Dua Zahra Case, Jagna Hoga
دعا زہرا کیس، جاگنا ہو گا
دعا زہرہ نامی ایک بیٹی کراچی سے اپنے گھر سے لا پتہ ہوئی۔ اس کے والدین کے بقول سخت پریشانی کے عالم میں روائیتی دہلیزوں سے خالصتاً روائیتی ردِعمل پانے کے بعد جب سوشل میڈیا کا دروازہ کھٹکھٹایا تو حسبِ معمول ریاست کے کان پر جوں رینگی جو کہ بزاتِ خود ایک المیہ ہے کہ دادرسی کے لیے آپ کو پہلے وائرل ہونا پڑتا ہے اور یہ سفاک نظام تب بھی آپ کے بنیادی حق کے حوالے سے نہیں اپنی بد نامی کے ڈرسے بروئے کار آتا ہے۔
دعا زہرہ کم و بیش ایک ہفتے کے بعد لاہور سے مل گئی اور شکر خدا کا اس بات پر کہ پچھلی ایک دہائی سے ویرانوں، جوہڑوں اور جھاڑیوں سے ملنے والی مسخ شدہ انسان نما حیوانوں کے بعد جنگلی جانوروں کی نوچی ہوئی لاشوں کو دیکھ دیکھ کر پوری قوم کے دل کو دعا کرتے ہوئے ایک دھڑکا ضرور لگا ہوا تھا کہ کہیں خدانخواستہ۔ دعا زہرہ نے لاہور سے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں اس نے اپنی مرضی سے گھر سے نکلنے اور پسند کی شادی کرنے کا اعتراف کیا۔
اور ساتھ ہی یہ کہا کہ والدین اس کی شادی اپنی مرضی سے کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے اس پر تشدد ہوتا تھا اور یہ کہ اس کی عمر 14 نہیں 18 سال ہے۔ اس ویڈیو پیغام کے جواب میں اس کے والدین کی پریس کانفرنس میں اپنی شادی اور دعا کی پیدائش اور عمر کے متعلق دیگر دستاویزات دکھانے کے بعد ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ دعا زہرا اپنے مبینہ شوہر اور اس کے اہلیان کے کہنے پر ہی انہیں قانونی چارہ جوئی سے بچانے کے لیے یہ بیانات دے رہی ہے۔
کوئی شک ہی نہیں کہ لڑکی اور لڑکے نے ایک ایسا قدم اٹھایا جس کی سماجی، اخلاقی اور شرعی کسی لحاظ سے بھی تحسین ممکن نہیں۔ اس افسوسناک کہانی سے جڑے ہوئے مختلف پہلو بحیثیت ایک قوم کے ہمیں ہر لحاظ سے جھنجھوڑ رہے ہیں۔ اس تشویشناک صورتحال میں سب سے بڑا پیغام ایک Alarming situation کی صورت میں ہم والدین کے لیے ہے۔
اور یاد رہے کہ ہم یہاں صرف بیٹیوں کے والدین کی توجہ مبزول کروا کر اور بیٹوں کے ماں باپ کو بری الزمہ کر کے ایک بار پھر وہی غلطی دہرائیں گے جو کہ مردوزن کی جغرافیائی تفاوت کی بنیاد پر بہت ساری برائیوں کو ایک ڈھال فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ اس معاملے کو لڑکے اور لڑکی کے والدین کو اب مل بیٹھ کر صلح جوئی سے حل کرنا چاہیے اور جاہلانہ رسم و رواج اور اور ریاکارانہ جعلی غیرت کی بجائے مکمل طور پر عقلی اور منطقی بنیادوں پر۔
میری مانیں تو اب کیونکہ جو ہونا تھا ہو چکا اس لیے دونوں گھرانے ایک دوسرے کو خوش دلی سے قبول کر لیں خدارا۔ مایہ ناز مذہبی و سماجی سکالر جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی سب سے موثر کن فکر طالبِ علم کو یہی لگتی ہے کہ وہ گھر کو سماج کا سب سے اہم ادارہ قرار دیتے ہیں اور والدین ہونا خدا کی اس تخلیقی اسکیم میں شریکِ کار ہونا۔
آپ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں آپ کو شادی کرنے کی جو وجوہات ہمارے ہاں دستیاب ہوں گی ان میں موجود تمام کی تمام وجوہات خدا کی اس اسکیم اور سماج کے اہم ترین ادارے کے قیام جیسی عظیم مقصدیت سے بہت ارزاں نظر آئیں گی۔ جب ہم زندگی کے اہم ترین عہدے پر فائض ہونے کے لیے اس کے مطلوبہ معیارات پر پورا اترنا تو کجا ان کے بارے میں سوچنا بھی ہماری ترجیحات میں سے نہیں تو نتیجہ اسی بے ہنگم معاشرے کی صورت میں نکلے گا جو ہمارے سامنے ہے۔
