Ahwal Gor Prabh Ka
احوال گور پربھ کا
ہم تو اس قدر متعصب واقع ہوئے ہیں کہ اپنے مذہب اسلام کے مختلف مسالک اور فرقوں سے متعلق غیرمتعصبانہ تو ایک طرف رہا متعصبانہ مطالعہ تک نہیں کرتے تاکہ دوسروں کی ریت و رسوم تو معلوم ہوں چہ جائیکہ کسی دوسرے مذہب کے۔ میں بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل ہوں۔
بیچاری ہیر کا ماموں ہونا بھی ایک گالی ہے کیونکہ ہیر جیسی بیٹی ایسے بھائی کی بہن نے پیدا کی تھی جس کو گالی دی جا سکتی ہو کہ تیری بھانجی نے تو ایک نامحرم کے ساتھ پینگیں بڑھائی تھیں۔ میرا دوست تاریخ دان ڈاکٹر کشمیر سنگھ رندھاوا یار دوستوں میں عادت کے مطابق پنجابی گالیاں دینے سے رہ نہیں سکتا۔ اسے معلوم ہے کہ میں گالی کا برا مناتا ہوں مگر اسے دینی بھی ہوتی ہے اس لیے وہ مجھے " او ماما ہیر دیا" کہہ کر سانس لے لیتا ہے۔
ایک دہریے کو بھی ہجوم میں عام مذہب کا نہ صرف پاس کرنا پڑ جاتا ہے بلکہ اس کے حق میں نعرے بھی لگانے پڑ جاتے ہیں۔ اسی لیے کشمیر نے اپنی تقریر میں" واہے گورو دا خالصہ، واہے گورو دی فتح" پہلے کہا جو ظاہر ہے نہ تو ہندوستان کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن مسٹر سبرامنیم نے کہا اور نہ ہی افغانستان کے سفیر نے اور نہ سیستوپل ہوٹل میں افغان برادری کے صدر نے بلکہ سفیر اور صدر کی پشتو تقاریر میں تو اللہ پاک، اللہ پاک ہی سنائی دے رہا تھا۔
ان تینوں باتوں کا تعلق احوال سے ہے۔ کشمیر نے خلاف معمول صبح ساڑھے نو بجے فون کر دیا اور کہا کہ اس لیے فون کیا ہے کہ آج سکھوں کے گرو اور مسلمانوں کے پیر کی سالگرہ ہے۔ میں نے پوچھا کس کی تو کہنے لگا او مامے ہیر دیا تجھے پتہ ہونا چاہیے۔ میں نے فورا" کہا بابا گورونانک کی۔ ہاں کہہ کر اس نے پہلی بات یہ پوچھی کہ کبھی گوردوارے گئے ہو، میں نے کہا نہیں۔ تو بولا پہلے اپنا ذہن بناؤ کہ میرے ساتھ چلنا ہے یا نہیں۔ میں ساڑھے چھ بجے جاؤں گا۔ میں نے اسے چار بجے تک فون کرکے مطلع کرنے کا کہا، کیونکہ مجھے دو ایک کام تھے، وہ بھی دوسروں کے مگر میرا دل بہت زیادہ کر رہا تھا کہ جانا چاہیے۔ خیر میں نے اسے کوئی دو بجے ہی فون کر دیا اور ایک میترو سٹیششن پر شام سوا چھ بجے ملنے کا طے کیا۔
