Fehash Goi Aur Dawa Hub e Rasool
فحش گوئی اور دعویٰ حب رسول
پچھلے دنوں ہمارے سامنے نئے نئے کردار آئے اور اپنے نرالے کاموں سے لوگوں میں اپنی پہچان چھوڑ گئے۔ یہ صاحبان اس سے پہلے نہ کسی نے دیکھے نہ سنے۔ انہیں آپ موسمی بٹیرے بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کی حیثیت اس وقت اور زیادہ تکلیف دہ ہو جاتی ہے جب یہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر ہمیں ایک دوسرے کے لہو سے غسل دینے کا پروگرام لیکر کوئی کھیل رچانے کو میدان میں پہنچ جاتے ہیں۔ انسان کی زبان ہی اس کا پہلا تعارف اور اس کے خاندان کی پہچان ہوتی ہے۔
اس حساب سے ہمارے پاس کس کس خاندان اور کس کس کی تربیت کے نمونے اکٹھے ہو چکے ہیں۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ایک مثال تو یہاں دیکھ لیں کہ جو لوگ غلیظ اور فحش گو ہوتے ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنا تک جائز نہیں ہے۔ کیونکہ غلاظت بکنے والا پہلے گندگی اپنے دل دماغ میں پکاتا ہے پھر اسے اپنے نگاہوں اور زبان سے الٹتا ہے۔ اور ایسا آدمی جب نبی پاکؐ کے نام کی دہائی دیتا ہے تو صرف منافقت کرتا ہے اور منافق کے بارے میں قرآن پاک میں اللہ پاک کیا فرماتا ہے یہ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
سو پلیز ایسے لوگوں کی وکالت کسی بھی رتی بھر ایمان رکھنے والے کو بھی زیب نہیں دیتی۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہم اس زمانے میں سانس لے رہے ہیں جہاں گالی دینا یا فحش گوئی کرنا اتنا عام ہو چکا ہے کہ خود کو علماء کہنے والے بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔ کیا قرآن پاک میں ان باتوں سے سختی سے روکا نہیں گیا۔ حتیٰ کہ ایک دوسرے کو اچھے ناموں سے پکارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن ہمارے ملا صاحبان اور علمائے دین اس قسم کے احکامات کو یا آیات کو کبھی عام آدمی تک نہیں پہنچاتے۔
وہ ہمیشہ وہ آیات اور احادیث وہ آدھی ادھوری اس وقت ہی بیان کرتے ہیں جو ان کے مخصوص مواقعوں پر ان کے مفادات کو پورا کر سکیں۔ یا ان کے لئے کوئی محفوظ راستہ بناتی رہیں۔ اگر دھیان دیں تو آج ہر عالم یہ ہی کچھ کر رہا ہے۔ ہمیں آج تک کبھی کسی مسجد کے سپیکر سے بدکاروں اور زانیوں کے بارے میں احکامات الہٰی کیوں سنائی نہیں دیتے؟
ہمیں کیوں بیوی اور بچوں کے تحفظ کی آیات اور احادیث منبر سے سنائی نہیں دیتیں؟
ہمیں کیوں ذکوٰت وقت پر ادا کرنے اور مسافروں کو کھانا کھلانے یا ان کی مدد کرنے کی احادیت و آیات سنائی نہیں جاتیں؟
ہمیں کیوں یتیموں کا مال کھانے پر عذاب الٰہی کے احکامات نہیں سنائے جاتے؟
ہمیں کیوں ہمارے منبر سے یتیم و مسکین کی پرورش اور ان پر شفقت کے انعامات و خوش خبریاں نہیں سنائی جاتیں؟
ہمارے منبر اپنی آنکھوں کو نیچا رکھنے والی آیات و احادیث کیوں نہیں سناتے؟
ہمارے علماء کیوں ہمارے سپیکرز پر اپنی جوانیوں کو گناہوں میں لتھڑنے سے بچانے والے پر انعامات کیوں نہیں گنوائے؟
ہمارے منبر سے اپنی بزرگی کی حفاظت اور گناہ سے بچنے کی ترغیب کیوں نہیں دی جاتی؟
یہ سب کام کس کے ہیں؟ جنہیں کرنا چاہیئے وہ دھرنوں اور چرنوں میں بیٹھ کر غلاظت اگل اور نگل رہے ہوتے ہیں۔ تو ہم جیسے کم علموں کو یہ علم اٹھانا ہی پڑتا ہے۔
بالکل اس چڑیا کی طرح جو ابراہیمؑ کے لیئے بھڑکائی ہوئی آگ پر اپنی چونچ میں پانی کا قطرہ لا لا کر پھینکتی تھی۔ کسی نے ہنس کر پوچھا اری چڑیا تیری چونچ کی ان قطروں سے کیا آتش نمرود بجھ جائے گی؟ تو اس نے جواب دیا میں جانتی ہوں کہ میری چونچ کے ان قطروں سے یہ آگ نہیں بجھے گی لیکن میں قیامت کے روز اس آگ کے بجھانے والوں میں ضرور شمار کی جاؤنگی نہ کہ تماشا دیکھنے والوں میں۔