Sunday, 06 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Zeashan Butt
  4. Bhutto Zinda Hai?

Bhutto Zinda Hai?

بھٹو زندہ ہے؟

کسی نے کہا تھا، "بھٹو زندہ ہے! " اور کسی نے پلٹ کر جواب دیا، "جی ہاں، مگر تاریخ میں! " سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بھٹو زندہ ہے، یا یہ محض ایک نعرہ ہے جو سیاست میں گونجتا رہتا ہے؟ آج جب ہم ذوالفقار علی بھٹو کی پیدائش کے دن ان کے کردار اور تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں، تو طنز و مزاح کے تڑکے کے ساتھ حقیقت کے کچھ تلخ مگر دلچسپ پہلوؤں پر غور کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928 کو پیدا ہوئے اور ان کے سیاسی کیریئر میں ایک ایسا رنگ نظر آتا ہے جو ان کے مداحوں کے لیے انقلابی اور مخالفین کے لیے تضادات سے بھرا ہوا تھا۔ ان کے چاہنے والے انہیں ایک عوامی رہنما، ایک مدبر اور ایک سوشلسٹ انقلاب کے داعی کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ ان کے مخالفین انہیں ایک موقع پرست، اقتدار کے بھوکے اور مخالفین کے لیے سخت گیر حکمران کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

بھٹو کی سیاست کا آغاز ایوب خان کی کابینہ سے ہوا، جہاں وہ ایک نوجوان وزیر کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے ایوب خان کی پالیسیوں کا دفاع کیا، ان کے مارشل لا کو جائز قرار دیا اور 1965 کی جنگ میں وزیر خارجہ کے طور پر پاکستان کی نمائندگی کی۔ لیکن جیسے ہی سیاسی حالات بدلے، بھٹو نے ایوب خان کی مخالفت شروع کر دی اور جمہوریت کے نعرے کے ساتھ میدان میں کود پڑے۔ یہ وہی بھٹو تھے جو پہلے مارشل لا کی حمایت کرتے تھے اور بعد میں جمہوریت کے چیمپئن بن گئے۔

ان کے دور حکومت میں کچھ ایسے کارنامے ہیں جنہیں نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ پاکستان کو پہلا متفقہ آئین 1973 میں دیا، ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی اور ملک میں صنعتوں اور تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی۔ لیکن خامیوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے۔ 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات، سیاسی مخالفین کے خلاف سخت کارروائیاں اور اپنے ہی مقرر کردہ آرمی چیف سے بے خبری وہ عوامل تھے جو ان کے زوال کا باعث بنے۔

ان کے ناقدین کہتے ہیں کہ بھٹو صاحب کے اندر ایک "شاہی مزاج" تھا۔ وہ جمہوریت کی بات کرتے تھے، مگر اختلاف برداشت نہیں کرتے تھے۔ حبیب جالب جیسے شاعر بھی ان پر طنز کرتے رہے۔

وہی حالات ہیں فقیروں کے

دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے

جیسے اشعار بھٹو دور کے سیاسی پس منظر کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔

1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی ایک ایسا دھچکہ تھا جس سے بھٹو کی سیاست کو نئی جہت ملی۔ ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے مذاکرات میں تاخیر کرکے حالات کو مزید خراب کیا۔ جبکہ ان کے حمایتی کہتے ہیں کہ اصل ذمہ داری فوجی قیادت اور مغربی پاکستان کے دیگر حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک نئی راہ چنی اور مغربی پاکستان کو استحکام دینے کی کوشش کی۔

عالمی سطح پر بھٹو کی شخصیت ایک معمہ رہی ہے۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن انہیں ایک "چالاک سیاستدان" کہتے تھے، جبکہ چینی قیادت انہیں "تیز دماغ" کہہ کر سراہتی تھی۔ عرب دنیا میں ان کی پوزیشن ایک بہادر اور جدید مسلم رہنما کی تھی، مگر مغرب میں انہیں ایک "حد سے زیادہ خود اعتماد" سیاستدان سمجھا جاتا تھا، جو اپنی ہی چالاکی کا شکار ہوگیا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا آج کی پیپلز پارٹی وہی پارٹی ہے جو بھٹو کے زمانے میں تھی؟ اس کا جواب کسی لطیفے سے کم نہیں۔ بھٹو کے بعد بینظیر بھٹو نے اس پارٹی کو ایک نئی شکل دی، لیکن ان کے بعد پیپلز پارٹی ایک ایسے ادارے میں تبدیل ہوگئی جو زیادہ تر ذاتی اور خاندانی سیاست کے گرد گھومتا رہا۔ آج کے پیپلز پارٹی کے لیڈر کیا وہی جوش و جذبہ رکھتے ہیں؟ کیا وہی عوامی حمایت ان کے پیچھے ہے؟ شاید نہیں۔ آج کی پیپلز پارٹی کا طرز سیاست دیکھ کر کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ بھٹو کا نعرہ محض ایک برانڈنگ کا حربہ رہ گیا ہے۔

بھٹو خاندان کا انجام بھی کم المیہ خیز نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کے بچوں پر ایک ایک کرکے آزمائشیں آتی گئیں۔ مرتضیٰ بھٹو کو کراچی میں دن دہاڑے انہی کی بہن کے دور حکومت میں قتل کر دیا گیا، جو کہ آج تک ایک ملمع ہے اور ان کے قتل کا الزام بھی انہی کے خاندان پر لگا۔ شاہنواز بھٹو ایک پراسرار موت کا شکار ہو گئے اور خود بینظیر بھٹو جو کہ ذوالفقار کی سیاسی جانشین تھی، دو دفعہ کی وزیر اعظم کو راولپنڈی میں جلسہ کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کسی نہ کسی طرح اقتدار میں رہی آج بھی بے نظیر کو انصاف نہیں ملا آج پیپلز پارٹی کے موجودہ قیادت میں صرف بلاول بھٹو زرداری باقی ہیں، جو بھٹو کے نام پر سیاست کر رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا وہ بھٹو کے نظریات کے وارث بھی ہیں؟ بظاہر تو وہ اپنے نانا کی ابتدائی طرز سیاست پر چل کر اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں اور شاید بعد میں وہ بھی جمہوریت کے علمبردار بن جائیں

تو کیا بھٹو زندہ ہے؟ شاید ہاں، نعروں میں، تقریروں میں اور تاریخ کی کتابوں میں۔ مگر کیا وہ سیاسی طور پر زندہ ہے؟ اس سوال کا جواب شاید پاکستان کی سڑکوں پر موجود عام آدمی دے سکتا ہے، جو اب بھی روٹی، کپڑا اور مکان کے خواب کی تعبیر کا منتظر ہے۔

Check Also

Adat, Isteqamat Aur Musanif Ki Jilawatni

By Nasir Abbas Nayyar