Bawarchi Khanah, Peerhi, Phonkni, Angeethi
باورچی خانہ، پیڑھی، پھونکنی، انگیٹھی
میں اپنے زمانے کے باورچی خانے کا سوچوں تو وہ امی مرحومہ (اللہ ان کی مغفرت کرے آمین) کے بغیر نامکمل ہے۔ مجھے اپنی امی صبح صبح چولہے کے آگے لکڑی کی پیڑھی جسے چوکی بھی کہتے ہیں پر بیٹھی نظر آتی ہیں اور ان کے آس پاس ہم سب بہن بھائی اپنی اپنی پیڑھیوں یا پھٹیوں (چوکیوں) پر بیٹھے چائے کے کپ پکڑے پراٹھوں کا انتظار کرتے ہوئے۔ کبھی کبھار پیڑھیوں کی تقسیم پر جھگڑا ہوجاتا تو امی صلاح صفائی کرانے کی بھرپور کوشش کرتیں اور آخرکار اپنی پیڑھی "پسوڑی بچے" کی پیڑھی کے ساتھ تبدیل کرلیتی۔
یہ لکڑی کی بنی ہوئی پھٹیاں ہر حجم کی ہوتی تھیں اور آم کھاتے وقت باورچی خانے سے باہر آجاتی تھیں اور بالٹی میں بھگوئے ٹھنڈے ٹھار آم ان ہی پر بیٹھ کر کھائے جاتے تھے۔
اس کے علاوہ باورچی خانے کے ایک کونے میں آم کے اچار اور مربے کے تین چار مرتبان ہوتے تھے جو امی خود بناتی تھیں اور باوجود اس کے کہ ابو مرحوم (اللہ ان کی مغفرت کرے آمین) کہتے کہ اچار دال کے ساتھ اس کا ذائقہ بنانے کے لئے استعمال ہوتا ہے، ہم لوگ آلو گوشت کے ساتھ بھی اچار کا استعمال کرتے تھے اور "انھے وا" جتنا جلد ہوسکتا اچار اور مربہ ختم کرکے دم لیتے۔ آم کی کھٹ میٹھی چٹنی بھی بنائی جاتی تھی جو جلد ہی ختم کردی جاتی تھی۔
آم کاٹنے کا آلہ، مجھے یاد نہیں اسے کیا کہتے تھے کیونکہ سروتہ چھالیاں کاٹنے کے کام آتا تھا اور یہ آم کاٹنے کے اور یہ بھی باورچی خانے میں ایک کونے میں رکھا ہوتا تھا۔
باورچی خانے کے ایک طرف آتش دان بھی تھا لیکن اس کو کبھی کبھار ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے اوپر خوبصورت سی چمنی بھی بنی ہوتی تھی۔ روشن دان اور کھڑکی بھی باورچی خانے کا حصہ ہوتی تھی۔
اس کے ساتھ برادے والی اور کوئلے والی انگیٹھیاں بھی رکھی ہوتی تھیں۔ ان انگیٹھیوں کے استعمال کے لئے پھونکنی (لوہے کا پائپ) لازمی ہوتی تھی جو آگ بھڑکانے کے کام آتی تھی اور ساتھ چمٹا جو کوئیلوں کو ادھر ادھر کرنے کے کام آتا تھا۔
ایک کونے میں نعمت کدہ ہوتا تھا جسے ہم جالی اور کچھ لوگ ڈولی بھی کہتے تھے۔۔ یہ ایک چھوٹی سی الماری ہوتی تھی جس میں تین اطراف میں جالی لگی ہوتی تھی اور دو یا تین خانے بنے ہوتے تھے۔ اس میں سالن وغیرہ رکھا جاتا تھا۔ گرمیوں میں اسے باہر نکال لیاجاتا تھا۔ اس کے اوپر دادی جان کا پاندان بھی رکھا ہوتا تھا اور اب کیا بتائیں کہ پاندان کیا ہوتا تھا۔ بس عمروعیار کی زنبیل تھا ہمارے لئے۔ انواع و اقسام کی چھالیاں، سونف، گلو قند اور پیسے بھی ادھر ہی رکھے جاتے تھے۔
بلی دودھ کی خاص دشمن ہوتی تھی تو لوہے کے چھینکے پر دودھ کا برتن رکھ کر صحن میں موجود تار سے لٹکا دیا جاتا تھا۔ یہ چھینکا دراصل ایک پلیٹ ہوتی تھی جس کے تین اطراف میں لوہے کی تاریں لگی ہوتی تھیں۔
ڈول اور گڈوی دودھ دہی رکھنے اور لانے کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ اکثر بلی دودھ کی لالچ میں اپنا سر گڈوی میں پھنسا لیتی تھی پھر پورے صحن میں ادھم مچائے بھاگتی پھرتی تھی۔
باورچی خانے کے باہر کونے میں چکی بھی نصب تھی۔ جس پر ہم شوقیہ باجرے کو پیستے تھے۔
اس کے ساتھ ایک لکڑی پر قیف نما چھلنی سی لگی ہوتی تھی جس سے دادی اماں سویاں بناتی تھیں۔ اب واللہ عالم کسی اور کو اس بارے میں علم ہے کہ نہیں۔
چنگیریاں یا چھابیاں روٹی رکھنے کے لئے استعمال ہوتی تھیں۔
کانوں کا بنا ہوا چھاج جو چاول اور گندم وغیرہ صاف کرنے کے کام آتا تھا اور عموماً دیوار پر کیل کے مدد سے لٹکایا جاتا تھا۔
