Izhar Ki Qillat Aur Hamari Ijtimai Nakami
اظہار کی قلت اور ہماری اجتماعی ناکامی
کتنی عجیب اور افسوسناک بات ہے کہ ایک ادارے کے سربراہ، جو اپنی بصیرت، لیڈرشپ اور قابلیت کے لیے جانا جاتا ہے، جب کسی پروگرام کی تفصیلات پیش کرنے کا موقع آتا ہے تو وہ یہ اعتراف کرے کہ اس کے پاس مناسب الفاظ نہیں ہیں جن کے ذریعے وہ اپنا نقطہ نظر یا احساسات پیش کر سکے۔ مزید برآں، وہ اپنے ماتحتوں سے مدد مانگے کہ وہ اسے سکھائیں کہ کیا کہنا ہے اور پھر وہ ان کے دیے ہوئے اسکرپٹ کے مطابق کیمرے کے سامنے اپنی بات کرے گا۔
یہ صورتحال نہ صرف ان کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے بلکہ ادارے کی مجموعی ساکھ اور کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھاتی ہے۔ ایک سربراہ کا اپنی بات کہنے میں خود کفیل نہ ہونا ان کے اعتماد اور رہنمائی کی صلاحیت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے، جو کہ ایک ادارے کے کامیاب ہونے کے لیے بنیادی عناصر ہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ ایک ادارے کے سربراہ کو جب اس پروگرام کے بریفننگ دینے پر یہ کہنا پڑجائے کہ میرے پاس ایسے الفاظ نہیں ہیں جن سے میں اظہار کرسکوں۔ لہذا آپ مجھے بتائیں گے کہ کیا کیا کہنا ہے اور پھر میں کیمرے کے سامنے بولوں گا۔
یہ واقعہ نہ صرف حیرت انگیز ہے بلکہ ہمارے معاشرے کے ایک سنگین مسئلے کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ یہ مسئلہ اظہار کی قلت اور خود اعتمادی کی کمی ہے، جو نہ صرف افراد بلکہ قومی سطح پر بھی ہماری ناکامیوں کی ایک بڑی وجہ بن چکی ہے۔ جب ایک سرکاری ادارے کے سربراہ، جنہیں ایک اہم پروگرام میں خیالات کا اظہار کرنا تھا، یہ اعتراف کریں کہ وہ بات کرنے کے قابل نہیں ہیں اور رہنمائی کے محتاج ہیں، تو یہ بات انتہائی افسوسناک اور پریشان کن بن جاتی ہے۔
ایک ادارے کے سربراہ کے طور پر ان کی گفتگو صرف ان کی ذاتی شخصیت کی نمائندگی نہیں کرتی بلکہ ان کے ادارے، حکومت کی پالیسیوں اور ان کی قیادت کی صلاحیتوں کا بھی آئینہ ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی بات مؤثر انداز میں پیش کرنے سے قاصر ہیں، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ اپنی قیادت کے فرائض کیسے نبھاتے ہوں گے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف انفرادی نہیں بلکہ ہماری تعلیمی اور تربیتی نظام کی کمزوریوں کی بھی عکاسی کرتا ہے۔
ہمارے تعلیمی ادارے عموماً نصابی علم پر زور دیتے ہیں، لیکن طلباء کی شخصیت سازی، خود اعتمادی اور اظہار خیال کی صلاحیتوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ نتیجتاً، طلباء جو کسی بھی معاشرے کا مستقبل ہوتے ہیں، عملی زندگی میں شرم و جھجھک، خود اعتمادی کی کمی اور اظہار کی ناکامی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عملی تربیت اور اظہار کی مہارتوں کی کمی کس طرح ایک اجتماعی ناکامی کا باعث بن رہی ہے۔ تعلیمی اداروں اور پیشہ ورانہ تربیتی مراکز کو چاہیے کہ وہ نصابی تعلیم کے ساتھ طلباء کو عملی زندگی کے لیے بھی تیار کریں۔ ان میں پبلک اسپیکنگ، خیالات کی وضاحت اور خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے تربیتی پروگرامز منعقد کیے جائیں۔
اداروں کے سربراہان کے لیے خصوصی تربیتی پروگرامز کا انعقاد بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنی قیادت کے فرائض بہتر طریقے سے انجام دے سکیں۔ ایسے مواقع پر ان کی گفتگو نہ صرف ان کے ادارے بلکہ قوم کی نمائندگی کرتی ہے، اس لیے مؤثر گفتگو کی مہارت بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔
والدین کو بھی اس جانب توجہ دینی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو صرف اچھے گریڈز تک محدود نہ رکھیں بلکہ ان کی غیر نصابی سرگرمیوں میں شرکت کو یقینی بنائیں۔ بچوں کو ایسے سیشنز اور مواقع فراہم کریں جو ان کی خود اعتمادی اور اظہار خیال کی صلاحیتوں کو نکھار سکیں۔
یہ واقعہ محض ایک شخص کی کمزوری نہیں بلکہ ہمارے تعلیمی اور تربیتی نظام کی مجموعی ناکامی کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہمیں فوری طور پر اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی قوم کے افراد کو تعلیم یافتہ ہی نہیں بلکہ خود اعتماد اور مؤثر مقرر بھی بنا سکیں۔ یہ قومی مسئلہ ہماری توجہ کا منتظر ہے اور اس کا حل ہمارے تعلیمی اور تربیتی نظام کی اصلاح میں مضمر ہے۔