Thursday, 17 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Bhabhi Maa

Bhabhi Maa

بھابھی ماں

آنکھ کھولی تو اپنے آس پاس کتابیں دیکھیں۔ خاموشی کے ایک دیوتا کا سر دو جگہ جھکتے دیکھا۔ کتاب یا مصلیٰ، اللہ اللہ خیر صلہ۔ انکا کوئی رسالہ یا کتاب کھولی تو اس میں ایک کہانی پڑھی۔ ایک بن ماں کا بچہ تھا۔ گاؤں میں بچوں کو جمع کرکے خود ساختہ سکول میں پڑھانے والی ایک لڑکی میں جو اپنی ماں کو دیکھتا تھا۔ آخر میں جو اسکی جان بچاتے مر جاتا ہے۔۔

عجیب سے ایک خوف نے گھیر لیا بچپن میں۔ دل میں ڈر بیٹھ گیا۔ ماں نہیں رہے گی۔ ماں کا برقعہ! او خدایا۔ لالہ موسیٰ آتی جاتی۔ وہ برقعہ دماغ کے کسی گوشے میں چپک گیا۔ جاتی ہوئی ماں کا برقعہ۔ عجیب نوسٹیلجیا تھا۔ حتی کہ میڑک تک کہیں رات نہ رکا جاتا۔ ایک رات یاد ہے ساغر صاحب (میرے چچا مرحوم) کے گھر رات رکا۔ وہی برقعہ، لالہ موسیٰ سے خواب نگر ملکوال کو جاتی آخری گاڑی، گہری سیاہ سرد رات اور وہم ماں چلی جائے گی۔ ساغر صاحب اور چچی نے آدھی رات بڑی مشکل سے اس وعدے پر مجھے سلایا کہ صبح پہلی گاڑی پر ملکوال جائیں گے اور پھر وہی ہوا شدید سرد سویرا اور لالہ موسیٰ کا اسٹیشن اور سٹیم انجن والی پہلی گاڑی۔ کچھ بھولے تو آگے بڑھوں۔ ساغر صاحب کا اس رات کا بھرت نہیں بھر سکتا۔

کسی مضمون میں ملتان کالج داخلے سے واپسی کی روداد لکھی تھی۔ وہی برقعہ تھا۔ وہی وہم۔ وہی یاد۔ زندگی نے بڑا خراج وصول کیا اس یاد کا۔ مگر پھر کبھی۔ پھر کبھی۔ شاید کبھی نہیں۔۔

اور پھر عجیب موڑ آیا۔ زندگی میں گاؤں کے وہ خود ساختہ سکول کی استانی ماں بن کر آ گئی۔ پتا چلا بھائی جان کی منگیتر ہیں۔ چھوٹے ماموں کی چھوٹی بیٹی۔

اس خوف اور وہم کو سر چھپانے کے لیے ایک ممتا بھرا سایہ مل گیا۔ افسانے والا بچہ سکول داخل ہوگیا۔ عقیدت کی تدریس شروع ہوگئی۔ میں انہیں میڈم کہتا تھا۔ بھائی جان سے اب ایک الگ سی انسیت محسوس ہونے لگی۔

ڈپلومہ مکمل کرکے میں گھر واپس گھر آیا تو بڑے ماموں کے اکلوتے بیٹے کے بہیمانہ قتل پر انہیں لالہ موسیٰ چھوڑنا پڑا۔ اس قتل کی روداد لکھوں گا ضرور۔ کیا خوبرو آدمی تھا محبت پہ وارا گیا۔ خدا کا بتایا ہوا نکاح کرکے بھی خدا کی دی ہوئی زندگی کھو گیا۔ غیرت کے نام پر یہاں ہر بے غیرتی ہوتی ہے۔

اس سانحے کے بعد وہ گھر جس میں آبادکاری کی ایک تاریخ تھی ویران ہوگیا۔ اجڑ گیا۔ ریلوے کوارٹر کے ریٹائرڈ مالک کا دل کوارٹر نے بھانپ لیا۔ وسیع ہوگیا۔ وہ لوگ یہاں آن بسے۔ ان دنوں ہم مولانگر شمالی والا گھر تعمیر کر رہے تھے۔

ان کی خدمت گزاری کا روائیتی استحصال مجھے چبھنے لگا تو زندگی میں پہلی بار آنکھیں نم کیے رنجیدہ لہجے میں کہا اس بارے آئیندہ بات مت کرنا۔ ہر داستان کے اندر ایک الگ داستان ہوتی ہے۔ کنارے پر کھڑے دریا کی گہرائی کا اندازہ اکثر غلط ہوتا ہے۔ عرض کیا بہتر۔

