Dil Fareb Dhoka
دلفریب دھوکا
جب زندگی اپنی آنکھ ایک ننھے وجود کی صورت میں کھولتی ہے۔ تو اس عمل کے فوراََ بعد ہر لمحہ فنا کی طرف لے جانے کا سفر شروع کر دیتا ہے۔ یہ سفر کتنے دنوں، یا دہائیوں پر مشتمل ہے۔ رب تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
زندگی ہر روز اپنے اختتام کی طرف قدم اٹھاتی ہے اور ہم انسان بیوقوف بنتے جاتے ہیں۔ بچپن، جوانی اور بڑھاپے تک "مزید" اور "کامیابی" کی چاہت میں بڑے اکڑ کر اپنی ذہانت پر فخر کرتے ہوئے چلتے جاتے ہیں۔ نہیں جانتے کہ ہم اس عروج کے لیے دیوانے ہو رہے ہیں، جو ہمیں فنا کی طرف لے جا رہا ہے۔ اس سفر میں ہم خوش کم، خوشی کے حصول کی خاطر جدوجہد زیادہ کرتے ہیں۔
خود کمزور مخلوق ہونے کے باوجود اولاد کی نعمت کو مضبوط کرنے کے کوشش میں یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ ہمارا اور اولاد کا رب ان کا خالق ہی ہے۔ ہم خالق ہیں اور نا ہی مالک ہیں۔ صرف فرض پورا کررہے ہیں۔
ایک اعلیٰ گھر، منفرد سواری، قیمتی لباس اور زیورات سے آگے خیال جاتا ہی نہیں۔ اعلی عہدہ ہمیں ظل الٰہی کہلوانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ بھول ہی جاتے ہیں کہ اس کل کائنات کی حیثیت اس کے خالق کے نزدیک ایک چیونٹی کے پر کے برابر بھی اہم نہیں۔
جانتے ہیں کہ انجام مٹی کی ایک چھوٹی سی ڈھیری ہے۔ پھر بھی مال، عزت، شہرت کی ہوس میں دوڑ دوڑ کر خود کو جلد منزل کی طرف لے جا رہے ہیں۔ منزل جو صرف فنا ہے۔
انسان سے بڑھ کر بیوقوف اور خسارے میں کون ہوگا؟ جو چاہتا تو بہترین سرمایہ کاری کرکے آخرت خرید لیتا۔ مگر وہ سب کچھ تجوریوں میں بند کرکے خالی ہاتھ حساب دینے چلا جاتا ہے۔
قبرستان جائیں، کچھ وقت گزاریں۔ اگر دل و دماغ گناہوں کی سیاہی سے پاک ہے۔ تو اپنے سے بڑا احمق کوئی نہیں لگے گا۔ واپس گھر آئیں اپنے اردگرد نظر دوڑائیں۔ جان لیں کہ مہلت ملی ہے۔ جان نہیں چھوڑی جائے گی۔ حساب کتاب بڑا کھرا اور پکا ہوگا۔
کپڑوں سے بھری الماریوں کو دیکھیں، جوتوں سے امڈتے ہوئے شوز ریک پر نظر ڈالیں۔ جائیدادوں کی فائلوں پر نظر دوڑائیں۔ زیورات کے ڈبے کھولیں۔ کون سی شے خالق کو متاثر کرے گی؟ یقیننا دینے والا بے نیاز ہے۔ اسے کسی شے کی پرواہ نا ضرورت ہے۔
پھر ہم یہ سب کس کے لیے اکھٹا کر رہے ہیں؟ کوئی ہم سا نادان بھی ہوگا۔ جس اولاد کے ایک بال کو بنانے کے قابل نہیں۔ اس کے مستقبل کی آسانیوں اور خوشیوں کو خریدنے چلے ہیں۔
جس گھر کے مالک کو اس گھر میں رہنا نصیب نہیں ہوا، اس گھر پر قبضہ جمانے کی کوشش میں گناہ کرنے پر تل جاتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل میں نے ایک ویڈیو کلپ دیکھا۔ شاید کسی فلم کا چھوٹا سے ٹکڑا تھا۔ اس میں دکھایا گیا کہ مصر کے فرعون کے مردہ جسم پڑے ہیں۔ انھیں قیمتی زیورات سے آراستہ کیا ہوا ہے۔ قریب ہی جوہرات اور کھانے پینے کا سامان پڑا ہے۔ کچھ چور آتے ہیں۔ مردہ جسموں پر سے زیورات کو نوچ کر اتارتے ہیں اور سب کچھ لوٹ کر بھاگ جاتے ہیں۔ یقین مانیئے یہ سوچ کر بے اختیار ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی کہ جو فرعون کے کام نا آسکا۔ وہ ان کو کیا نفع دے گا؟
دین اسلام میں رہبانیت کا تصور نہیں۔ اچھا کھانا کھائیں، اچھا پہنیں، اچھی سواری خریدیں۔ مگر فضول خرچی اور اسراف سے بچیں۔ کیوں کہ آپ ہر روز عروج کی طرف نہیں بلکہ اپنے فنا کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
تو خود کو کیوں خسارے میں ڈالتے ہیں؟ بہترین سرمایہ کاری کریں۔ خلق خدا کی چھوٹی سے مدد سے بھی گریز نا کریں۔ کیوں کہ یہ مختصر عملی مدد کسی کی بہت بڑی آرزو بھی ہو سکتی ہے۔
بینک بیلنس بڑھانے کی ہوس میں مبتلا مت ہوں۔ پائی پائی کا حساب بڑا طویل اور سخت ہوگا اور بہت پشیمانی ہوگی۔
خود کو دلفریب دھوکے کے سحر سے آزاد کر لیں۔ فائدے میں رہیں گے۔