Bhool Jana Kitni Azeem Nemat Hai
بھول جانا کتنی عظیم نعمت ہے
انسان جیسے جیسے اپنی زندگی کے شب و روز گزارتا ہے اور اس کا واسطہ قدرت کے قائم کردہ نظام کے تحت مختلف حالات و واقعات سے پڑتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے اور یہ بات سمجھ آنا شروع ہو جاتی ہے کہ قدرت کا قائم کردہ نظام کتنا بہترین، باکمال اور لاجواب ہے۔
ہماری اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ حادثات و واقعات یا چیزوں کا بھول جانا خامی یا عیب ہے اسے حافظے کی کمزوری بھی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اگر نظامِ قدرت پر غور کیا جائے جیسا کہ ہمارا مذہب بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے تو آپ دھنگ رہ جائیں گے کہ چیزوں کا ہمیشہ یاد رہنا کتنا اذیت ناک ہے اور بھول جانا بھی کتنی عظیم نعمت ہے۔
15 ستمبر 2022 کی صبح نمازِ فجر کے لیے اٹھا تو تقریباََ پانچ بجے کے قریب بیگم نے کال پر بتایا کہ چھوٹی بیٹی کی طبیعت ناساز ہے۔ میں نے مقامی سطح پر موجود ڈاکٹرز سے میڈیسن لینے کا کہہ دیا۔ دوائی لی گئی بیوی نے اپنے طور پر ڈریپ لگانے کا بھی کہا مگر شاید ڈاکٹر نے مناسب نہیں سمجھا۔ ویسے بھی فرسٹ ایڈ جو ہمیں قصبے میں دستیاب ہے وہ مقامی سطح کے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ کس حد تک کی ہے۔
میں چونکہ لاہور تھا اس لیے مجھے بچی کی کنڈیشن کا اندازہ بھی صحیح نا ہو سکا۔ بیگم مقامی سطح پر اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق بھاگ دوڑ کرتی رہی مگر اس کے ذہن میں شہر جانے کا خیال تک نا آیا یقیناََ غریب آدمی کی سوچ بھی اتنی جلدی شہر کی طرف جانے کی نہیں بنتی۔ میں کام میں مصروف ہونے کے باوجود بار بار رابطہ کر کے بچی کی خیریت دریافت کرتا رہا مگر یہ اندازہ نا ہو سکا کہ حالت اتنی خراب ہو جائے گی کہ میری بیٹی ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہو جائے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موت کا وقت مقرر ہے جو آگے پیچھے نہیں ہو سکتا مگر ظاہری اسباب یقیناََ زیرِ بحث آتے ہیں۔ ظاہری صورتحال یہی تھی کہ میری بیٹی کو ہیضے کی شکایت تھی اگر بروقت ڈریپ لگ جاتی یا شہر ہسپتال میں پہنچ جاتی کسی کوالیفائیڈ ڈاکٹر سے تشخیص کے بعد ٹریٹمنٹ ہو جاتی تو بچی کی جان بچ سکتی تھی۔ شام کو جب بچی کو شکرگڑھ لے جانے کے لیے بیوی نے مجھ سے گاڑی کا بندوبست کروایا اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی بچی ہسپتال بھی شاید زندہ نہیں پہنچ سکی تھی۔
دودھوچک میں کوئی ایک بھی ایم بی بی ایس ڈاکٹر موجود نہیں سرکاری ہسپتال بی ایچ یو تو موجود ہے مگر عملہ اور دستیاب سہولیات صرف سر درد، پیٹ درد اور بخار تک ہی محدود ہیں۔ اسی طرح کوئی ایمبولینس سروس بھی دستیاب نہیں اور غریب آدمی اپنی غربت کے سبب اپنے پیاروں کی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ غم، تکلیف، دکھ جب آتے ہیں پہاڑ ہوتے ہیں پھر وقت کے ساتھ ان کی شدت اور سائز میں کمی آ جاتی ہے جو کہ اک حقیقت ہے۔
تقریباََ دو ہفتے سے زیادہ کا وقت گزر گیا مگر میرے ذہن پر ابھی بھی میری بیٹی سوار ہے۔ آنکھیں بند کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اس کا ہنستا مسکراتا چہرہ مجھے کھلی آنکھوں سے اپنے دائیں، بائیں، آگے، پیچھے یہاں تک کہ نماز میں بھی اسی کی مسکراہٹ نظر آتی ہے۔ اس کا بار بار نظر آنا بار بار آنسوؤں کو بھی ساتھ لے آتا ہے۔ ہفتے دو ہفتے بعد جب گھر پہنچتا تو دونوں بیٹیاں ضد کرتیں کہ پاپا ہمیں کندھوں پر اٹھائیں دونوں بیٹیوں کو ایک ساتھ اٹھاتا اک بیٹی اک بازو پر اور اک دوسرے بازو پر تاکہ دونوں ایک ساتھ مسکراتی نظر آئیں۔
