Monday, 13 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raja Mohsin Riaz
  4. Dard, Himmat Aur Lahore Ki Garmi

Dard, Himmat Aur Lahore Ki Garmi

درد، ہمت اور لاہور کی جھلستی گرمی

لاہور کی گرمیوں کی ایک جھلسا دینے والی دوپہر تھی، جب ہر سانس بھاری محسوس ہو رہی تھی۔ ایسے میں زندگی کے ایک عجیب امتحان نے مجھے ہسپتال کی راہداریوں میں بھٹکنے پر مجبور کر دیا، جہاں وقت اور نیند دونوں تھم سے گئے تھے"۔

یہ 10 جون 2016 کے دن تھے جب گرمی اپنے جوبن پہ تھی اور پھر لاہور جیسے شہر میں جہاں ہم ٹھنڈے ایریاز سے آئے لوگوں کا دم گھٹتا، موجود تھا۔

در اصل ایک ایکسیڈنٹ میں میرے بڑے بھائی کی ٹانگ فریکچر ہوگئی تھی اور میں اپنے والد صاحب کے ساتھ ان کی تیمار داری کے لیے ان کے ساتھ گیا تھا۔

خیر ہم ہاسپٹل پہنچے اور آپریشن کے لیےاپائنٹمینٹ جلد ہی مل گیا۔ آپریشن کی تیسری رات میں اپنے بھائی کے ساتھ ہاسپٹل رک گیا تھا اور رات 12 بجے تک جاگتا رہا پھر اچانک نیند آئی اور پتا ہی نہیں چلا کب سو گیا۔

اسکے بعد اچانک میرے بھائی کو شدید درد ہونے لگا اور پورے وارڈ میں موجود جاگ گئے اور مجھے جگانے کی بہت کوششیں کی گئی لیکن چونکہ میں پچھلی رات نہیں سو پایا تھا، اس لیے میری آنکھوں میں نیند کی شدت تھی۔ دو گھنٹوں کے بعد میں مشکل سے اٹھا، تو کافی بھیڑ تھی۔ مریضوں کے ساتھ آئے تیماردار سب ادھر جمع ہو گئے تھے۔

میں کاؤنٹر سے نرس کو بلانے گیا تو ایک دو بار دستک دی غالباََ وہ بھی کائونٹر کے ساتھ والے روم میں سو گئی تھی۔ میری آنکھوں میں نیند کی شدت ابھی باقی تھی۔

اچانک میں نے کائونٹر پہ ٹیک لگائی ہی تھی کہ وہیں سو گیا۔ جب دوبارہ جاگا تو نیچے گر کر ناک پر چوٹ لگ گئی۔

خیر وقت گزرتا گیا اور مزید 15 دن بعد ڈاکٹر نے گھر شفٹ ہونے اور بھائی کو مزید 3 ماہ بیڈ ریسٹ کا کہہ دیا۔

اس دوران مجھے ایک ادارے میں ایڈمیشن لے دیا گیا اور میں ہر روز صبح سویرے اٹھ کر کلاسز لینے جاتا اور اسکے بعد اکثر بادشاہی مسجد آ کر کچھ وقت گزارتا۔ یہاں میری ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی، جس کا نام فائز احمد تھا۔

فائز احمد، ایک کمزور لیکن پرعزم لڑکا، جس کے چہرے پر نہ ختم ہونے والی جدوجہد کی داستان تھی۔ اس کی آنکھوں میں خواب بھی تھے اور وہ حقیقتیں بھی، جو خوابوں کو چھین لینے کا ہنر رکھتی ہیں"۔

وہ نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ صبح اسکول جاتا اور شام کو مسواک، تسبیح اور اسی طرح کے سامان بیچتا تھا۔ ایک دن، جب میں حضرت مجدد الف ثانی (رحمت اللہ علیہ) کے مکتبہ کے قریب بادشاہی مسجد کے احاطے میں تھا، فائز نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم کچھ خریدنا چاہتے۔ میں نے صرف ایک مسواک خریدی۔ اس کے چہرے پر ایسا اعتماد تھا کہ لگتا تھا وہ کسی بڑی کمپنی کا مالک ہو۔ ہم کچھ دیر بات کرتے رہے، پھر الگ ہو گئے۔

وقت گزرتا گیا اور جمعہ کے دن، میں نماز کے لیے بادشاہی مسجد گیا۔ اچانک وہ دوبارہ سامنے آیا، سفید کپڑے پہنے اور بہت جوش و خروش کے ساتھ مجھے سلام کیا۔ میں نے فوراً پہچانا کہ یہ وہی شخص ہے جس سے میری ملاقات پہلے ہوئی تھی۔ نماز کے بعد ہم نے بات کی اور اس نے بتایا کہ وہ گوجرانوالہ کے کسی گاؤں سے بیلونگ کرتا ہے۔

ہم دونوں جب مسجد سے باہر نکلے تو سائیکل پر بیٹھ کر چائے کے ایک ڈھابے پر پہنچے۔ کافی دیر باتیں کرتے رہے اور آدھا آدھا کپ چائے کا آرڈر دے دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ اندر سے بہت پریشان تھا، لیکن وہ ہر بات پر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتا، شاید وہ محض دوستانہ تعلقات کی ظاہری صورت کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ اس دن کے بعد ہم موبائل کے ذریعے رابطے میں رہے۔