مجھے اندازہ نہیں تھا چنانچہ کوئی 33 منٹ پہلے پہنچ گیا اور کشمیر مقررہ وقت سے دس منٹ تاخیر سے پہنچ سکا۔ کھڑے کھڑے ٹانگیں ستون بن گئیں۔ ملحقہ سٹیشن جس میں بیٹھنے کو بنچ تھے وہاں ہوا لگتی تھی۔ میں نے آنے سے پہلے وکی پیڈیا پر گورو نانک سے متعلق پڑھ لیا تھا چنانچہ تین سٹیشن تک یہ بات کی کہ گورونانک کی تعلیمات تو بہت پر امن ہیں یہ تم سکھ لوگ وحشی کیوں ہو گئے تھے 1947 میں۔ کشمیر نے سکھوں کو گالی دے کر کہا کہ پاگل ہیں اور ساتھ ہی اضافہ کیا تم مسلمانوں میں کیا کم پاگل ہیں۔ درست کہہ رہا تھا چنانچہ اختلاف کی گنجائش نہیں تھی۔ کشمیر نے بتایا کہ ہم پنجابی جٹ وحشی ہیں، جن لوگوں نے یہ گوردوارہ بنایا ہے وہ بڑے "بیبے" لوگ ہیں، تم مل کر خوش ہو گے۔ یہ گوردوارہ افغانستان کے سکھوں نے بنایا ہے۔ ارے، میں نے کہا وہ سب تو ہمارے پوٹوہار سے گئے ہوئے سکھ ہیں جنہیں ہم اب کابلی سکھ کہتے ہیں۔
ہم میترو نگاتنسکایا پر اترے۔ پانچ منٹ پیدل چل کر ایک عمارت میں داخل ہوئے، ہم سے پہلے بھی لوگ داخل ہو رہے تھے۔ کشمیر نے بتا دیا کہ گوردوارے میں جرابوں سمیت جوتے اتار کر اور سر پر رومال باندھ کر جانا ہوگا۔ دونوں جانب سیڑھیاں تھیں۔ تیسری منزل کے پیڑے پر پہنچ کر کشمیر نے مجھے رومال باندھا جو میں گھر سے ساتھ لے کر آیا تھا۔ پھر میں نے پیڑے پر بچھے قالین پر رکھی کرسی پر بیٹھ کے جوتے اور جرابیں اتاریں، جرابیں جوتوں میں اڑسیں اور آٹھ زینے چڑھ کے جو قالین کے بغیر اور ازحد ٹھنڈے تھے، وہاں پہنچا جہاں ایک جانب جوتے اور کوٹ دینے کی جگہ تھی جس میں داڑھیوں والے نوجوان مستعد سکھ مصروف تھے۔ دونوں جوتوں کا ایک ٹوکن انہوں نے کشمیر کو دے دیا اور دونوں کوٹوں کا ایک ٹوکن مجھے۔
ہم ہال میں داخل ہو گئے، جو بہت بڑا تھا اور وال ٹو وال کارپیٹڈ۔ ہال کے آخر میں ایک چھت والے چبوترے پر زرتار چادروں سے ڈھنپی گرنتھ تھی جس کے پیچھے گیروے رنگ کی پگڑی پہنے جوان سکھ بیٹھا تھا اور اس کے پیچھے کوئی مورچھل لیے کھڑا تھا۔ ہال میں چند قدم چل کر کشمیر نے پوچھا سو پچاس کا ںوٹ ہے۔ میں نے کہا نہیں پانچ سو کا ہے۔ اس نے مجھے سو روبل کا نیا نوٹ دیا اور ایک جیب سے نکال کر خود پکڑ لیا۔
میں نے پوچھا اس کا کیا کرنا ہے۔ بولا چپ کرکے چل۔ گرنتھ والے چبوترے سے نیچے ڈیڑھ ضرب ڈیڑھ میٹر کا، نو انچ اونچا، شیشے سے بنا ایک اور جبوترہ تھا، جس کے شروع میں ریخ بنی تھی۔ چبوترے سے آگے ایک دری یا گدے پر ہر طرف سے اڑسی سفید براق چادر تھی۔ میں پہلے ہی ڈر گیا، میں نے کہا کہ میں کوئی متھا وتھا نہیں ٹیکوں گا۔ کشمیر سپاٹ لہجے میں بولا، "توں ناں ٹیکیں"۔ ہم دونوں نے نوٹ جھک کر ریخ میں اڑسے، جہاں پہلے سے نوٹ اڑسے ہوئے تھے۔ کشمیر نے ہاتھ جوڑے اور میں نے تھوڑا سا سر جھکا لیا۔ وہاں سے بائیں جانب کونے میں بنے ایک اور حجرے میں ایک اور گرنتھ تھی جہاں مستقل پاٹھ ہوتا ہے۔
