Parindon Aur Janwaron Se Baaten Karna
پرندوں اور جانوروں سے باتیں کرنا
میں بینک الفلاح کی ایک برانچ میں مغرب کے بعد داخل ہوا، بینکنگ کو دنیا کے مشکل کاموں میں گردانا جاتا ہے ایک ریسرچ میں نے پڑھی جس میں یہ بتایا گیا کہ دنیا میں سب سے کم ایوریج عمر بینکرز کی ہوتی ہے اس لیے جب ہم بینک میں جاتے ہیں تو وہاں پر موجود سٹاف ہمیں دباؤ کی کیفیت میں نظر آتا ہے۔
مسکراتے ہوئے چہرے بینک میں کم کم نظر آتے ہیں۔
خود میں بھی یو بی ایل کے ٹریژری ڈیپارٹمنٹ میں تین سال گزار چکا ہوں راتوں کو دیر سے فارغ ہونا، سٹرائیک کے دنوں میں کام کرنا، فیملی لائف کا کمپرومائز ہونا اور گویا ہر وقت پریشر میں رہنا یہ بینک کے دنوں میں میرا لائف سٹائل تھا۔
لیکن یہاں بینک الفلاح کے سٹاف کے چہرے پر انرجی دیکھی چونکہ مائنڈ سائنسز میرا شعبہ ہے اس لیے لاشعوری طور پر لوگوں کا AURA نظر آجاتا ہے۔ یہاں پر موجود سٹاف پچھلے دس گھنٹوں سے کام کرنے کے باوجود ہائی مورال میں تھا میں یہاں بینک کی وائس پریزیڈنٹ مس سلطانہ تبسم سے ملاقات کے لیے آیا تھا ہم AURA کی بات کر رہے تھے تو ان کے AURA میں سرخ اور یلو کلر نمایاں طور پر نظر آیا۔
سرخ رنگ ان کے کام کرنے کے جذبے اور پیلا رنگ ان کی ہائی سیلف اسٹیم کو ظاہر کرتا ہے اور یہی انرجی ان کی پوری ٹیم کے اندر نظر آرہی تھی۔ مس سلطانہ تبسم ایک سنگل مدر ہیں ایک حادثے میں خاوند کے انتقال کے بعد اپنے بیٹے کے ساتھ ایک شاندار زندگی گزار رہی ہیں۔
زبان پر شکر گزاری اور بھرپور انرجی۔ ان کے والد صاحب عراق میں صدام حسین کے پیلس میں کام کرتے تھے۔ ان کی سکولنگ بھی عراق ہی میں ہوئی۔
گارڈننگ کی عادت وہیں سے پڑی کہتی ہیں ثاقب بھائی میں نے انسانیت کا درد اپنے والدین سے سیکھا۔ ان کے آفس میں موجود سویپر بھی انہیں آپی کہہ کر بلاتے ہیں۔ انسانیت کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔
شیخ سعدی اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہتے ہیں۔
میں دریائی سفر میں تھا اور ہماری کشتی کے ساتھ دوسری کشتی مسافروں سے بھری ہوئی تھی۔ اتفاق سے وہ کشتی پانی کے بھنور میں پھنس گئی۔ مسافر ڈوبنے لگے۔ کشتی میں سوار ایک بزرگ نے کشتی کے ملاح سے کہا کہ ان دو ڈوبتے اشخاص کو پکڑ کر لے آؤ تو میں تمہیں ہر ایک کے عوض پچاس پچاس دینار دوں گا۔ ملاح نے فوراً پانی میں چھلانگ لگا دی۔ چنانچہ ان میں سے ایک کو پکڑ کر نکال لایا جب کہ دوسرا ڈوب گیا۔ میں نے اس حادثہ پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ شاید اس کی عمر ہی اتنی تھی اس وجہ سے اس کے پکڑنے میں دیر ہوگئی۔ جب کہ ایک کو پکڑ لیا گیا اور اس کی جان بچ گئی۔ ملاح میری بات سن کر کہنے لگا کہ آپ نے جو کچھ کہا ہے وہ بھی سچ ہے۔ مگر اس کا ایک اور بھی سبب ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیا ہے۔ اس پر اس نے کہا کہ میری رغبت اس بچ کر نکلنے والے کی طرف تھی۔ اس لیے کہ ایک دفعہ میں جنگل میں گیا۔ چلتے چلتے تھک گیا۔ تو اس سے کہا کہ مجھے اپنے اونٹ پر بٹھائے۔ اس نے مجھے مروت سے اونٹ پر سوار کرا لیا اور مرنے والے کے ہاتھ سے مجھےگلی میں کھیلتے ہوئے کوڑے سے پٹائی ہوئی تھی۔ جسے میں نے نہ بھلایا تھا۔
