Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mumtaz Malik
  4. Har Gali Mein Masjid Kyun?

Har Gali Mein Masjid Kyun?

ہر گلی میں مسجد کیوں؟

ہمارے ہاں اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہر دوسری گلی میں ایک مسجد بنا دی گئی ہے۔ کہیں پلاٹ پر قبضہ کرنے کے لیئے، کہیں بہن بھائی کوئی دنیا میں نہیں رہا تو اس کی زمین پہ قبضہ کرنے کے لیئے۔ مسجد کو ایک دکان کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک بات تو یہ کہ اسے چندے اکٹھے کرنے کا ایک ذریعہ بنا کر لوگ نوٹ چھاپ رہے ہیں اور دوسری بات جو سب سے زیادہ خوفناک ہے وہ یہ کہ ایسی بند گلیوں میں مسجدیں بنانے کی وجہ سے اس گلی کے سارے لوگ، سارے بچے، ساری خواتین، غیر محفوظ ہو جاتے ہیں۔

ہم نے خود دیکھا ہے ایک سے ایک بڑھ کر نشئی، تماشائی، بردہ فروش اور دو نمبر قسم کے لوگ ایسی گلیوں کے چکر صرف اس لیئے لگاتے ہیں کہ نماز پڑھنے کے نام پر مسجد کے نام پر اس طرف سے گزنے کا بہانہ موجود ہے۔ چاہے انہیں وضو کرنا بھی نہ آتا ہو۔ لیکن وہ ایسی گلیوں میں گزر کر وہاں کے کھیلتے بچوں کو، بچیوں کو، عورتوں کو آتے جاتے نظر میں رکھتے ہیں۔ ان کی ریکی کرتے ہیں اور پھر حسب ضرورت مجرموں کا ساتھ دیتے ہوئے ان گلیوں میں شکار ڈھونڈ لیتے ہیں۔

اکثر آپ نے دیکھا ہوگا۔ جن گلیوں میں مسجدیں ہوتی ہیں وہاں سب سے زیادہ گھروں میں چوریاں ہوتی ہیں، بچے اغوا ہوتے ہیں، عورتیں گھروں سے بھگائی جاتی ہیں یا اغوا کی جاتی ہیں۔ جب ہمارے دین کے اندر یہ بات موجود ہے کہ جتنے قدم اٹھا کر مسجد کی طرف جاؤ گے اتنا ہی ثواب ہوگا، پھر کیا وجہ ہے کہ ہر گلی میں ایک مسجد بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ چاہے وہ مسجد سارا سال ویران بیابان پڑی ہو، لیکن کسی نہ کسی بہانے لوگ مسجد کا چکر لگاتے ضرور ہیں۔ نماز کے وقت چاہے صفیں خالی ہوں لیکن اس کے علاوہ مسجد کا چکر لگانے کے لیئے بہانے بہانے سے کسی بھی وقت ایک طرح سے ان کو لائسنس مل چکا ہوتا ہے کہ مسجد کا نام لے کے جب چاہیں اس گلی میں داخل ہو جائیں۔

پہلے وقتوں میں لوگ پوچھا کرتے تھے۔ جب گلی میں کوئی نیا بندہ نظر آتا تھا تو پوچھا جاتا تھا کہ کیوں بھئی کدھر جا رہے ہو؟ آپ کس کے گھر کے مہمان ہو؟ لیکن اب مسجد کے بہانے ایک بڑا اچھا ویلڈ بہانہ ان کے ہاتھ میں موجود ہوتا ہے کہ پوچھو کہاں جا رہے ہو؟ جی مسجد جا رہے ہیں۔ اچھا جی کہاں سے آ رہے ہیں؟ مسجد سے آ رہے ہیں۔

اب اس مسجد آنے اور جانے کے بہانے کے بیچ میں اگر ان سے آپ کبھی نماز سنانے کا کہہ دیں تو یقین کیجئے ان میں اکثر لوگوں کو پوری نماز بھی نہیں آتی ہوگی۔ ان کا حلیہ دیکھیں، ان کا انداز دیکھیں لیکن وہ ایسی گلیوں میں مسجدوں کے بہانے جا کر نت نئے جرائم سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔ اس لیئے کھلی جگہوں پہ مسجدیں بنائی جائیں۔ مین سڑک کے اوپر بنائیں۔ جہاں سے سی سی ٹی وی کیمرہ موجود ہوں آتے جاتے لوگ دکھائی دیں۔

کون، کہاں، کس وقت، کب آیا اور کب گیا۔ لوگوں نے اللہ کے گھر کو، مسجدوں کو مذاق بنا لیا ہے۔ قیامت کیوں نہ آئے، قیامت کو آ ہی جانا چاہیئے۔ جو کچھ حرکتیں ہو رہی ہیں چھوٹے بچے جس طرح سے ریپ کیئے جا رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں گلیوں سے اٹھائی جا رہی ہیں۔ بچے سپارہ پڑنے جاتے ہیں۔ بچے قران پاک کی تعلیم کے نام پر جاتے ہیں کہیں پہ مولویوں کا شکار بن رہے ہیں۔ کہیں پہ وہاں پہ اپنے سے بڑے پڑھنے والے طالب علموں کا شکار بن جاتے ہیں۔ ریپ ہو جاتے ہیں۔ اور جنسی حملوں کا شکار بنتے ہیں۔ اور ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ان کی حفاظت کے لیے بے حد ضروری ہے کہ ان تمام مساجد کو بند کیا جائے۔ ان کو لائبریری میں تبدیل کر دیا جائے یا پھر کوئی نرسری اور پرائمری سکول بنا دیا جائے۔ لیکن وہاں سے ان مسجدوں کو بند کیا جائے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ یہ بے حرمتی ہے مسجد کیوں بند کی جائے تو یاد رکھیئے مسجد کی ایک مثال ہمارے پاس مسجد ضرار کی صورت میں موجود ہے جہاں جب فتنہ اور فساد کی صورتحال پیدا ہوئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس مسجد کو گرانے کا حکم اللہ کے حکم سے دے دیا۔ یعنی یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ آنے والے وقت میں اگر مسجدوں کو کسی غلط کام کے لیئے استعمال کیا جائے تو اسے گرانے یا بند کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تو برائے مہربانی اسے اپنی مونچھ کا بال بنانے کے بجائے لوگوں کی حفاظت یقینی بنائیں۔

گلیوں محلوں سے مسجدوں کو بند کیجیئے اور اسے بڑی سڑکوں پر اور مین مقامات پر لے کر آئیں اور جس علاقے میں جتنے نمازی ہوں وہاں پر ایک تعداد کو مختص کرنے کے بعد اگر وہاں دوسری مسجد کی ضرورت ہو تو تب مسجد بنانے کی اجازت دی جائے ورنہ اسی پچھلی مسجد پر ہی اکتفا کیا جائے تمام صاحب اختیار لوگوں سے گزارش ہے کہ اس معاملے پہ غور فرمائیں کیونکہ ہمارے ہاں ہر بات کو چھوٹی سی بات سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا اس پہ مذہب کا تڑکا لگا کر اسے لوگوں کو پروسنے کی کوشش کی جاتی ہے، اور یوں آج ہمارا پورا ملک جرائم کا اڈہ بن چکا ہے۔ خدا کے لیئے ان باتوں پر غور کیجیئے۔

Check Also

Aik Ustad Ki Mushkilat

By Khateeb Ahmad