کشمیر نے وہاں بھی ماتھے تک لے جا کر ہاتھ جوڑے اور چبوترے والی گرنتھ کے پیچھے سے گزرتے ہوئے ایک طرف مردوں بیچ آ کر بیٹھ گئے۔ ابھی لوگ کم تھے۔ دوسری جانب عورتیں تھیں۔ البتہ ماتھا سبھی کے سامنے وہ بھی اسی چادر پر آ کر ٹیکتی تھیں۔ مجھے کچھ سوجھ رہا تھا لیکن موقع نہیں تھا۔ ادھر ادھر لوگ تھے۔ کشمیر اکثر مجھے کہتا ہے کہ تم مسلمان سب کے سامنے پچھواڑہ اٹھا دیتے ہو۔ یہاں تو سکھ لڑکیاں اور عورتیں بھی سبھوں کے سامنے وہی کر رہی تھیں۔
مجھے حیرت اس بات پر ہو رہی تھی کہ کچھ روسی لڑکیاں بھی اپنے بچوں کے ساتھ سر پہ پگڑی نما ٹوپی سی پہنے بیٹھی تھیں۔ جاپ کے وقت تو کشمیر بھی حیران ہوگیا کہ بانی جو پنجابیوں کے لیے بولنی مشکل ہے، وہ اسے ہل ہل کے پڑھ رہی تھیں۔ اسی طرح میں نے دو چار خالص روسی نوجوانوں کو بھی سکھوں کے روپ میں تمام رسوم ادا کرتے دیکھا۔ کابلی سکھ واقعی نرم خو ہیں، تو انہوں نے روسی الہڑ لڑکیوں کے دل موہ لیے ہونگے اور انہیں اپنے سانچے میں ڈھال لیا ہوگا۔
جب خاصے لوگ جمع ہو گئے تو نارنجی پٹکوں والے تین سکھ ایک طرف بنے چبوترے پر دو ہارمونیم اور طبلے کے سامنے آ کر بیٹھ گئے۔ درمیان میں بیٹھے سکھ نے بہنوں اور ماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آج آپ ہمارے ساتھ ایسے بیٹھی ہیں تو یہ بابا گورونانک کی دین ہے کیونکہ ان سے پہلے عورتوں سے متعلق رویہ بہت خراب تھا۔ راجے مہاراجے پیدا کرنے والی کو پاؤں کی جوتی کہا جاتا تھا، تو ہم آپ سے متعلق بابا کی گوربانی سے شروع کرتے ہیں اور انہوں نے گانا شروع کیا: " اس کو برا کیوں کہیں جس نے راجے پیدا کیے"۔۔ میں نے کشمیر کے کان میں کہا، " یار، ٹھیک ہے تب راجہ ہوتے تھے، مگر اچھا ہوتا اگر انسان پیدا کیے، کہا جاتا"۔ کشمیر نے سرگوشی میں کہا، " او ماما ہیر دیا، چپ کرکے بیہہ"۔
پڑھنے والے گوربانی پڑھتے رہے۔ لوگ آتے رہے، ماتھا ٹیکتے رہے۔ عورتیں عورتوں کی جانب اور مرد مردوں کی جانب۔ عورتیں سامنے تھیں، وہی ہماری لڑکیوں اور عورتوں جیسی لڑکیاں اور عورتیں، وہی سروں پر دوپٹے، وہی شلواریں قمیصیں۔ وہی ہمارے بچوں کی طرح شرارتیں کرتے بھاگتے دوڑتے ہمارے بچوں ایسے بچے۔ مذہب مختلف ہوا تو کیا ہوا؟ کیا ہوتا اگر پورا پنجاب، ادھر آ جاتا، شاید قتل و غارت نہ ہوتی۔ اب سکھوں کے بڑے مقدس مقامات پاکستان میں ہیں اور ہم دونوں جانب کے لوگوں کے دلوں میں دکھوں کی پرخاش۔ یہی سوچ رہا تھا کہ کشمیر نے کہا، باہر نہ ہو آئیں۔
