Thursday, 21 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mojahid Mirza
  4. Aaiye Oxford Aur Cambridge Chalte Hain (3)

Aaiye Oxford Aur Cambridge Chalte Hain (3)

آئیے آکسفرڈ اور کیمبرج چلتے ہیں (3)

ریل گاڑی میں داخل ہوا تو مناسب ڈبہ اور مناسب نشستیں تھیں۔ نشست کے اوپر سر والے کور پر لکھا تھا، " فرسٹ کلاس" اوہ تو یہ فرسٹ کلاس ہے۔ میری بات پر کان پڑتے ہی بوڑھے انگریز نے بوڑھی بیوی سے کہا یہ تو فرسٹ کلاس کا ڈبہ ہے۔ اندر ہی اندر چلتے جب "غیرطبقاتی" ڈبے میں پہنچے تو چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں کھلی ہوئیں یعنی اے سی نہیں تھا، اگرچہ گرمی تھی۔ سامان رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ آج ندیم سعید نے رک سیک میں چھتری کے علاوہ ڈرائی فروٹ اور پستے کے پیکٹ رکھ دیے تھے، ارتقاء نے اس میں ایک لٹر اورنج جوس کا ڈبہ اڑس دیا تھا۔ کیونکہ میں آکسفرڈ جاتے ہوئے پاور بینک بھول گیا تھا اس لیے ندیم نے پاور بینک بھی چارج کرکے ڈال دیا تھا۔ میں ہلکی جرسی پر بھاری جیکٹ پہن کر نکلا تھا۔ وہ جیکٹ بھی اتار کے دھرنی تھی۔ شکر ہے لوگ نہیں تھے۔ سیٹوں کے کور پر گرد تھی اور سیٹ کور نیچے یا اوپر سے کہیں سے ادھڑے اور کہیں سے پھٹے ہوئے تھے۔ مجھے لگتا تھا ٹکٹ والی نے سترہ پاؤنڈ والا ٹکٹ غلطی سے ساڑھے بائیس پاؤنڈ میں دے دیا تھا۔

آکسفرڈ جاتے ہوئے راستے میں دو شہر سلاؤ اور ریڈنگ آئے تھے، جہاں گاڑی رکی تھی مگر یہ کیمبرج جانے والی طبقاتی اور غیر طبقاتی گاڑی ہر دیہاتی سٹیشن پر رک رہی تھی۔ اطراف میں لینڈ سکیپ ویسے ہی تھا جیسے پنجاب کا ہے۔ کھیتوں کے قطعے اور باغ۔ کچھ کچھ گرمی کے سبب مجھے باغ بھی آموں کے لگ رہے تھے، اگرچہ وہ شاید سیب یا کسی اور پھل کے ہوں یا یہ کہ باغ ہوں ہی نہ بس درخت ہوں۔ سب سے پہلے جو بڑی عمارت دکھائی دی اس پر موٹے حروف میں کیمبرج یونیورسٹی پریس لکھا ہوا تھا اور اگلی ماڈرن عمارت پر دوائیوں کی کمپنی اسٹرا زینکا۔ گاڑی رک گئی تھی۔ میں ڈبے سے نکل کر ایک پرانے سے سٹیشن سے باہر نکل گیا تھا، جس کے سامنے ٹائلوں کے فرش والا ایک بڑا سا میدان تھا اور اس کے پار بڑی بڑی ماڈرن عمارات۔

سٹیشن کے سامنے ایک چھوٹا سا کھلا سٹال تھا جس پر انگریزی میں " معلومات" لکھا تھا۔ وردی میں ملبوس عورت ایک جوان چینی جوڑے سے بات کر رہی تھی۔ جونہی وہ ان سے فارغ ہوئی، میں نے کہا کہ کیا آپ مجھے معلوماتی کتابچہ دے سکتی ہیں۔ وہ بولی میں نقشہ دے سکتی ہوں۔ نقشہ نکالا تو میں نے پوچھا کہ تین معروف کالج کہاں ہیں؟ اس نے ایک جگہ پر قریب قریب نشان لگا دیے۔ اس عورت کا لہجہ کچھ عجیب تھا، میں نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ اطالوی ہے۔ اس سے پوچھا دریا بھی وہیں ہے کیونکہ ندیم سعید نے کہا تھا کہ دریا کے کنارے بید مجنوں کے بہت سے درخت ہیں۔ ایسے بہت سے درخت میں نے ہالینڈ کے شہر ہیگ میں دیکھے تھے جن کی پانی کو چھوتی ہوئی نیچے کی جانب آتی نازک شاخین بہت بھلی معلوم ہوتی تھیں۔ اس نے کہا، ہاں نزدیک ہی ہے۔ اس کے ساتھ شکریے کے طور پر ایک تصویر بنوائی اور میدان پار کر لیا۔