جب پہلی بیٹی ہوئی تو ربّ سے دعا مانگی اللہ اک بیٹی اور عطا کر دے تاکہ جو بشارت حدیثِ رسول ﷺ میں موجود ہے اس کے حقدار بن جائیں۔ نابالغ بچوں کی وفات پر ہمارے مذہب نے جتنی بشارتیں اور فضیلتیں بیان کی ہیں سب پڑھنے کے باوجود جب بچی کی وفات کے کرب سے گزرنا پڑا تو اندازہ ہوا یہ اتنا بڑا انعام ایسے ہی نہیں ہے بلکہ اس انعام کے حصول کے لیے بہت شدت والی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔
جب کسی کے گھر تعزیت کے لیے جاتے تو دوسروں کو دلاسہ بھی دیتے اور فضائل بھی ذکر کرتے مگر جب خود پر گزری تو صبر کرنا بھی بس میں نہ رہا۔ تعزیت کے موقعہ پر جو سیاستدان فوٹو سیشن کرتے ہیں اس کی اذیت کا بھی اندازہ ہوا کہ یہ بھی کوئی اچھا کام نہیں بلکہ اہلِ خانہ پر گراں ہی گزرتا ہے۔ اب بچی کی وفات کے بعد دل میں یہ خواہش بھی طوفان مچائے بیٹھی ہے کہ دودھوچک کے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹرز کی موجودگی یقینی بنانے اور ایمبولینس کی سروس کے لیے کوشش کی جائے تاکہ کسی اور کو اذیت سے بچانا ممکن ہو سکے۔
میں نے شروع میں عرض کیا کہ بھول جانا بھی بہت بڑی نعمت ہے اگر ہمیں ہر وقت موت، قبر اس کی ہولناکیاں، محشر اور دوزخ کی سختیاں ہی یاد رہیں تو بھی معمولاتِ زندگی کا چلنا محال ہے۔ اسی طرح اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا پہاڑ جیسا غم بھی اگر ہر وقت یاد رہے ہم نا بھول سکیں تو بھی ہماری زندگی کی سانسوں کو بریک لگ جائے۔
جب بیٹی کو دفنا کر قبرستان سے گھر پہنچا تو موبائل جس کا ہم اک منٹ بھی "وسا نہیں کھاتے" وہیں قبرستان میں گر گیا اس وقت اندازہ ہوا جب شام کو بھائی نے مجھے موبائل پکڑایا کہ یہ رہا آپ کا موبائل اسی طرح میں گھر میں کوئی بات کر رہا تھا کہ ابو نے بازو پکڑا امی کی طرف لے جا کر سر پر سرسوں کے تیل سے مالش شروع کر دی باوجود اس کے کہ میں کہہ رہا تھا کہ میں ہوش و حواس میں ہوں۔
لیکن ان کے اس رویے سے مجھے بھی محسوس ہونا شروع ہو گیا کہ شاید مجھے واقعی کوئی مسئلہ ہو گیا ہے۔ خیر غم کا پہاڑ بھی ہو تب بھی وقت اس کی شدت میں یقیناََ کمی کرہی دیتا ہے اسی لیے کہتے ہیں کہ وقت کے پاس ہر زخم کا مرہم ہے۔ ہم تیز حافظے اور اچھی یاداشت کو ہی خوبی سمجھتے ہیں اور چیزوں کو بھول جانے کو کمزوری اور کمی سمجھتے ہیں لیکن اس تکلیف سے گزرنے کے بعد احساس اور اندازہ ہو رہا ہے کہ بھول جانا بھی کوئی چھوٹی نعمت نہیں ہے۔
ماضی میں جب کسی کا پیارا بچھڑ جاتا تو کچھ عرصے کے بعد شکلیں بھی بھولنا شروع ہو جاتی تھیں مگر آج کے دور میں تصویریں وڈیوز کی وجہ سے یہ بھی تقریباََ ناممکن ہو چکا ہے۔ اسلام کے تصویر حرام والے حکم کی اک حکمت اس سے بھی سمجھ آتی ہے۔ اب چہروں کا نابھول پانا جب بھی وہ چہرے تصویر اور وڈیوز کی صورت میں سامنے آتے ہیں پھر سے ان کی جدائی کی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے نا بھول پانا بھی اذیت کا سبب بنتا ہے اس کے بعد قدرت کے نظام پر حیرانگی سے دل پکار کر گواہی دیتا ہے کہ بھول جانا بھی خدا کی عظیم نعمت ہے۔