ہارون بھائی جان سے گہرا آدمی نہیں دیکھا۔ سمندر بھی مدرجزر کے عالم میں موجیں اور لہریں ساحل سے ٹکرانے لگتا ہے مگر یہ آدمی عجیب بحرِ سکوت ہے۔ ہونٹوں کے درمیان بنتی ایک قوس اسکا اظہاریہ ہے اور بس۔ کمال۔۔ عین درد کی انتہا پر کرب کو اس قوس سے شکست دینے کی عجیب صلاحیت ہے صاحب بہادر میں۔ انکی زندگی پر ایک کتاب لکھنی چاہیے۔ سب کتابیں کبھی یکجا کر دوں گا۔ ذرا کہیں چھاؤں میں بیٹھوں تو۔

انکی محبت زمانے سے ایسے جدا تھی شبِ ظلمت میں جیسے دور اندھیرے میں دیے کی لو اپنے ہونے کا ایک بے ضرر سا احساس ہوا کی سانسوں کے نام کرتی ہے۔ جیسے دھیمی دھیمی سی خوشبو دکھائی نہیں دیتی محسوس ہوتی ہے۔ جیسے شبنمی گھاس میں جگنو اپنے وجود کے اثبات کی خوشی میں ٹمٹما کر ستاروں سے کہتا ہو۔ میں بھی ہوں اور بس۔۔

اس محبت کے تقدس پر اور کیا لکھوں کیا کہوں کہ اسے تب آسمان پر پزیرائی ملی جب زمین سے اپنے تئیں حرفِ غلط کی طرح مٹا دی گئی تھی۔ احد کا پہاڑ کیا ہوگا جو بعد کا پہاڑ ہوا کرتا ہے۔ زمینی ریگستانوں کی وسعتیں صحرائے ہجر کے ایک ٹیلے کے آگے مات ہیں۔ روح پر کسی کا نام لکھ کر مٹانا زمانے کے لیے آسان ہوگا دل مگر سلیٹ نہیں لوحِ محفوظ ہوا کرتے ہیں۔ سلام ان دو دلوں کی محبت کے اخلاص پر۔۔ مل گئے۔۔

میڈم، بھابھی جان بن کر ہمارے گھر آ گئیں۔ کیسے آئیں تفصیل پھر کبھی۔۔ نشیب و فراز کی داستان الگ سے۔۔

جو ذکر آئے فرشتوں کی پارسائی کا
تو زیرِ بحث مقامِ بشر بھی آتا ہے

افسانے والا بچہ کہیں پھولے نہیں سماتا تھا۔ ہمارے زیرِ استعمال کمرہ مکان بنتے سمعے دیوتا نے ان کے نام کیا تھا۔ اسے خالی کرنا ضروری تھا۔ ہوا۔ میری بیگم سے انکی دوستی ہوگئی۔ کیسے نہ ہوتی۔ دونوں طرف اخلاص تھا۔ محبت کے لیے اور کیا چاہیے۔

پھر انہیں افسانے والا بچہ اپنا مل گیا۔ جب تک وہ نہیں آیا تھا۔ فیضان اور فاطمہ کو اس ممتا میں سے حصہ دیتی رہیں جس میں افسانے والے اس بچے کو ملا تھا۔ جسے وہم تھا کہ ماں چلی جائے گی۔ ثوبان رشید آ گیا۔ جنگجو ثوبی۔ زندگی جس سے جینا سیکھتی ہے۔ جملے کا حسن نہیں نہ زیبِ داستان جانیے۔ میں نے زندگی کو اس سے سیکھتے دیکھا۔

ابھی وہ انکی گود سے اترا ہی تھا کہ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک برقعہ تھا۔ ایک گہری سرد رات، ایک طویل خاموشی۔

ماں تھی اپنے بچے کے لیے لڑی۔ مگر کائنات میں طاقت صرف ایک ہے جچتی بھی اسی کو ہے۔ دروازے پر دستک ہوئی، پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ دروازے کی طرف بڑھیں پوچھا کون؟ جواب آیا قضا۔۔ بیٹا بھی بلا رہا تھا، افسانے والا وہ بچہ بھی اور وہ محبت بھی جو زمین سے ٹوٹ کر آسمان سے ملی مگر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔۔

کیسے بتاؤں کہ زندگی کی گلیوں میں جسے ہوا میں اڑتے دیکھا ہو اسکا کالے بالوں کے ساتھ دیوار کا سہارا لے کر چلنا زندگی سے اعتبار اٹھا دیتا ہے۔ خدا کہتا ہے کس نے کہا اعتبار کرو۔ اسے کیسے بتائیں کہ اعتبار کے سوا تھا ہی کیا، ہے ہی کیا۔

خواب نگر ملکوال کے مکان میں ایک مدت تک جایا نہیں جاتا تھا۔ وہ برقعہ انکی چادر میں ڈھل چکا تھا، وہ جاتی ہوئی آخری ریل اب انکی ایمبولینس تھی۔ وہ گاؤں کا بچہ مجھ سے نکل کے ثوبی میں سما چکا تھا۔ ہمزاد ہے ثوبی میرا۔ بھابھی جان کو کیسے بتاتا کہ وہ وہم میرا تھا اس بچے کا نہیں۔ انہیں کیسے بتاتا کہ میڈم افسانے میں بن ماں کا بچہ آخر میں اپنی جان دے کر استانی صاحبہ کو بچا لیتا ہے۔ مگر افسانے اور حقیقت کے درمیان فرق کا دوسرا نام زندگی ہوتا ہے۔ بھابھی جان میڈم میری روحانی ماں چلی گئیں۔۔

وہ زندگی میں افسانے والے بچے کے وہم کے زخم پر ممتا کا پھاہا رکھتی پہلی ملاقات اور وہ آر آئی سی میں ان سے آخری ملاقات۔۔ وہ کانوں میں گونجتی انکی مشفق آواز اور وہ آخری مشکل سے ادا ہوتے اور سمجھ میں آتے الفاظ۔۔ خدایا۔۔ تیری قسم۔۔ ناشکری کی ہمت نہ تھی۔۔ شکر کا مگر مقام نہ تھا۔ عجیب دوراہے کی مسافت ہے حیات، چلتا انسان ایک پر ہے نگاہ دوسرے پر ہوتی ہے۔ نہ وہ سارا دکھائی دیتا ہے نہ یہ سارا طے ہوتا ہے۔ سفر نامے کا عنوان احساسِ زیاں۔

افسانے کا وہ بچہ پھر اس افسانے سے نکل کر حقیقت بن کر ساتھ والی چارپائی پر آگیا۔ ازل کے خانہ بدوش پردیسی کو جانا پڑا واپس پردیس۔ بڑی کوشش انہوں نے کی کہ اس بچے سے ماں تو چھن گئی باپ نہ چھنے مگر یہ نہ ہو سکا۔۔ سوتیلا لفظ رشتوں کی لغت میں ایسے ہی ہوتا ہے جیسے خود یہ رشتے حقیقت میں۔

دن بھر سکولنگ اور کھیل کود اور ہلے گلے میں محو رہنے کے بعد آخرکار بستر پر میرے ساتھ لیٹتا تو یہ مزدور دن بھر کی تکان کا بوجھ پلکوں پر نہ اٹھا سکتا اسے تھپتھپاتے سو جاتا۔ مگر اسکے بچپن کی نیندیں ایک تابوت کا آخری کیل تھیں۔ میرے من میں جو وہم تھا اس نے اسکا تابوت ان ننھے کاندھوں پر اٹھایا تھا۔ آواز آتی ڈیڈا! بمشکل میں آنکھیں کھولتا تو دیکھتا سامنے افسانے والا بچہ ہوتا اسکی ننھی آنکھوں میں تیرتے موتی سرہانے پر گر رہے ہوتے، آہستہ سا کہتا۔۔ بابا یاد آ رہے ہیں۔

میری نیند اڑ جاتی۔ میں اسے کیسے بتاتا کہ تو میرے اندر بچپن سے پلتا ہوا وہ افسانوی کردار ہے جس نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ میں اسے سینے سے لگا لیتا تو یوں لگتا خود کو بھینچ لیا۔ میں اسے کہنا چاہتا تھا کہ میرے بچے، چیخ چیخ کر کہہ کہ تجھے تیری ماں یاد آ رہی ہے۔ تو اس کے سینے لگا جس نے زندگی اس وہم میں تج دی کہ ماں چلی جائے گی میرے بچے تو، تو اس وہم کا عملی کردار ہے۔ آ یہ آنسو میرے سینے پر بہا۔ افسانے کا یہ بچہ تیری حقیقی اور اپنی روحانی ماں کو نہ بچا سکا اور وہ سو جاتا۔ میں اسے خود سے دھیرے سے الگ کرتا اسکے اوپر کمبل دیتا اور خود ماضی کے تمام دھندلکوں میں نیند کو ڈھونڈنے لگتا۔ نیند ڈھونڈ کر سونے کی عمر کچھ پہلے آ گئی تھی۔