ہمارے ملک میں مختلف سانحات اور افسوسناک واقعات ہوتے ہیں اور تاریخ کے سینے میں دفن ہو جاتے ہیں۔ اگر ہمارے ہاں اصلاحِ احوال کا کوئی نظام کم ازکم ذاتی حیثیت میں ہی ہو تو ہم یہ دیکھیں کہ اس طرح کے واقعات سے اپنے گھر کے لیے کوئی سبق حاصل کریں اور اپنے گھروں میں ایک تربیتی ایمرجنسی قائم کریں۔ آئیے خود سے چند سوال پوچھتے ہیں اور ان کے جوابات کی روشنی اس تربیتی ایمر جنسی کی اپنے اپنے گھروں میں تشکیل کرتے ہیں۔
*کیا ہم نے اپنی شادی کو خدا کی انسانیت کی تخلیقی اسکیم میں شریکِ کار بنانے کے لیے گھر کے ایک ادارے کے قیام کا مقصد بنایا ہے؟
*کیا ہم اچھے والدین بننے کے لیے اپنے روزانہ کے وقت میں سے اس بابت مستند مطالعہ کرتے یا رہنما ویڈیوز دیکھتے ہیں؟
*جب ہم روزانہ سنتے، دیکھتے اور جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ ہمارے بچوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہونے والا اس عہد کا سب سے بڑا محرک بن چکا تو ہم نے اس کے لیے کیا تیاری کی؟
*جدید Gadgets جیسے موبائل، ٹیبلٹ، کمپیوٹر، لیب ٹاپ وغیرہ کا کم سے کم استعمال ممکن بنانا اور اس استعمال پر بھی نا صرف نظر رکھنا۔ بلکہ بچوں کی اخلاقی بنیادوں کو مضبوط بنانے کے لیے ایک ہمہ وقت مہم کی صورت تربیت کا اہتمام جس میں محبت، خلوص، احساس اور توجہ شامل ہو۔
*کیا ہم بچوں کی بدلتی عمروں کے ساتھ ان کو ان Age Transitions میں تربیت، معاونت، آگاہی اور شعور دینے کے لیے تیار ہیں؟
*کیا ہم اپنے بچوں کی عادات ان کی صحبت (آنلائن، آفلائن) سے پوری طرح واقف ہیں اور اس پر روزانہ کی بنیاد پر نہ صرف نظر رکھے ہوئے ہیں بلکہ والدین آپس میں اس پر روزانہ ہی کی بنیاد باہمی صلاح مشورے سے ایک مربوط تربیتی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں؟
*کیا ہم Action speaks louder than the words کے مصداق اپنے بچوں کے رول ماڈلز بننے کے لیے اپنے قول و فعل کو باہم متصل بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں؟
*ہم صبح آنکھ کھلنے سے رات آنکھ بند ہونے تک کتنا وقت اپنے سرمایہِ حیات یعنی اپنی اولاد کو دیتے ہیں جسے Quality Time کہا جاتا ہے، یہ نہ ہو دیہاڑی اور روزی کے چکر میں ہماری متاع ہمارا سرمایہ لٹ رہا ہو اور ہم بے خبر ہوں؟
*جبر کسی صورت بھی رغبت کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ ہم نے بنیاد ہی سے اپنے بچوں کو اچھائی سے محبت اور برائی سے نفرت نہ صرف سکھانی ہے بلکہ بارِ دگر عرض ہے کہ اس کی زیادہ موثر شکل اس کا عملی مظاہرہ کر کے بھی دکھانا ہے کیا ہم ایسا کرتے ہیں؟
*کہیں آپ نے اپنے بچوں کو آپ کے سامنے اپنی کیفیات، احساسات، مشکلات اور جزبات کے کھل کر اظہار کرنے کے درمیان کوئی مصنوعی تقدیس و حرمت کی دیوار تو نہیں کھڑی کر رکھی؟ اگر ہاں تو اسے گرا دیں ورنہ یہ خود کسی دن آپ پر آن گرے گی۔
*محبت، پیار، توجہ، احساس، نرمی، خلوص اور احساسِ ملکیت یہ وہ اقدار ہیں جنہیں گھر سے پانے والے بچے اس کی کمی کا شکار ہو کر حسرت سے دوسروں کی طرف دیکھتے ہوئے ان کے جھانسے میں غلط ہاتھوں میں نہیں کھیلتے کیا ہمارے بچے یہ تمام بنیادی ضروریات ہم سے پاتے ہیں؟
*سب سے اہم بات یہ کہ کیا یہ تربیت دینے کے ہم خود تربیت یافتہ ہیں۔ کیا ہماری پہلی درسگاہ یعنی ماں کی گود خود یہ احساس رکھتی ہے۔ کیا اولاد کو انگلی پکڑ کر چلانے والا باپ خود یہ ادراک رکھتا ہے کہ یہ چال دراصل ایک فرد کی نہیں قوم کی چال ہے یہ بہت ہی اہم موضوع ہے۔ کوشش ہوگی اس پر اپنی طالب علمانہ معروضات پیشِ خدمت کرتا رہوں۔ اس ضمن میں اگلی تحریر میں اپنی 11 سالہ بیٹی اور 15 سالہ بیٹے سے اسی متعلق کچھ اہم ترین اور ہوش ربا معلومات سامنے رکھوں گا جو ہمیں بحیثت قوم یہ باور کرانے کے کافی ہونگی کہ
اپنے بچوں کے پیچھے اب بھاگنا ہے
اس دھرتی کے ہر ماں باپ کو جاگنا ہے