مختلف اقسام کی لکڑی کی ڈوئیاں بھی دیوار پر لٹکی ہوتی تھی۔ سالن ڈالنے کے لئے چمچ نما اور ساگ گھوٹنے کے لئے مدھانی کی طرز کی ڈوئی ہوتی تھی جسے گھوٹنا کہتے تھے۔ شائید کسی اور کو بھی وہ ڈوئی یاد ہو۔
چائے دودھ ڈالنے والی ڈوئی کو ڈبکی کہتے تھے۔ کیتلی بھی تقریباً ہر گھر میں ہوتی تھی اور مدھانی بھی باورچی خانے کا حصہ ہوتی تھی۔
آٹا چھالنے کی چھلنی اور گوندھنے کے لئے پرانت اور آٹا رکھنے کا بہت خوبصورت کنستر (شائید کمنڈلی بولتے تھے) ہمارے پاس تھا جو ڈاکخانے کے باہر لگے خط ڈالنے والے ڈبے جیسا تھا۔ اس کے ہینڈل بالکل اس طرح چھجا نما تھے جیسے خط ڈالنے والی جگہ کے اوپر بنے ہوتے تھے۔
اس کےعلاوہ مختلف اقسام کی چھریاں اور گنڈاسہ بھی باورچی خانے کی زینت ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ لکڑی کا گول سا ٹکڑا ہوت تھا جو بکرا عید پر بکرا بنانے کے کام آتا تھا۔
پھر کدوکش جو گاجریں چھیلنے کے کام آتا تھا۔ لیکن جو کدوکش ہمارے گھر میں تھا اس کے ساتھ ہلال نما چھری بھی لگی ہوتی تھی جو ساگ کاٹنے اور گوشت صاف کرنے کے کام بھی آتی تھی۔
چھوٹے بڑے دیگچے جنہیں بھگونا بھی کہتے تھے ایک کونے میں سجے ہوتے تھے۔
پیتل کا لوٹا جو وضو میں کام آتا تھا۔
ایک ٹفن جو پیتل کا تھا اور تین طشتریوں پر مشتمل تھا جیسی آج کل شادیوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ بس ان کا حجم چھوٹا کردیں۔ ان کو دو لمبے چمچوں کو بطور پیچ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے بند کیا جاتا تھا۔
روٹی اور پراٹھے بنانے کے لئے الگ الگ توے ہوتے تھے۔
ہمارے ماموں ریلوے میں تھے اور گھر کے باہر سرکنڈے لازمی لگے ہوتے تھے۔ ہم سوکھے ہوئے سرکنڈوں کو بڑے لکڑیوں کے چولہے کے نیچے لگاتے اور پھر ہماری ممانی ایک بڑا سارا توا جس کو توی بولتے تھے چولہے پر رکھ کر اکٹھی چار پانچ روٹیاں بناتی تھیں اور ہم سب چولہے کے گرد درجن بھر پھٹیوں پر بیٹھ کر روٹیاں پکتی دیکھتے تھے۔
کنڈی، سوٹا (ڈنڈا) اور سل بٹا (پتھر) بھی لازم ملزوم ہوتے تھے۔ یہ مختلف اقسام کے ہوتے تھے۔
۔ لوہے یا پیتل کی کنڈی اور لوہے کا ڈنڈا جس کو ہاون دستہ بھی کہتے تھے۔
۔ پتھر کی تکون نما کنڈی اور لکڑی کا ڈنڈا
۔ پتھر کا چوکور ٹکڑا اور اس پر گھومنے کے لئے گول پتھر جس کو سل بٹا بولتے تھے اور چٹنی وغیرہ اس پر بھی پیسی جاتی تھی۔
لالٹین اور دیے بھی باورچی خانے کے الماری میں رکھے ہوتے تھے۔
لکڑیوں کے چولہے کے بعد مٹی کے تیل والے چولہے آئے جن میں ایک آدھی ڈوری گرجاتی تو دھماکہ ہوتا تھا۔ پھر سوئی گیس کے چولہے سلنڈر کے ساتھ آئے۔ اگر سلنڈر کے منہ میں گھسا ہوا ربڑ کا چھلا (وال) ہوتا تھا تو اس صورت میں بھی دھماکہ ہوجاتا تھا اور آگ سے پورا باورچی خانہ بھر جاتا تھا۔
یہ دونوں حادثے میری موجودگی میں پیش آئے لیکن اللہ نے بچا لیا۔
اب "کچن" آگیا ہے جو "واش روم" کی طرح کم سے کم جگہ میں بنایا جاتا ہے کہ بس خاتون خانہ اس میں گھوم سکے۔ تمام کام کھڑے کھڑے سرانجام پاتے ہیں اور اوپر بیان کی گئی تمام "مشکل چیزوں" کی جگہ "خودکار آلات" نے لے لی لیکن ان سب کے باوجود جوڑوں کا درد زیادہ ہوگیا ہے اور بجلی یا گیس جانے کی صورت میں مفلوج ہوکر رہ جاتے ہیں۔
میں پرانی چیزوں کی زیادہ مدح سرائی نہیں کروں گا اور نئی ایجادات کی تعریف بھی کروں گا، لیکن ساتھ کے ساتھ موازنہ بھی پیش کردیا ہے۔ باقی آپ پر فیصلہ چھوڑتا ہوں کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