ہم دونوں بوڑھے جوڑوں کے درد والے گھٹنے سنبھالتے اٹھے اور ہال سے نکل گئے۔ باہر چائے دی جا رہی تھی، گھر کی بنی بالوشاہیاں اور کوئی اور میٹھا پکوان دھرا تھا۔ ہم نے ایک سکھ لڑکی کے ہاتھ سے گرم دودھ پتی کے شیشے کے گلاس پکڑے اور ایک ایک بالو شاہی اٹھا کر دوسری طرف بنے کچن کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ اس طرف بھی اتنا ہی بڑا ہال تھا جس سے ہم نکلے تھے۔ میں نے پوچھا یہ کس لیے تو کشمیر نے کہا یہاں لنگر تقسیم ہوتا ہے۔
میں نے جا کر دو اور بالوشاہی اٹھائی، ایک کشمیر کو دے دی۔ چائے پی، بالو شاہیاں کھا گلاس ان نوجوانوں کو دے دیے جو تین مختلف تسلوں میں مختلف محلولوں اور صاف پانی سے گلاس دھو رہے تھے۔ ہم دوبارہ آ کر بیٹھ گئے۔ سوا سات بج گئے تھے۔ اب امرتسر سے آئے گوربانی پڑھنے والے جن کی پگڑیاں گہری نیلی تھیں ہارمونیم طبلے والے چبوترے پر چڑھے۔ بیچ کے بوڑھے مغنی نے اردو میں بات چیت کرنا شروع کی۔ بابر کے عہد کو ستم کوش کہنے کی بجائے ستم ظریفی کا بازار گرم کہنے والا کہہ گیا۔ میں نے کشمیر کے کان میں کہا، "اوئے یہ مغلوں کے خلاف باتیں کرنے والا تو اردو بول رہا ہے"۔
کشمیر نے سرگوشی میں کہا، "اسے پتہ چل گیا ہوگا کہ مرزا آیا ہوا ہے"۔ ساتھ ہی بتایا کہ یہ بہت اچھا پڑھتا ہے۔ واقعی اس کی آواز بہت پاٹ دار تھی اور وہ سنگیت سیکھا ہوا شخص تھا۔ لوگ اس کے ساتھ ساتھ پڑھ رہے تھے۔ ہال کھچا کھچ بھر گیا تھا۔ بیشتر لوگ بغیر داڑھی مونچھ کے تھے۔ غالبا" ہندو تھے کیونکہ گورونانک کی وہ بھی قدر کرتے ہیں۔ گوربانی پڑھنے والے گا رہے تھے، " انہوں نے حاجیوں سے کہا، کہ اچھا وہ جس کے اعمال اچھے۔ " باتیں تو گرونانک کی اچھی تھیں۔ اچھی کیوں نہ ہوتیں وہ بھگتی تحریک کے کبیر داس سے متاثر تھے اور ان کی گرنتھ میں بہت زیادہ اشعات بابا فرید شکر گنج کے بھی ہیں۔
حبس ہو چکی تھی۔ میں نے سوچا چپکے سے باہر ہو آتا ہوں۔ لیکن کھڑکی تک ہی پہنچا تھا کہ بیٹھنے کے ایک سٹول کی جانب اشارہ کرکے ایک شخص نے مجھے بیٹھنے کو کہا۔ میں مروت میں بیٹھ گیا۔ کھڑکی کھلی ہوئی تھی۔ حبس نہیں تھی مگر کھڑکی میں سپیکر تھا۔ میں ایک کان بند کرکے بزرگ سکھ کا لحن سنتا رہا۔ وہ پھر اردو بولنے لگا اور عورتوں کو کہا کہ بچوں کو شور کرنے سے نہیں روکتیں، دنیا سے شور ہی ساتھ لے کر جاؤگی۔ غصے میں کہی باتوں کی پھر معافی بھی مانگ لی۔