یہ سن کر میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے، جو کوئی نیک کام کرتا ہے وہ اپنے لیے کرتا ہے اور جو کوئی برائی کرتا ہے وہ اپنے لیے کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب تک تجھ سے ممکن ہو کسی کا دل نہ دکھی کر، اس لیے کہ اس دنیا کے اندر سفر میں بہت کانٹے ہیں۔ اے بندے تجھے چاہیے کہ فقیر حاجت مند کا کام نکال دے اس لیے کہ اس دنیا میں تیرے بھی بہت سے کام ہیں۔
شیخ سعدی کا بتایا وہ فلسفہ سلطانہ تبسم نے کالج کے دنوں میں ہی سیکھ لیا تھا والد صاحب کو فالج کا اٹیک ہوگیا تھا فیملی فنانشل کرائسز میں تھی یہ کراچی کے ایک مقامی کالج میں پڑھتی تھیں اور کالج ٹائم کے بعد ایک بیوٹی پارلر پر پارٹ ٹائم کام کرتی تھیں۔ دلچسپ بات بتائی کہ گریجویشن کے دنوں میں بریل کا سبجیکٹ بھی انہوں نے پڑھا جو گویا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ قدرت ان سے کوئی بڑا کام لینے کے لیے تیاری کروا رہی ہے۔
گریجویشن کے بعد حبیب بینک میں سلیکشن ہوتی ہے دن رات محنت کرتی ہیں اور کچھ ہی مہینوں میں اپنے شعبے کے کاموں میں مہارت حاصل کر لیتی ہیں۔
بقول شاعر
گر تو می خواهی کہ باشی خوش نویس
می نویس و می نویس و می نویس
اگر تم چاہتے ہو کہ خوش خط اور خوش نویس بن جاؤ تو لکھے جاؤ، لکھے جاؤ، لکھے جاؤ۔
مس سلطانہ تبسم نے یہ بتا کر خوشگوار سرپرائز دیا کہ انہوں نے رضاکارانہ طور پر کراچی کے مختلف علاقوں میں ستر ہزار درخت لگائے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر درخت گل مہر، پیپل اور نیم کے ہیں میں نے پوچھا کہ آپ تو چھوٹے پودے لگا کر آ جاتی ہوں گی پھر ان کی نگہداشت کون کرتا ہے؟
جواب دیا کہ مقامی لوگوں کو ان پودوں کی اونرشپ دی جاتی ہے کہ یہ پودا آپ کی ماں کے نام پر ہے آپ نے اس کی دیکھ بھال کرنی ہے تو اس کا ثواب ان تک پہنچے گا۔
سادہ لیکن پراثر اور قابل عمل طریقہ۔ ہم سوچیں جب ایک خاتون چھوٹی سی ٹیم کے ساتھ مل کر ستر ہزار درخت لگا سکتی ہے تو ہم بحیثیت قوم کتنے بڑے کام کر سکتے ہیں۔
اپنے بیس سال پہلے لگائے ہوئے کھجور اور دوسرے پھلدار درختوں کے بارے میں بتایا کہ اب ان درختوں کا پھل ہم کھاتے ہیں تو ایک روحانی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔
جب راستے میں کوئی بھی سایہ نہ پائے گا
یہ آخری درخت بہت یاد آئے گا
گھر پر طوطے بھی رکھے ہوئے ہیں یہ طوطے انہیں ممی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں میں نے پوچھا کہ کیا پرندوں اور درختوں سے باتیں کر لیتی ہیں چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
