Hathi Ghar Aur Bachon Ki Chuttiyan
ہاتھی گھر اور بچوں کی چھٹیاں
گورنمنٹ صادق عباس مڈل سکول ڈیرہ نواب صاحب جو آج گورنمنٹ ہائی اسکول بن چکا ہے۔ غالباََ ساٹھ کی دہائی میں بہاولپور کا سب سے خوبصورت اسکول ہونے کےساتھ ساتھ بہترین رزلٹ دینے والا اسکول کہلاتا تھا۔ اپنی صاف ستھرائی اور تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے میدان میں بھی نمائیاں کامیابیوں کا حامل یہ اسکول قائم تو آج بھی ویسے ہی ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ایک خاص اور منفرد اسکول سے دوسرے بےشمار اسکولوں کی طرح ایک عام ہائی اسکول بن چکا ہے۔
میری اور میرے بےشمار دوستوں کے بچپن کی بہت سی یادیں اسی اسکول سے وابستہ ہیں۔ ہمارا مدرسہ ماں باپ کے بعد تربیت کی پہلی سیڑھی اور پہچان ہوتی ہے۔ کسی بھی طالب علم کی تربیت کا اندازہ ہمیشہ اس کے بنیادی تعلیمی ادارے سے ہی لگایا جاتا ہے۔ ہمارے اس اسکول کی ایک خاصیت یہ تھی کہ اس کے ہیڈماسٹر محمد رحیم خان سدوزئی ایک نہایت اعلیٰ منتظم اور قابل انسان تھے۔ جب میں پہلی جماعت سے آٹھویں جماعت تک زیر تعلیم رہا تو اس دوران یہ ہی ہیڈ ماسٹر ہوا کرتے تھے۔ ان کی اعلیٰ کارکردگی کی باعث انہیں ٹرانسفر کرنے کا سوچا بھی نہ جا سکتا تھا۔
یہ ایسا اسکول تھا جس کے بچے ٹیو شن نہیں پڑھتے تھے اور ٹیوشن پڑھانے والے استاد کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا جبکہ ٹیوشن پڑھنے والے بچوں کو نکما تصور کیا جاتا تھا۔ اسکول کے استاد مفت اپنا وقت دیکر کمزور بچوں کی تیاری کراتے تاکہ ان کے اسکول اور ان کے مضمون کا نتیجہ خراب نہ ہونے پائے۔ یہ وہ دور تھا جب اسکول میں بجلی نہیں ہوتی تھی ہماری کچی پہلی اور پکی جماعت باہر گراونڈ میں زمین پر بیٹھ کر پڑھتی تھی ان دونوں کلاسوں کے استاد بالترتیب حاجی اللہ بچایا اور تصدق حسین شاہ صاحب ہوا کرتے تھے۔
سردی میں یہ کلاسیں دھوپ میں اور گرمی میں درختوں تلے گزارہ کرتی تھیں۔ جو دھوپ چھاوں اور موسم کے ساتھ ساتھ اپنی جگہ بدلتی رہتی تھیں۔ باقی کلاسیں کمروں میں پٹ سن کے ٹاٹوں پر بیٹھتیں تھیں البتہ چھٹی جماعت کے بعد ڈیسک مل جایا کرتے تھے جو اکثر ٹوٹے پھوٹے ہوتے تھے۔ جب کبھی بارش، آندھی یا طوفان اور شدید سردی اور دھند ہوتی تو پہلی اور پکی جماعت کو ایک بڑے سے ہال نما کمرئے میں بٹھایا جاتا تھا جسے "ہاتھی گھر" کہتے تھے۔
یہ بہت اونچی چھت والا بڑا سا ہال نما کمرہ تھا جو تین اطراف سے بند تھا صرف سامنے کا حصہ کھلا تھا جہاں سے تازہ ٹھنڈی ہوا آتی رہتی تھی۔ اسکی لمبائی چوڑائی، سطح زمین سے اونچائی اور چھتوں کی اونچائی غیر معمولی ہونے کی وجہ سے اس کو ہاتھی گھر کہتے تھے۔ ہاتھی گھر کے بارے میں بڑی کہانیاں مشہور تھیں کہ یہ نواب صاحب کے ایک ہاتھی کے لیے بنوایا گیا تھا۔ مگر موسمی اثرات سے بچاؤ کے لیے یہ زبردست عمارت ہوا کرتی تھی۔ آج تو سب بچوں کو سردی ہو یا گرمی اندر کمروں میں ہی بٹھایا جاتا ہے۔
مجھے ہاتھی گھر تب بہت یاد آتا ہے جب میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو شدید گرمی اور شدید سردی بارش، آندھی، طوفان، دھند اور اسموگ میں کانپتے ہوئے اسکول جاتے اور واپس آتے دیکھتا ہوں۔ شدید گرمی میں سرکاری اسکولوں میں تو آج بھی پنکھے نہیں ہوتے۔ لیکن اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ آج سے ساٹھ سال قبل کے ہمارے استاد سخت موسمی حالات سے کیسے بچوں کو محفوظ رکھتے تھے؟ شدید گرمی اور شدید سردی کی چھٹیاں ان بچوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہ ہوتی تھیں۔ لیکن پھر بھی زیادہ سردی یا خراب موسم کی وجہ سے ہیڈماسٹر صاحب اپنی صوابدید پر بھی چھٹی کر دیتے تھے۔
یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ اپنے آج کا اپنے کل سے موازنہ کیا جاسکے۔ لیکن بعد میں پتہ چلا کہ دراصل یہ ہاتھی گھر بچوں کی سہولت اور موسمی اثرات کے بچاؤ کے لیے تعمیر کیا گیا تھا اسکی موٹی موٹی دیواریں اور اونچی چھت گرمی اور سردی کم کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ اس دور کے اساتذہ کو گلوبل وار منگ کا تو تصور تک نہ تھا لیکن بچوں کا خیال رکھنے کو وہ اپنی ڈیوٹی ضرور سمجھتے تھے۔
ذرا غور کریں کہ آج پنجاب بھر میں شدید سردیوں کا دوسرا دن ہے اور تعلیمی اداروں میں سردیوں کی چھٹیوں کا آخری دن ہے۔ ہمارے پورے بہاولپور میں شدید ترین دھند ہے۔ محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق یہ ہفتہ شدید ترین سردیوں اور ٹھنڈی ہواوں کے چلنے کا بتایا جارہا ہے اور جب بڑوں کو دھند کی باعث کچھ دکھائی نہیں دے رہا اس کے باوجود بچے دھند اور سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے اسکول جا رہے ہیں۔
بدقسمتی سے ہم آج بھی تعلیمی اداروں میں سوسالہ پرانے شیڈول اور اوقات میں گرمی اور سردی کی چھٹیاں کرتے چلے آ رہے ہیں اور شاید یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں یعنی گلوبل وارمنگ کا اثر پچھلی ایک دھائی سے ہمارے موسم کو شدید متاثر کر رہا ہے۔ موسموں کا دورا نیہ بدل گیا ہے۔ شدید سردی اب جنوری کے دوسرے ہفتے سے شروع ہوتی ہے اور شدید گرمی اب جون سے ستمبر تک اپنا رنگ جماتی ہے۔ لیکن ہم شاید لکیر کے فقیر عوامی مفاد اور ضرورتوں سے لا تعلق ماضی کی روا یات پر ہی عمل پیرا ہوکر سردیوں کی چھٹیاں دسمبر کے مہینے میں اور گرمیوں کی چھٹیاں مئی سے جولائی تک ہی کرتے چلے جارہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیاں اور گلوبل وار منگ دنیا بھر کی طرح پاکستان اور پنجاب میں بھی ماحولیاتی حا لات پر نمائیاں اثر ڈال رہی ہیں اور ان تبدیلیوں کا بچوں کی چھٹیوں پر بھی براہ راست یا بالواسطہ اثر پڑتا ہے۔ موسم زیادہ سرد یا غیر متوقع ہو تو بچوں کی تمام تر سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں اسی طرح شدید گرمی میں ہیٹ ویو خطرناک ہوتی ہے۔ جبکہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سردی اور گرمی کی شدت میں غیر معمولی اضافہ اور ان موسموں کے اوقات میں بڑی تبدیلی نظر آتی ہے۔