زندگی کو سمجھ نہ آتا تھا آگے چلے کہ پیچھے۔ مگر ثوبی نے اسکی انگلی پکڑی اور آگے چلنے لگا۔ ایک رات جب کوئی پناہ گاہ نہ تھی تو مجھ خواب پرور کو ایک خیال سوجھا۔ ان دنوں عمران خان سے عشق ہوا کرتا تھا۔ اسکے آنسو خشک کرکے کہا۔ جگری ایک آئیڈیا آیا ہے۔ آپ پڑھائی میں خوب محنت کریں پھر آپ بھی بڑے ہو کر اپنی ماما کے نام کا ایک ادارہ بنانا۔ اس میں ان بچوں کو رکھنا جنکے ماں باپ نہیں ہوتے۔ اف ف ف۔۔ کوئی روشنی تھی اس رات اس بچے کی آنکھوں میں۔ جیسے کوئی کہکشاں راستہ بھول کر زمین پہ اتری اور آسمان کی تلاش میں اسکی آنکھوں میں اتر گئی۔ جیسے گہری سیاہ رات کے بعد شفق سے اٹھلاتی کرنیں جھانکیں تو شب راہِ عدم کو فرار ہو جائے۔ جیسے چودھویں کا چاند بادلوں کا نقاب اتار پھینکتا ہے جیسے شادی کے چار برس بعد ثوبی کو دیکھ کر اسکی ماں کی آنکھیں چمکی تھیں۔ مگر کچھ دیر۔۔ آہ۔۔ مگر کچھ دیر۔۔

بس پھر پناہ گاہ مل گئی تھی۔ آنسو ایک عزم کی نمود ہوئے، یاسیت نے آس کی ردا اوڑھ لی، گزرے ہوئے کل کے زخم پر آنے والا کل پھاہا بن گیا۔ دکھ کہاں جاتا، بس بحرِ بیکراں سے سیلِ رواں ہوا۔ زندگی دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگی۔

اب وہ ہر روز نئی بات کرتا۔ ایک دن کہنے لگا ادارے کا نام صرف ماما کے نام پر نہیں ہوگا بلکہ بابا ماما دونوں کے نام پر ہوگا اور ویسے بھی ماما کا پورا نام تو میمونہ ہارون ہی تھا نہ بابا سے شادی کے بعد۔۔ میں کہتا ہاں جی۔۔

کہنے لگا۔۔ اس ادارے میں سکول بھی ہوگا۔ بچوں کا ہسپتال بھی ہوگا۔ پارک بھی۔ ساری گیمز بھی ہوں گی۔ ہر بچے کو ایک الگ موبائل ملے گا جس پر وہ گیمز کھیل سکے گا اور ہر بچے کا کھانا بالکل فٹ ہوگا۔ ہم اس میں صرف وہ بچے لیں گے جو سڑکوں پر کام کرتے ہیں۔ میں کہتا واہ۔۔ بالکل ٹھیک۔۔ ذرا زیادہ جزباتی ہونے لگتا تو میں کہتا ثوبی جب آپ بڑے آدمی بن جائیں گے اور عمران خان صاحب کے شوکت خانم ہسپتال کی طرح آپ کے اس ادارے کی بھی دنیا میں مقبولیت ہوگی اور آپکا انٹرویو آئے گا تو اس میں مجھے بھول تو نہیں جائیں گے آپ؟ یہ نہ ہو سارا کریڈیٹ خود ہی لے جائیں۔ بھائی انہیں بتائیں ضرور کہ یہ تیرے بھائی کا آئیڈیا تھا نہیں تو میں اس انٹرویو کے دوران ہی اندر آ کر کہوں گا۔۔ اے چوٹھ اے۔۔ تو وہ کھلکھلانے لگتا۔۔

تو مسکرائے تو صبحیں تجھے سلام کریں
تو رو پڑے تو زمانے کی آنکھ بھر آئے

ایک دن کہنے لگا کیا میری ماما کو اللہ میاں کے پاس یہ سب کچھ پتا ہوگا۔ اس کی آنکھوں میں جھانکتا افسانے والا یہ بچہ کہنے لگا ہاں۔ بالکل وہ جنت سے آپکو دیکھ رہی ہونگی اور جنت میں موجود اپنے سارے ساتھیوں کو فخر سے بتائیں گی کہ وہ دیکھو یہ میرا بیٹا ہے۔ ایسے میں، میں سوچتا کہ جنت والے لوگ اشارہ کس کی طرف سمجھیں گے، حقیقت والے بیٹے کی طرف یا افسانے والے بچے کی طرف۔۔ جسکو بھی سمجھیں بس ہم دونوں کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنی برسی جنت میں منا رہی ہوں اور ایک دن انکی برسی زمین پر بچوں کی اس جنت میں منائی جا رہی ہو۔ وہ افسانے والے بچے جو حقیقی کردار بن جاتے ہیں جنکی مائیں چلی جاتی ہیں۔۔ کاش کسی کی ماں نہ جائے۔۔

Check Also

Khawaja Fareed Ke Rang Aur Jam Jamil Ka Business Model

By Muhammad Saqib