پرندوں اور درختوں کے جذبات سمجھنے کے حوالے سے مختلف واقعات بتائے۔
آپ کی والدہ ہاؤس وائف ہیں سادگی اور درویشی کا امتزاج۔
مہمان نوازی اور فیملی بانڈنگ اپنی والدہ سے سیکھی نیچر اور درختوں سے محبت کا یہ عالم ہے کہ جب بیمار ہو جائیں یا پریشان ہوں تو ان کی سہیلیاں انہیں کسی نرسری میں لے جاتی ہیں اور وہاں جا کر ان کا سٹریس غائب ہو جاتا ہے۔
اورنگی ٹاؤن میں ایک وکیشنل ٹریننگ سینٹر کے ساتھ منسلک ہیں۔ جس میں غریب خواتین کو سلائی کڑھائی، ہینڈی کرافٹ اور دیگر سکلز سکھائی جاتی ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے کام سیکھنے والی خواتین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
میں نے پوچھا وہ خواتین جو پروفیشنل لائف میں آچکی ہیں یا جاب کرنا چاہتی ہیں ان کے لیے آپ کا کیا مشورہ ہے۔
مضبوط آواز کے ساتھ کہا کہ نئی آنے والی لڑکیوں کو چاہیے کہ بہری ہو جائیں ملازمت کے شروع میں ہر کوئی انہیں پریشان کرے گا اگر لوگوں کی باتوں پر دھیان دینا شروع کیا تو زندگی وہیں پھنس جائے گی دو مینڈکوں کے گڑھے میں گر جانے کی کہانی سنائی جو کچھ اس طرح ہے۔
کسی جنگل میں مینڈکوں کا ایک گروہ رہتا تھا جو ہر روز خوشی خوشی تالاب کے کنارے اچھل کود میں مصروف رہتا۔ ایک دن دو مینڈک اپنی مستیوں میں جنگل کی نئی جگہیں دریافت کرنے نکلے۔ وہ خوشی سے اچھلتے کودتے جا رہے تھے کہ اچانک وہ دونوں ایک گہرے گڑھے میں جا گرے۔
یہ گڑھا بہت پرانا اور گہرا تھا جس کی دیواریں کائی سے ڈھکی ہوئی تھیں، جس کی وجہ سے وہ بہت چکنی تھیں۔ دونوں مینڈک نیچے جا گرے اور گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگے۔ انہوں نے اوپر کی طرف دیکھا تو اندازہ ہوا کہ گڑھے سے باہر نکلنا آسان نہیں ہوگا۔
دوسری طرف، ان کے ساتھی مینڈکوں نے ان کی آوازیں سنیں اور دوڑتے ہوئے گڑھے کے کنارے پہنچ گئے۔ وہ سب اوپر سے نیچے جھانکنے لگے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کے دو ساتھی اتنے گہرے گڑھے میں پھنس چکے ہیں۔ گڑھے کے اوپر موجود مینڈک زور زور سے چلانے لگے
"یہ گڑھا بہت گہرا ہے"۔۔
"تم دونوں یہاں سے نہیں نکل سکتے"۔۔
"کوشش کرنا بےکار ہے، تم بچ نہیں سکتے"۔۔
نیچے گڑھے میں پھنسے دونوں مینڈکوں نے اپنے ساتھیوں کی باتیں سنیں۔ وہ جانتے تھے کہ اوپر موجود مینڈک ان کی مدد نہیں کر سکتے، اس لیے انہوں نے خود ہی باہر نکلنے کی کوشش شروع کر دی۔ دونوں مینڈک بار بار اچھلنے لگے، لیکن گڑھے کی دیوار چکنی ہونے کے باعث وہ اوپر نہ پہنچ سکے اور نیچے گر جاتے۔
اوپر موجود مینڈک مسلسل چیخ رہے تھے "چھوڑ دو! تم لوگ نہیں بچ سکتے۔ تمہاری کوششیں بیکار ہیں"۔
