میں مکمل تقسیم کیجیئے۔
کوشش کیجئے کہ ان دو روز کے اندر اندر جہاں تک وہ گوشت ان لوگوں کے ہاں پہنچ سکتا ہے جنہوں نے قربانی نہیں کی وہ پہنچائیئے وہاں پر۔ اپنے گھر کے ڈیپ فریزر کو اس کے علاوہ گوشت کے لیئے اس امید پر رکھیں کہ اللہ تعالی آپ کو مزید اس کی برکتوں سے نوازنے والا ہے سارا سال۔ جب یہی نیت کر لیں گے کہ یہی گوشت میں سارا سال کھاؤں گا تو پھر آپ اسی کے محتاج کر دیئے جائیں گے۔
اللہ کو آپ کی یا میری قربانی کرنے کے لیئے کسی جانور کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو ایک استعارہ ہے کہ ہم اپنے مال سے اپنے اللہ کی راہ میں اس قربانی کی یاد کو تازہ کرتے رہیں جو ایک باپ اور بیٹے کی اللہ کے سامنے فرمانبرداری کی ایک اعلی ترین مثال بن گیا۔ لہذا عید قرباں کے روز سب سے پہلی بات اپنے ذہن میں یہ رکھیں کہ لوگوں میں ہڈی، چربی اور اوجری تقسیم کرنے کے بجائے بہترین گوشت بنوائیں۔
اس سارے گوشت کو مکس کر دیجئے اور پھر اسی میں سے ہر اس گھر میں جہاں قربانی نہیں ہوئی۔ اگر بہت زیادہ نہیں بھیج سکتے، ملنے والے زیادہ ہیں، دینے والے زیادہ ہیں، تو کم از کم ایک کلو گوشت کا پیکٹ ضرور بنا کر بھیجیئے تاکہ ان کے ایک وقت کا سالن تو تیار ہو سکے۔ ایک چھیچڑا، ایک ہڈی اور ایک بوٹی جیسا شرمناک رواج جو ہم بچپن میں بھی دیکھا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے اچھی طرح ہمارے گلی محلے میں بھی جب ایسا ہوتا تھا تو ہماری ماں وہ گوشت آرام سے واپس کر دیا کرتی تھی اور کہا کرتی تھی بیٹا یہ کسی اور کے گھر بھیج دینا، جہاں اس کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں قربانی ہوتی تھی تب بھی اور نہیں ہوتی تب بھی الحمدللہ بازار سے لا کر گوشت اتنا موجود ہوتا تھا کہ کھلا ڈھلا کھانا پینا بنتا تھا۔ وہ کہتے تھے اتنی سی چیز کے لئے خود کو بدنام کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ کیوں لیا جائے؟ اور واقعی ایسی چیز لینے کی ضرورت بھی کیا ہے جو نہ پک سکتی ہے نہ پھینکی جا سکتی ہے۔
قربانی کی چیز آپ پھینک بھی نہیں سکتے۔ لہذا ان لوگوں کو واپس کر دیا کریں کہ یہ جو اتنا تکلف کرکے یہ تین نمونے بھیجتے ہیں۔ تو آپ بھی کسی کے گھر ایسی کوئی چیز مت بھیجیں۔ جو اگلا کھانے کے بجائے کسی جانور کو ڈال دے یا پھر پھینکنے پر مجبور ہو جائے۔ چیز وہ بھیجی ہے جو دعا کے ساتھ آپ کے نام کے ساتھ اگلا پکاتے وقت یاد کرے، کہ فلاں کے گھر سے ایک چیز آئی ہے۔ اپنے گھر کے علاوہ عادی فقیروں کو چھوڑ کر سفید پوش اور غریب لوگوں پہ توجہ دیجئے عادی فقیر تو سارا سال مانگتے رہتے ہیں۔
پاکستان کی ویسے بھی چھ کروڑ سے اوپر کی آبادی جو بیٹھ کر کھانے کی عادی ہے نہ یہ مستحقین بھی آتے ہیں نہ ان سے ہمدردی ہونی چاہئے۔ یہ ہڈ حرام جتھے ہر جگہ پہنچے ہوتے ہیں۔ اپنے ملازمین کو دیجئے، صفائی کرنے والوں کو دیجئے، اپنے کولیگز میں دیجئیے۔ جو لوگ کسی وجہ سے قربانی نہیں کر رہے ان کے گھروں میں قربانی کا گوشت ضرور پہنچنا چاہئے۔ کوئی بھی چیز بانٹتے وقت چاہے وہ کوئی تبرک ہو چاہے تحفہ یہ یاد رکھیں ان کی اصل جگہ وہی ہوتی ہے جہاں سے واپسی میں اس کے بدلے میں کچھ نہیں آتا۔ یا نہیں آ سکتا۔ اگر واپسی میں برابری کا وہی بنڈل بن کر آپ تک واپس آبجانا ہے تو نہ اس تحفے کی کوئی فضیلت رہی اور نہ ہی اس تبرک کی۔۔
عید قرباں مبارک ہو۔۔