میں ایک بار پھر کشمیر کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ اتنے میں ایک خوش شکل بلند قامت بزرگ، ٹائی سوٹ میں ملبوس، کچھ بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ آتا۔ گردوارہ پربندھ کمیٹی کا منتظم ساتھ تھا۔ اس شخص کو بھی ستون کے ساتھ ایک سٹول رکھ کر اس پر بٹھا دیا گیا۔ کشمیر نے بتایا کہ یہ افغانستان کے سفیر ہیں۔ مجھے بھی یاد آ گیا کیونکہ میری ایک تقریب میں ان سے سلام دعا ہوئی تھی۔ اعلان کیا جانے لگا کہ ہم میں "ذلالت مآب۔۔ " موجود ہیں، جن کے ہم شکر گذار ہیں۔ اگر کوئی بنگالی کہتا تو سمجھ آتی مگر پنجابی جلالت مآب کو ذلالت مآب کہہ رہا ہے۔ خیر میں خاموش رہا اور بہت سے افغانی بھی چپ رہے۔
میں کشمیر سے اجازت لے کر ایک بار پھر سانس لینے کو حال سے نکلا۔ اب نہ چائے والی جگہ خالی تھی اور نہ ہی دوسرا ہال جو مردوں سے بھرا ہوا تھا اور کچھ عورتیں بھی تھیں۔ مجھے خدشہ ہوا کہ اگر کچھ دیر اور کھڑا رہا تو داخل ہونا مشکل ہو جائے گا۔ میں جا کر پھر بیٹھ گیا۔ اس بار مجھے بالکل آگے بیٹھنا پڑا۔ میرے سامنے ایک شخص ٹافیاں، چاکلیٹ اور چنے کے دانے ایک تھال میں مکس کر رہا تھا۔ ، سبرامنیم، سفیر محترم، افغان برادری کے صدر کے بعد کشمیر سنگھ تنظیم ہندوستانی سماج کی جانب سے تقریر کرنے گیا تو اس نے اپنے سکھ پیدا ہونے کا حق ادا کیا۔ شروع میں واہے گرو دا خالصہ، واہے گرو دی فتح کہا اور پھر تقریر کی۔ بعد میں ایک آدمی نے کھڑے ہو کر، ہم سب بھی کھڑے ہو گئے، دعا کی طرح کی کوئی رسم ادا کی۔ پھر سب بیٹھ گئے اور وہ شخص چبوترے کی ہماری جانب والی سمت میں ایک طرف بیٹھ گیا۔
ایک بار پھر شکریہ ادا کیا جانے لگا۔ سفیر افغانستان کو ایک بار پھر "ذلالت مآب" کہا گیا۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے کشمیر سے گلہ کیا۔ اس نے کہا شاید ہندی کا اثر ہے جیم کہہ نہیں سکتے آجکل۔ میں ڈٹ گیا کہ کیا پنجابی پنجاب کو پنزاب کہے گا۔ کشمیر لاجواب ہو کر چپ ہوگیا۔ پھر کان میں کہا، اب پرشاد دیں گے دونوں ہاتھوں میں لینا، ایک ہاتھ آگے نہ کر دینا۔