ان میں سے ایک مینڈک نے جب یہ باتیں سنی تو اس کا حوصلہ ٹوٹ گیا۔ وہ مایوس ہوگیا اور اس نے کوشش کرنا چھوڑ دی۔ کچھ ہی دیر میں وہ ہار مان کر گڑھے کے فرش پر ساکت ہوگیا۔ لیکن دوسرا مینڈک اپنی پوری طاقت سے اچھلتا رہا۔ وہ بار بار دیوار تک پہنچنے کی کوشش کرتا اور نیچے گرنے کے باوجود ہار نہیں مانتا۔ اوپر موجود مینڈکوں نے اسے روکتے ہوئے کہا "تم کیوں اپنی جان ضائع کر رہے ہو؟ رک جاؤ"۔۔
لیکن وہ مینڈک اپنی کوشش میں لگا رہا۔ آخرکار، کئی بار کوشش کرنے کے بعد وہ ایک بڑی چھلانگ لگانے میں کامیاب ہوا اور گڑھے سے باہر نکل آیا۔ اوپر موجود مینڈک حیران رہ گئے۔
انہوں نے اس مینڈک سے پوچھا "تم نے ہماری بات کیوں نہیں سنی؟ ہم تو کہہ رہے تھے کہ کوشش کرنا بیکار ہے"۔
تب اس مینڈک نے مسکراتے ہوئے جواب دیا میں بہرہ ہوں، میں تمہاری باتیں سن نہیں سکا۔ مجھے لگا تم مجھے حوصلہ دے رہے ہو کہ میں مسلسل کوشش کرتا رہوں۔
دوسرا پرنسپل بتایا کہ آپ نے ٹچی نہیں ہونا ہے کہ کسی نے سخت بات کی ہے تو میں اس سے بدلہ لوں۔
میں نے اپنے پچھلے کالمز میں لکھا ہے کہ پاکستان کے بڑے کاروباری لوگوں میں معاف کرنے کی حیران کن خوبی دیکھی جو شخص لڑتا رہے گا وہ آگے کیسے بڑھے گا۔
اس کے بعد اپنا وائی نکالیں کہ جاب کیوں کرنا چاہ رہی ہیں جب تک وائی کلیئر نہیں ہوگا کام کرنے میں مزہ نہیں آئے گا۔
چوتھے نمبر پر شکر گزاری کی پریکٹس ہے ہر وقت روتے رہنے سے آپ مایوسی کے ایک چکر میں پھنس جاتے ہیں جو شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
پانچویں نمبر پر مستقل مزاجی ہے خود اپنی مثال سے سمجھایا بینکنگ کا سفر ٹیلی مارکیٹنگ کی جاب سے شروع کیا اس کے بعد بھی بیسک لیول کی ذمہ داریاں ادا کرتی رہیں اور آج اپنے شبعے میں تیرہ برانچوں کو لیڈ کر رہی ہیں۔ چھٹے نمبر پر کام کرتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا کہ اس ٹاسک کو رو کر کرنا ہے یا ہنس کر، ذمہ داری کو قبول کر لیا جائے تو کام خود بخود ہو جاتا ہے۔
اپنے اگلے دس سالوں کے پلانز میرے ساتھ شیئر کیے بڑے خواب دیکھنے کی اہمیت بیان کی کہ اپنے آپ کو کبھی انڈر ایسٹیمیٹ نہ کیا جائے۔
کالم کے اختتام پر میں سوچ رہا تھا کہ ایک کامیاب انسان کی شخصیت کتنی جہتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اپنی زندگی کے دکھ سکھ، فیملی کے چیلنجز، پروفیشنل محنت، ماحول دوستی اور انسانیت کی خدمت جیسے مختلف پہلو ایک ساتھ جُڑ کر اس شخصیت کو مکمل کرتے ہیں۔ مس سلطانہ تبسم ایک زندہ مثال ہیں کہ اگر جذبہ، ہمت اور مثبت سوچ ہو تو کوئی بھی چیلنج ناقابل تسخیر نہیں رہتا۔
آخر میں ان کی شخصیت کی عکاسی کرتے ہوئے علامہ اقبال کے یہ اشعار
تو رہ نورد شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلی بھی ہم نشین ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تندو تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول