کمان توڑدی میں نے
ہمارا آنگن چند دنوں سے بیٹی کے نور سے جگمگ کرتا اور خوشبو سے مہک رہا ہے ہم دونوں (باپ بیٹی) گھنٹوں باتیں کرتے ہیں اس کالم کی اشاعت کے چھٹے دن بیٹی اپنی محنت مزدوری اور پڑھائی کیلئےواپس امریکہ چلی جائے گی اور ہم اُداسی اوڑھ کے رہیں گے کچھ باتیں اور بھی ہیں لیکن آپ پہلے فقیر راحموں کی سن لیجئے پھر آگے بڑھتے ہیں۔
اس کا کہنا ہے کہ "زندگی بین اٹھانے کے لئے نہیں، غوروفکر اور تدبر سے عبارت ہے۔ لوگ مرنا آسان سمجھتے ہیں۔ کوئی پوچھے تو مریں کس کے لئے۔ اناالحق کی صدا سے بھید کھولنے کا خمیازہ منصور بھگتے، ہم کہاں کے ایسے ہیں۔ سانس شمار ہوتے ہیں نہ علم۔ کج ادائوں کے درمیان جینا ایسے ہی ہے جیسے چار انسانوں کے کندھوں پر سفر۔ رائیگاں ہوتے لمحوں کا حساب کیا رکھیں؟ کچھ بھی تو بدلنے کا نہیں"۔
شاعری تو خاصے کی چیز ر ہی۔ جذبوں کے اظہار کے لئے حروف سے عبارتیں بُننے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ تاریخ کی اپنی بھی تاریخ ہے۔ ویسے سچ یہ ہے کہ لکھنا کچھ اور چاہتا تھا ذہن اور قلم کسی اور سمت چل پڑے۔ یادوں اور مطالعے کی دستک ہے۔
ولید بن عتبہ بن شجیع نے بصرہ میں ایک ڈھلتی شام کی ساعتوں میں کہا تھا "محبت، امن اور علم سے پیٹ نہیں بھرتا۔ خداوند ہم من و سلویٰ کے طلب گار کہاں۔ دو وقت کی روٹی اور ا یک وقت کی مدہوشی، یہی کل مطالبے ہیں اپنے"۔
دوست ہوں یا رشتے اصل چیز احساس ہے۔ احساس مرجائے تو دو ٹانگوں پر چلتی پھرتی لاش ہے آدمی۔ بیٹی دوبرس بعد ماں باپ کے آنگن میں چہک رہی ہے ان سموں مجھے جنم دینے والی ماں کی تربت پر دی گئی ڈیڑھ عشرہ قبل کی حاضری یاد آئی تب بیٹی بھی ساتھ تھی ہم نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور ساری دعائیں ان فرمائشوں سمیت بھول گیا جو اماں حضور کی خدمت میں عرض کرنا تھیں۔
وعظ والی بی بی جی مرحومہ کی پوتی ساتھ تھی۔ سلام، فاتحہ اور نعت اسی نے ہدیہ کیئے دادی کو میں تو گم سم رہا۔ مٹی کی چادر اوڑھے تربت میں سوتی ماں کو کیا سناتا۔ یہی کہ اماں تیسرے بنا جینا پڑرہا ہے۔ بھلا اماں کی دعائوں کے بنا زندگی گزاری جاسکتی ہے؟ پھر اگر ماں بھی وعظ والی بی بی جی جیسی ہو جس نے کبھی حاسدوں اور شریکوں کا برا بھی نہ چاہا ہو۔
یادوں کا دائرہ وسیع ہوا ہم بہت چھوٹے تھے جب امڑی سینڑ کو دعا مانگتے ہوئے سنا کرتے تھے۔ کہا کرتی تھیں "میرے مولا! جو مجھ سے، میرے خاندان سے ناراض ہیں یا جن سے ہم، دونوں کی بچیوں کو اپنی امان میں رکھ۔ شرم پر پردہ قائم رکھ۔ علم اور سکھ کی دولت عطا کر"۔
ان کی پوتی کو لے کر تربت پر حاضری کا مقصد یہ بھی تھا کہ عرض کروں کچھ دعائیں پوتی کے لئے بھی۔ آنسو تھمے ہی نہیں۔ نجانے کیا ہوا تب یاد آیا کہ ساغر صدیقی نے کہا تھا "ہاتھ اٹھتے ہیں مگر حرف دعا یاد نہیں"۔
قبرستان سی خامشی تھی اپنے اندر بھی۔ فقیر راحموں کہنے لگے شاہ جی فتوئوں سے ڈرتاہوں ورنہ ہر "ماں کی ذات میں ایک خدا ہوتا ہے"۔
عبادہ بن نصیر حضرمی یاد آئے، کہا "میری ماں جو مرگئی اب زخموں پر مرہم رکھنے اور زندگی کی دعائیں کون مانگے گا۔ ماں تم نے تو عبادہ کو لڑتے دیکھا تھا۔ میں کب لڑتا تھا ماں تمہاری دعائیں دشمنوں پر کڑکتی بجلیوں کی طرح گرتی تھیں"۔
اُن سموں میں، میں تربت مادر پر یہی عرض کرسکا۔ رزق نے پھر ہجرت لکھ دی تیرے بیٹے کے مقدر میں تیری تربت کے پہلو میں یہ جو تھوڑی سی جگہ ہے اس میں سلالے تاکہ سارے موسم لد جائیں۔ موت کے منہ سے اولاد چھیننے والی ماں کا اب سر پر سایہ ہے نہ قدموں تلے کوئی ٹھنڈی سڑک۔ حیاتی کا تپتا صحرا ہے۔
فقیر راحموں نے چپکے سے کان میں کہا "واحد قبر ہے ماں کی جو اولاد کے دل میں بنتی ہے"۔ سچ یہی ہے۔ پھر بھی اس شہر خموشاں تک آنا پڑتا ہے یہ کہتے سناتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کے رودیا تربت مادر پر میں۔ ساری دعائیں اور فرمائشیں ان کی تربت کے سرہانے رکھ دیں اور کیا کرتا تھا ہم سے تو اُس کی بھی نہیں بنتی جس کی سب سے بنتی اور نبھتی ہے۔ بھید کا صندق کھولنے کا یارا نہیں ہے۔ جُہلا کے لشکر دندناتے پھرتے ہیں گوشت نوچنے اور ہڈیاں توڑنے کو۔
بہت سال ہوتے ہیں پچھلی صدی کی آٹھویں دہائی کی بات ہے مجھ ایسے زمین زادے جنرل ضیاء الحق کے "شرعی" عقوبت خانوں کے عذاب بھگت رہے تھے۔ ہر طرف ہاہاکاری مچی تھی۔ سوائے جنم دینے والی ماں کے کسی کو ضیائی عقوبت خانے سے زندہ واپسی کا یقین نہیں تھا۔
بابا جانی اس دن بڑے پرملال تھے جس دن جنرل ضیاء الحق نے ان سے کہا تھا " لُک مسٹر بخاری تمہارے بیٹے کو مینار پاکستان پر لٹکائوں گا اور کوئی اتارنے والا نہیں ہوگا"۔ فوجی آمر کے لہجے میں رعونت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ساتھ کی نشست پر بیٹھے جنرل غلام جیلانی خان نے بابا جانی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔ خاموش رہنے کو اشارہ تھا۔ جواں سال بیٹے کے لئے ہوئی دریدہ دہنی پہ تڑپ کر ا نہوں نے کہا "کچھ فیصلے اصلی مالک خود کرتا ہے آدمی تو صرف بڑبولوں کی طرح خدائی دعوے کرتا ہے"۔
اسلام آباد سے ملتان واپسی پر انہوں نے ساری تفصیل میری مادر مہربان کے گوش گزار کردی۔ امڑی سینڑ نے جائے نماز سیدھی کی اور سر سجدہ میں رکھ دیا۔ سجدہ سے سر اٹھایا تو بولیں میں نے اپنا لخت جگر حضرت سیدہ فاطمتہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی امان میں دیا آپ پریشان نہ ہوں۔
پھر ایک ایک کرکے دیواریں ٹوٹتی گئیں۔ ایک ایک کرکے زندگی کی ہانی یاد آنے لگی۔ حیاتی کا زیادہ عرصہ ماں جی اور گھرسے دور رہا تھا۔ میری بہنیں بتاتی ہیں جب بھی میٹھے چاول (زردہ) بنتا ماں جی کہتیں "میرے جاوید کے لئے ضرور رکھنا، نجانے کس وقت آجائے"۔