اتنے میں جینز والے پانچ چھ نوجوان سکھ، اس شخص کی طرف لپکے اور ساتھ پڑے گیروے رنگ کے مفلر نما چادریں اپنے ناک منہ پر لپیٹ لیں۔ اس شخص نے اپنے آگے دھرا ایک کپڑا اٹھایا جس کے نیچے بڑی پرات میں سوجی کا حلوہ تھا جو اس نے تھالوں میں بھر بھر کے ان نوجوانوں کو دینا شروع کیا۔ انہوں نے مستعدی سے بکھر کر پرشاد بانٹنا شروع کر دیا۔ ایک نوجوان مجھ تک بھی پہنچ گیا جس نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے حلوے کا ایک نوالہ اٹھایا، میں نے حسب ہدایت دونوں ہتھیلیوں کو جوڑ کر بنایا پیالہ اس کے آگے کر دیا۔ اس نے گرم تر نوالہ اس میں رکھ دیا۔
میرے نزدیک کوئی جگہ نہیں تھی کہ میں پرشاد کو ادھر ادھر کرتا کیونکہ چاہے ہاتھ دھلے ہوئے کیوں نہ ہوں کسی کے ہاتھ سے دیا نوالہ میرے لیے نگلنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے تاہم میں نے اسی طرح اس نوالے کو ہاتھوں کے پیالے سے براہ راست حلق میں منتقل کر دیا۔ پھر ایک اور ٹولی نے ہتھیلیوں سے بنے پیالے میں موتی چور کا ایک منا سا لڈو رکھ دیا۔ لڈو کے ساتھ بھی میں نے وہی سلوک کیا۔ تیسرے شخص نے اسی پیالے میں ایک میٹھی گولی، ایک چاکلیٹ اور چنے کے چند دانے رکھ دیے۔ اب میں نے اس نیاز کو بائیں ہاتھ میں پکڑا اور دائیں ہاتھ سے چن کر دانے کھا لیے، جن میں سے دو گر گئے۔
ظاہر ہے میں تو زمین پر گری چیز اٹھا کر کھاتا نہیں۔ ساتھ ہی ایک سنجیدہ سا اچھے لباس میں ملبوس سکھ بیٹھا ہوا تھا (جب میں سکھ کہتا ہوں تو کیس اور پگڑی والا شخص مراد ہوتا ہے، ویسے تو کشمیر بھی سکھ ہے جس نے کیس اور پگڑی کو ایک عرصے سے چھوڑ دیا ہوا ہے) جس نے میری طرف اپنی ہتھیلیوں کا پیالہ کر دیا۔ میں سمجھا، میرے ہاتھ میں دبی میٹھی گولی یا چاکلیٹ کا متمنی ہے، مگر اس نے آنکھ کے اشارے سے میرے آگے قالین پر گرے دو دانوں کو اٹھا کر دینے کو کہا۔ میں نے پوچھا اٹھا کر دے دوں، اس نے سر ہلایا اور کہا گرایا تو نہیں کرتے۔ میں نے دانے اس کو دیے اور کہا جی مجھے معلوم نہیں تھا۔
میں ایک بار پھر گرمی اور حبس کی وجہ سے ہال سے باہر نکل گیا۔ کھڑکیاں کھولتے یا اے سی چلائے جاتے تو ان کے نزدیک بیٹھے لوگوں کے لیے مسئلہ ہوتا۔ مگر میں چند منٹ بعد ہی لوٹ آیا۔ اعلان مسلسل ہوتے رہے جن میں چندہ کی رقم اور دینے والوں کے نام بتائے جا رہے تھے، ساتھ ہی شکریہ بھی ادا کیا جاتا تھا۔ حلوہ دینے والا شخص پھر مائک کے سامنے کھڑا ہوگیا اس کا چہرہ گرنتھ کی جانب تھا۔
