Tuesday, 22 April 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. Naam Ka Masla

Naam Ka Masla

نام کا مسئلہ

ہم اپنے بچوں میں تعصبات کو بچپن ہی میں جڑ پکڑنے سے کیسے روک سکتے ہیں؟ یہ سوال مجھے بہت پریشان کرتا ہے۔

ایک دن میرا منجھلا بیٹا عاشور حسین اسکول سے گھر آیا اور مجھے کہنے لگا، "بابا! آپ میرا نام بدل دیں"۔

میں نے پوچھا، بیٹا کیوں ایسا کیوں کہہ رہے ہو؟ کہنے لگا، بابا یہ نام تو شیعہ رکھتے ہیں، ہم شیعہ تھوڑی ہیں۔

میں اس کی یہ بات سن کر ایک لمحے کے لیے تو سن ہو کر رہ گیا۔ پھر خود کو سنبھالا اور اس سے پوچھا کہ اسے کس نے کہا کہ یہ نام شیعہ ہی رکھتے ہیں؟ اس نے جواب میں کہا کہ بابا، ہماری کلاس میں جو بھی نئی ٹیچر آتی ہے وہ میرا نام سننے کے بعد مجھ سے یہی سوال کرتی ہے اور مجھ سے سینئر اسکول کے کئی ایک بچوں نے بھی یہی سوال پوچھا تھا۔

میں نے اسے بتایا بیٹا، تم اسلامی مہینے محرم الحرام کی دس تاریخ کو عین اس وقت پیدا ہوئے تھے جو ہمارے نبی کریم ﷺ کے پیارے نواسے اور ہمارے خلیفہ چہارم امام علی علیہ سلام اور نبی کریم ﷺ کی عزیز ترین بیٹی جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کے بیٹے امام حسینؑ کی شہادت کا وقت تھا۔ میں نے اس مناسبت سے تمہارے دو نام رکھے۔ ایک فواد حسین اور دوسرا عاشور حسین۔ فواد دل کو کہتے ہیں مطلب "حسینؑ کا قلب"۔ جبکہ عاشور کا لغوی معنی دسواں روز محرم کا اور حسین جب اس کے ساتھ لگا تو استعارہ ہوا "امام حسین کی شہادت کا دن" اور جب ہم اسے اسم مرکب یعنی دو ناموں سے بنا اسم بناتے ہیں تو اس کے معنی ہوں گے شہادت حسین علیہ السلم کی گواہی دینے والا شخص۔۔

میں نے یہ تفصیل بتاکر کہا بیٹا، اب بتاؤ، یہ نام شیعہ یا سنی کیسے ہوئے؟

میں نے اپنے بیٹے کو جو ابھی نویں کلاس کا طالب علم ہے اور کچھ کچھ چیزیں اسے سمجھ آنے لگی ہیں تھوڑا سادہ کرکے درس انسانیت پڑھانے کی کوشش کی۔

میں نے کہا "بیٹا دنیا میں جو بڑے اور عظیم لوگ ہوتے ہیں وہ کسی خاص فرقے، نسل، مذھب کے لیے خاص نہیں ہوجاتے۔ تم اپنی فزکس، ریاضی، کمپیوٹر، کیمسٹری کی کتابوں میں جتنے سائنس دانوں کے نام پڑھتے ہو ان میں مختلف مذاھب، فرقوں، اقوام اور نسلوں کے لوگ شامل ہیں۔ سب کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جات ہے اور یہ توقیر ان کے کام کی ہوتی ہے۔ ایسے ہی تم سوشل سائنسز میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اہل علم کے نام شامل ہیں جن کی تحقیق اور علمی کارنامے ان کی عظمت اور احترام کو لازم کرتے ہیں۔ ایسے ہی امام حسینؑ اپنی حریت فکر اور سچائی کی خاطر اپنی، اپنے رفقاء اور اپنے خاندان کی بے مثال قربانی اور اپنے صبر و استقامت کی وجہ سے پوری بنی نوع انسان کے نزدیک قابل احترام ہیں۔ انھیں کسی گروہی، نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ شناخت کے ساتھ محدود نہیں کیا جاسکتا"۔

میں نے مزید کہا "بیٹا جب تم خود تقابل کے قابل ہوجاو تو خود سوچ سمجھ کر فیصلہ لے لینا کہ یہ نام تمہیں برقرار رکھنا ہے یا تبدیل کرنا ہے۔ میں تمہیں نہیں روکوں گا"۔

نام شخصیت کے آئینہ دار اسی وقت بنتے ہیں جب شخصیت اپنے کردار کو اس نام کی مطابقت میں ڈھالتی ہے۔ ہوسکتا ہے کسی کا نام حسین ہو لیکن وہ کردار میں یزید ہو تو وہ محض نام رکھنے سے قابل احترام نہیں ہوجائے گا۔ تمہیں اسکول کی نصابی کتابیں، بعض اساتذہ، مسجد کے کئی ایک مولوی، اخبارات، الیکٹرانک میڈیا یہ سب کے سب فرقہ، نسل، مذھب، زبان اور صنف جیسی شناختوں میں قید کرنے کی کوشش کریں گے اور یہاں تک کہ جس گھر میں تم رہتے ہو اس گھر کے بزرگ مرد اور عورتیں بھی تمہیں اپنے تعصبات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں گی اور اس سے تم وسیع مطالعے، اپنے اردگرد کے حالات و واقعات کے گہرے مشاہدے کی قوت سے ہی باہر نکل سکو گے۔ تب تک صرف ایک بات یاد رکھو کہ شناختوں کے جتنے پیمانے ہیں یعنی مذھبی شناخت، فرقے کی شناخت، صنفی شناخت وغیرہ یہ کسی بھی فرد سے نفرت اور تعصب رکھنے کا جواز نہیں رکھتے۔ تم ایسا کوئی خیال دل میں نہیں لانا۔۔ 14 سالہ عاشور حسین میری کہی ہوئی باتوں میں سے کچھ باتیں سمجھا ہوگا کچھ نہیں لیکن میرا بنیادی مدعا اس کی سمجھ میں ضرور آگیا ہوگا۔۔

Check Also

Main Tarjuma Kyun Karta Hoon?

By Rauf Klasra