تعارف سے پتا چلا کہ ہم ایک ہی علاقے سول سائنس کالج کے قریب قریب رہتے تھے اور اسکے بعد اکثر ملاقات ہوتی رہتی۔ میں اکثر اس کے رویے کو بہت دھیان سے دیکھتا اور اس کی پریشانیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا، مگر وہ زیادہ پرسنل باتوں سے گریز کرتا تھا، وہ چاہتا تھا کہ میں زیادہ ذاتی سوالات نہ کروں۔

ہم اکثر اتوار کے دن سائیکل پر لاہور کی مختلف جگہوں پر جاتے، کبھی ریلوے سٹیشن پہنچ کر ان کے ڈبے گنتے، تو کبھی دریا راوی کے کنارے پہنچ جاتے اور اسکی راوانگی کو ڈسکس کرتے۔

آخری بار جب مجھے یاد ہے، ہم دریائے راوی کے کنارے بیٹھے تھے، لیکن اس دن میں خود کو بہت تنہا محسوس کر رہا تھا۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ جاتا اور کچھ ٹائم ہنس مکھ باتیں کرنے کے بعد وہ اچانک چپ ہو جاتا اور جب میں نے اس سے اس کی بے چینی کے بارے میں پوچھا، تو وہ تھوڑا مسکراتے ہوئے جواب دیتا اور بات بدل دیتا، جیسے وہ دوستی کے رسمی تقاضوں کو نبھانا چاہتا ہو۔ لیکن اس کے اندر کچھ آئے دن بےچینی بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ دریا میں ایسے پتھر پھینک رہا تھا لگتا تھا جیسے وہ اپنے اندر کے غموں کو دریا میں پھینک رہا ہو۔

پھر وہ وقت آیا جب ہم لاہور سے واپس جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ آنے والے بدھ کو میرے بھائی کا چیک آپ تھا اور لاہور کی شدت کی گرمی کے باوجود وہ دن آ پہنچا۔

ہم چیک آپ کے لیے ہسپتال گئے۔ ڈاکٹر نے دو گھنٹے کا ٹائم دے دیا۔ گرمی کی شدت کے باعث میں وہاں سے باہر نکل آیا اور گیٹ نمبر تین کے قریب کھڑا تھا کہ اچانک ایک لڑکا تیز قدموں سے میرے قریب سے گزرا۔ اس کے ہاتھ میں دواؤں کا بڑا سا شاپر تھا اور وہ اتنی تیزی سے گزرا کہ مجھے شک ہوا کہ یہ وہی فائز ہے۔ میں نے فوراً اس کے پیچھے چلنا شروع کر دیا اور وہ سیدھا ایمرجنسی وادرڈ کی طرف جا رہا تھا۔ اسکے بعد جب میں ایمرجنسی روم میں پہنچا، تو میں نے دیکھا کہ وہ فائز ہی تھا۔

ایمرجنسی وارڈ میں موت کی خوشبو محسوس ہو رہی تھی۔ چیخ و پکار، آنسو اور دعاؤں کی آوازیں ایک دوسرے میں گھل مل رہی تھیں۔ فائز کی آنکھوں کے سامنے اس کی ماں کا پرسکون چہرہ، جیسے کوئی چراغ آخری بار جھپک رہا ہو، وہ منظر کبھی نہیں بھول سکتا"۔

مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے پوری دنیا کے مسائل یہاں جمع ہو گئے ہوں اور لوگ اپنے درد کو چیخ و پکار سے ہلکا کر رہے ہوں۔ میں نے دعا کی کہ اللہ ہر شخص کو ایمرجنسی روم کے ایسے جمھیلوں سے نجات دلائے۔

اس کی ماں جو تین سال سے کینسر کی مریضہ تھی، اسی دن اس دنیائے بے رحم سے رخصت ہو چکی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میں خود کو قابو میں نہ رکھ سکا میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسوں نکلنا شروع ہو گئے۔ اسکے چھوٹے بھائی چیخ چیخ کر پکار رہے تھے ماں۔

تو کیوں چھوڑ کے چلی گئی۔ ہمارا تیرے سوا کون تھا۔ اب کیا کریں گے ہم!

وہاں موجود ہر شخص کی آنکھیں خون کے آنسوں سے اشک بار تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے سیلاب آ کہ گزر گیا ہو۔

اب میت کو لے جانے کے لیے ان کے عزیز و اقارب کافی جمع ہو گئے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ چل پڑا راستے میں اس کے کزن نے بتایا کہ فائز یتیم تھا اور اپنے تین چھوٹے بہن بھائیوں کا واحد سہارا تھا۔

اس وقت میرے دل میں یہ خیال آیا کہ اس ملک میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو فائز احمد کی طرح اپنی ماں کا علاج نہیں کروا سکتے اور زندگی بھر اس درد میں ڈوبے رہتے ہیں۔ موت تو حقیقت ہے، مگر انسان کبھی بھی ان لمحوں کو نہیں بھول سکتا جب وہ اپنے پیاروں کے لیے کچھ نہ کر پایا ہو۔

ہم سب اپنی زندگیوں میں مصروف ہیں، لیکن ہمارے اردگرد فائز جیسے بے شمار لوگ ہیں، جو اپنی ہنسی میں غم چھپائے، زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کی آواز بنیں، تاکہ کوئی بھی فائز احمد اپنی جدوجہد میں اکیلا نہ ہو"۔

نوٹ: یہ کہانی ان تمام لوگوں کی عکاسی کرتی ہے جو ہمت اور حوصلے کے ساتھ زندگی کے چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہیں، لیکن اپنے درد کو دنیا کے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔

Check Also

Los Angeles

By Muhammad Umair Haidry