میں کشمیر کو کچھ کہنے ہی والا تھا کہ دانے مانگنے والے نے کہا، "جی اب پاٹھ ہونا ہے" یعنی ایک طرح سے مجھے منہ بند رکھنے کو کہا تھا۔ اب کی بار تو مائک پر کھڑے شخص نے بہت دیر لگا دی۔ کسی بات پر جس کا مجھے علم نہیں ہو سکا سب جھک کر فرش چھوتے اور ہاتھ ماتھے تک لے جاتے سیدھے ہو جاتے۔ میں کیا کرتا؟ میں تھوڑا سا جھکتا اور سیدھا ہو جاتا۔ پاٹھ ختم ہونے کے بعد ہمارے پیچھے سے لوگ ہٹنے لگے تھے۔ کشمیر نے مجھے کہا ذرا ادھر ہو لیتے ہیں۔ ہم ایک ستون کے پیچھے ایک پٹ کھلی کھڑکی کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ ابھی تقریب جاری تھی۔
نارنجی پگڑی والے نے اب جا کر باقاعدہ گرنتھ کے صفحے پلٹ کر پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ اب تھالوں میں وہ چادریں اور اشیاء رکھی گئیں جو چڑھاوا چڑھائی گئی تھیں، لوگوں نے تھال سر پر اٹھا لیے کچھ مور چھل جھلتے ان کے پیچھے ہولیے، انہوں نے گرنتھ کا چکر کاٹا اور مستقل پاٹھ کے پاس جا کر کھڑے ہو کر کچھ پڑھا۔ ایک دو بار پھر جھک کر زمین چھونے اور سیدھا ہونے کا عمل دہرایا گیا۔ میں نے کشمیر سے کہا، "یار یہ تو ختم ہی نہیں کرتے"۔
اس نے ہنس کر جواب دیا بس ختم ہونے کو ہے۔ اب لوگوں نے قطاروں میں بیٹھنا شروع کر دیا۔ ہم بھی ایک قطار میں بیٹھ گئے۔ نوجوانوں نے پلاسٹک شیٹ لا کر بیچ میں بچھا دی۔ ایک لڑکا تھالی دیتا گیا، جس میں ایک بڑا اور تین چھوٹے حصے تھے۔ تھالی تازہ دھوئی ہوئی تھی، اس پر پانی لگا ہوا تھا۔ کشمیر نے جیب سے رومال نکالا اور اپنی تھالی صاف کر لی۔ میرے پاس صاف رومال وہی تھا جو سر پر تھا۔ میں نے کشمیر سے کہا، رومال اتار کے تھالی صاف کر لوں۔ اس کا قہقہہ چھوٹ گیا۔ اس نے کہا، " نہ، نہ، نہ"۔
ہمارے سامنے دو عورتیں اور دو بچیاں آ کے بیٹھ گئیں۔ میں نے ہاتھ میں پکڑی چاکلیٹ ایک بچی کو دے دی۔ میرے بعد کشمیر نے بھی دوسری بچی کو دے دیں۔ اب واہے گرو واہے گرو کہتے ہوئے لوگ آ گئے۔ ایک چاول کا ایک ایک چمچ سینی سے اٹھا کر تھالیوں میں ڈالتا گیا، دوسرے نے بالٹی سے چمچ بھر کر رائتہ ایک حصے میں ڈال دیا۔ تیسرے نے دال بالٹی سے نکال ڈال دی۔ ایک نے پنیر سبزی۔ ایک کٹی ہوئی آدھی آدھی روٹی چاولوں پر دھرتا گیا۔ پلیٹ رکھ کے کھانا محال تھا کیونکہ بانٹنے والے واہے گرو واہے گرو کہتے تھالیوں پر سے پھلانگتے پھرتے تھے۔