اسموگ اور فوگ کی باعث بچوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ ناجانے اسموگ کے دوران کتنے ہی بچے نمونیے کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان بدلتے موسمی حالات میں تعلیمی کیلندڑ میں تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے لیکن اس مقصد کے لیے کی جانے والی چھٹیوں کا شیڈول وہی پرانے والا چل رہا ہے۔ جس کی باعث بچوں کو سردی اور گرمی کے اثرات سے بچانے کے لیے چھٹیوں کا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔
دوسری جانب چھٹیوں کے دورا ن بچوں کی تفریح اور سیر وسیاحت بھی نہیں ہو پاتی۔ ان کی سیر وسیاحت کی خواہش موسمی حالات کی وجہ سے پوری نہیں ہو پاتی۔ وہ چھٹیوں کے دوران تو گھروں میں بند رہتے ہیں اور سخت موسم میں انہیں اسکول جانا پڑتا ہے۔ جو ان کے لیے بیماری اور تکلیف کا باعث بنتا ہے۔
میری حکومت اور ارباب اختیار سے اپیل ہے کہ سردی اور گرمی کی چھٹیوں کا شیڈول ملک اور علاقے کے موسمییاتی حالات کے مطابق ترتیب دیا جائے تاکہ بچے اپنی چھٹیاں بھی انجوائے کرسکیں اور فوگ اور اسموگ کے موسم کے مضر اثرات سے بھی محفوظ رہیں۔ نیز پہلے سردی چھٹیاں کرسمس کی وجہ سے دس دن کی ہوتی تھیں لیکن اب سردیوں کا دورانیہ بڑھ چکا ہے۔ ان چھٹیوں میں اضافہ بھی ناگزیر ہے۔ نیز علاقائی موسمی صورتحال کے پیش نظر وہاں کی مقامی انتظامیہ کو چھٹیوں کا اختیار ضرور دیا جانا چاہیے کیونکہ گلوبل ورامنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہر علاقے کی موسمی صورتحال یکساں نہیں ہوتی۔ بچوں کو گلوبل وارمنگ اور اس کے اثرات کے بارئے میں شعور دیا جائے او ر اس کے مضر اثرات سے آگاہی دی جائے۔
اس بارے میں ہمارے ایک دوست کے خیال میں ایک المیہ یہ ہے کہ وقت بدل چکا ہے اب چھٹیوں کا مطلب گھر پر آرام، تفریح اور سیر وسیاحت کی بجائے ٹیوشن پڑھنا یا اکیڈمی جانا سمجھا جاتا ہے۔ گویا چھٹیاں ہونے کے باوجود بچوں کی چھٹیاں نہیں ہوتیں۔ بچوں کے روزمرہ معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ چھٹیوں کا مطلب غیر نصابی سرگرمیاں ہوا کرتا تھا جو اب نمبرز کی دوڑ نے نصابی سرگرمی میں ہی بدل دیا گیا ہے۔ جو والدین کے لیے بھی ایک لمحہ فکریہ ہے۔ چھٹیوں کے دوران بچوں کی غیر نصابی سرگرمیوں کو ہر صورت جاری رہنا چاہیے کیونکہ صحت مند جسم میں ہی صحت مند دماغ ہوتا ہے۔
وقت کا تقاضا یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اس دور میں آج بھی سرکاری اسکولز اور تعلیمی اداروں میں ایسے "ہاتھی گھر" نما ایسی عمارات ضرور ہونی چاہیں جو کسی بھی سخت موسم، فوگ اور دھند یا بارش میں بچوں کو ایک حفاظتی اجتماعی ہال کی سہولت مہیا کر سکیں اور موسمی مضر اثرات سے بچا سکیں۔ میری درخواست ہے کہ موجودہ موسمیاتی تبدیلی کے پیش نظر بچوں کی گرمی کی چھٹیوں کا کیلنڈر تبدیل کیا جائے نیز سردیوں کی چھٹیوں کا دورانیہ بھی بڑھایا جائے۔ والدین سے بھی التجا ہے کہ چھوٹے بچوں کا ان موسموں میں خصوصی خیال رکھیں۔