بہنیں ماں کی طرح لاڈ اٹھاتی ہیں، دعائیں بھی کرتی ہیں۔ تین ہی تو رشتے کائنات میں بے غرض رشتے ہیں ماں، بہن اور بیٹی۔ کیسے عجب رشتے ہیں دعائیں ہی دعائیں نکلتی ہیں ان رشتوں کی زبانوں سے۔
فقیر راحموں کہتے ہیں بہنوں اور بیٹیوں میں ماں دکھتی ہے۔ اسی لئے ان رشتوں میں بے غرضی رکھی مولا نے۔۔
ڈیڑھ عشرہ پہلے کے اُس دن تربتِ مادر گرامی سے بچھڑنے کو جی نہیں مان رہا تھا ہم باپ بیٹی چُپ سادھے تربت کو دیکھتے رہے۔ غیر ارادی طور پر میں نے اپنی بیٹی سے کہا، فاطمہ! راستہ یاد رکھ لو دادی اماں کی تربت پر آنے کا۔ نجانے کب یہاں تک تنہا آنا پڑے۔ بابا ایسی باتیں نہیں کرتے ورنہ میں دادی اماں کو شکایت کردوں گی۔ تب بیقرار ہوکر میں نے بیٹی کے ماتھے پر بوسہ دیا تو مجھے ایسا لگا میرے ماتھے پر بھی ماں نے بوسہ دیا ہے اُس بوسے کو اب تک محسوس کررہا ہوں۔
بابا جانی چلیں! بیٹی نے کہا۔ کچھ دیر رکتے ہیں بابا کی جان میں اپنی ماں سے باتیں تو کرلوں۔ فقیر راحموں بولے شاہ جی، گرمی ہے اور قبرستان۔ بیٹی کا امتحان نہ لو۔ یار یہ زندگی خود ایک امتحان ہے، میں نے کہا۔ درست ہے لیکن یہ اس (بیٹی) کا نہیں تمہارا امتحانی پرچہ ہے۔ اسے تم نے ہی حل کرنا ہے۔ فقیر راحموں نے جواب دیا۔
نہ چاہتے ہوئے بھی رخصت ہونے کے لئے فاتحہ پڑھنا شروع کردی۔ اماں میں تیری پوتی کو ساتھ لایا ہوں۔ ہماری حاضری ہوئی میں نے عرض کیا اب اجازت۔ مجھے ایسا لگا جیسے ماں جی کہہ رہی ہوں شاداں رہو، میری فاطمہ کا خیال کرنا، خوب پڑھانا، وارثِ علم کی دہلیز کا طلب گار رکھنا، نیک نصیب ہوں اس کے اور اماں میں، میں نے بے ساختہ کہا۔
ارے پگلے تجھے تو میں کب کا حضرت سیدہ بی بی فاطمتہ الزہرا اسلام اللہ علیہا کی امان میں دے چکی اسی لئے تو اپنے امتحانی پرچے سمیت اطمینان کے ساتھ خالق ارض و سما کے حضور حاضر ہوں گئی۔
ہم دونوں نے ایک ایک بوسہ تربت پر قدموں والی جگہ پر دیا۔ آنسو آنکھوں سے نکل کر تربت پر گرے۔ یوں محسوس ہوا جیسے اماں نے اپنے آنچل میں چھپالئے بیٹے اور پوتی کے آنسو۔ رزق سے بندھا جنم شہر سے لوٹ آیا تھا۔
اب میں ہی ہوں، ہوں بھی یا نہیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا۔ کبھی جو "اس" سے ملاقات ہوئی تو یہ ضرور دریافت کروں گا، موت کے منہ سے اولاد چھیننے والی کو موت کیوں دیتا ہے"؟ عبادہ بن نصیر حضرمی نے کہا تھا
"کمان توڑ دی میں نے اور تلوار نیام میں رکھ دی۔ میری ماں جو مرگئی اب زخموں پر مرہم رکھنے اور زندگی کی دعائیں کون مانگے گا۔ ماں! تم نے تو عبادہ کو لڑتے دیکھا تھا۔ میں کب لڑتا تھا ماں! تمہاری دعائیں دشمنوں پر کڑکتی بجلیوں کی طرح گرتی تھیں"۔