عورت نے بچی سے کہا، "سب کھانا ہے چھوڑنا کچھ نہیں"۔ لو جی یہ تو مسئلہ بن گیا۔ ایک تو تھالیاں گیلی تھیں، اوپر سے پھلانگتے پھر رہے تھے، تیسرے کھانا تقریبا" بے ذائقہ تھا، ماسوائے رائتے کے اور چاول کے۔ دال ثابت مسور تھی جس میں چند دانے لوبیا کے تھے۔ پنیر پیاز تھے۔ بہر حال گلے سے اتارا۔ اب دو نوجوان ایک ٹب میں بھری پلاسٹک کی ڈبیاں لے کر آ گئے، ان ڈبیوں میں کھیر تھی۔ وہ ہمیں ایک ایک دے کر چلے گئے۔ دال چاول سے بھرے چمچ سے ہی کھیر کھانا شروع کی، وہ بھی پھیکی اور بے ذائقہ تھی۔ یہ پوری نہیں کھائی جا سکتی تھی۔
میں نے ڈبیہ بند کرکے کشمیر کے حوالے کر دی اور ہم ہال سے نکلنے کے لیے لوگوں کی بھیڑ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ باہر تو نکل گئے لیکن سیڑھیوں کے لیے دروازے سے نکلنا ممکن نہیں تھا۔ رش بہت زیادہ تھا اور سارا مذہبی ڈسپلن ہوا ہو چکا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کو دھکے بھی دے رہے تھے۔ ہم پھر ہال میں جا کر بیٹھ گئے۔ دو بار پھر نکلے لیکن ہال کے دروازے پر کھڑے سکھوں نے ہمیں منت کرکے واپس ہال میں بھیج دیا۔ بالآخر ہم تنگ آ گئے اور دروازے پر کھڑے سکھوں نے بھی کچھ نہیں کہا۔ لوگ وہی طریقہ اختیار کرتے تھے، کوئی کار کی چابی دکھا کے کہتا کہ میری گاڑی سڑک پر کھڑی ہے۔ کوئی دو عورتوں یا بچوں کو لے آتا کہ ہمیں جانے دو۔
بڑی تھگ و دو کے بعد میں تو نکل گیا۔ اب کپڑے جوتوں والی جگہ اور دروازے کے درمیان راستے بیچ دو نوجوان ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہوئے تھے تاکہ لوگوں کو ترتیب سے جانے دیں۔ لوگ انہیں حربوں سے نکل رہے تھے۔ کوئی کہتا کہ ہم نے تو جوتے کپڑے لینے ہی نہیں۔ بالآخر ان نوجوانوں نے مجھے رہا کر دیا۔ میرے پاس جو ٹوکن تھا، اس سے مجھے اپنا اور کشمیر کے کوٹ ہی مل سکے۔ میں ٹھنڈی سیڑھیوں پر کھڑا۔ پھر نچلے پیڑے پر بکھری جوتیوں کے پاس کھڑا رہا۔ اوپر سے لوگ کہتے، " انکل نکل جائیں، راستہ خالی کریں" میں نے بھی بلند آواز سے کہا، " جوتیوں کے بغیر ہی نکل جاؤں، کشمیر سنگھ کو چھوڑو۔ جس پر کشمیر کو نکالا گیا۔ وہ جوتے جرابیں لے کر پیڑے پر پہنچا۔ ہم نے وہیں کھڑے کھڑے جرابیں، جوتے اور کوٹ پہنے اور پونے بارہ بجے باہر نکلے تو سانس میں سانس آئی اور میں نے کشمیر سے کہا کہ آخر میں تو رش کی وجہ سے واہے گرو، ہائے گرو میں بدل گیا تھا۔
اترتے ہوئے ایک اور واہے گرو کہنے والے نے ایک ایک تھیلی میں دو نارنگیاں، ایک سیب اور ایک جوس کا چھوٹا پیکٹ ہم سب لوگوں کو دیا۔ کشمیر کو تعظیم میں شرپا دیا گیا تھا یعنی ایک گیروے رنگ کی چادر اور ایک کریم کلر اونی چادر، میں نے اونی چادر لے لی اس سے اور اس پر قبضہ کر لیا۔