ہلکے گدلے سبز شیشوں والی بڑی سی عمارت کے سامنے سڑک کے پار کھپریل کی جھکی ہوئی چھتوں والے قدیم مکانات تھے جن کی دیواروں پر چڑھی بیلوں کے پتے خزاں سے قرمزی ہوئے بہت بھلے لگ رہے تھے۔ ان کے سامنے سرخ اینٹوں کی ایک کوتاہ سی دیوار تھی جو تصویر بنانے میں رکاوٹ تھی۔ ان مکانوں کے سامنے طلبا طالبات آ جا رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ یہ طلباء کی رہائش گاہیں ہیں۔

جب میں دوسرے چوک میں پہنچا تو کئی سڑکیں تھیں۔ اس پار ایک پارک تھا جس پر کیمبرج یونیورسٹی بوٹینیکل گارڈن لکھا ہوا تھا۔ داخلہ فیس 16 پاؤنڈ تھی۔ پاکستانی روپے خود بنا لیں۔ فوری طور پر اتنا ٹکٹ لے کر نباتات دیکھنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں نے راہ چلتی بظاہر ایک ہندوستانی خاتون سے دریا سے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا کہ بس لے لیں۔ میں نے کہا کہ نہیں میں پیدل ہی معروف کالج دیکھنا چاہتا ہوں، وہاں پیدل جایا جا سکتا ہے نا؟ اس نے کہا جایا کیوں نہیں جا سکتا لیکن دور ہیں۔ اس نے بوٹینیکل گارڈن کے ساتھ والی سڑک پرمڑنے اور جہاں سڑک تمام ہو پھر دائیں کو مڑ جانے کا مشورہ دیا۔ سڑک پر مڑ کرکے تھوڑی دور چلنے کے بعد میں نے ایک نوجوان سے تصدیق چاہی۔ اس نے انتہائی مہذب طریقے سے جواب دیتے ہوئے بتایا کہ آپ درست جا رہے ہیں۔ ایک جگہ سڑک تو تمام نہ ہوئی لیکن متوازی سڑک خاصی بڑی تھی۔ وہاں سے ٹائیوں میں ملبوس تین نوجوان جا رہے تھے جو دفاتر کے اہلکار لگتے تھے۔ ان سے پوچھا تو انہوں نے پہلے آپس میں مشورہ کیا، پھر پہلے شخص کی طرح بہت مہذب انداز میں بتایا کہ آپ سیدھے جا کر دائیں ہاتھ مڑیں اور پھر سیدھے چلتے جائیں۔

دائیں ہاتھ مڑ کر میں چلتا چلا گیا۔ میں نے دیکھا سڑک کے پار بڑے بڑے ستونوں والی ایک عمارت ہے جس کے ایک طرف پتھر سے ترشے بڑے بڑے دو ببر شیر دو دیواروں پر بیٹھے ہیں مگر شیر دیوار کے اس جانب تھے۔ میں نے سڑک پار کی اور اس عمارت میں داخل ہوگیا۔ بہت سے زینے چڑھ کر اوپر پہنچا۔ یہ شہر کا بڑا عجائب گھر تھا۔ داخلے سے پہلے ایک بہت زیادہ اونچی چھت والا بہت ہی بڑا برآمدہ تھا جس میں دروازے سے ہٹ کر ادھر ادھر سیمنٹ اور پتھر سے بنے دو بنچ تھے۔ بائیں طرف آخر میں نیچے باغیچے میں جانے کی سیڑھیاں تھیں اور ان سیڑھیوں کے اطراف کی دیواروں پر ہی ببر شیر دھرے تھے۔ میں نیچے اترا۔ شیروں کی تصویر بنائی کہ ایک سیاح بڑھیا بھی پہنچ گئی۔ اس سے میں نے درخواست کی کہ تین ببر شیروں کی تصویر بنا دیں۔ تیسرا ببر شیر پتھر سے ترشے شیروں کے درمیان مگر زمین پر کھڑا میں تھا۔ بڑھیا تین ببر شیروں والی بات پر محظوظ ہوئی اور اس نے بہت اچھی تصویر بھی بنا دی۔ میں حیران ہوا مگر پھر خیال کیا کہ بڑھیا کوئی ہمارے پاکستان کی بڑھیا تھوڑا نہ تھی۔

گھاس والے ایک تختے پر کوئی سرریئل قسم کا سٹرکچر بھی تھا مگر جب سمجھ ہی نہ آئے تو تصویر کیا لیتا چنانچہ پھر شیروں والی سیڑھیاں چڑھا، بنچ پر بیٹھ کر پستہ کھایا اور اورنج جوس کے گھونٹ بھرے۔ جس کے بعد نیچے اتر کر پھر چلنا شروع کر دیا۔ اب ایک بہت بڑا قدیم گرجا سامنے تھا۔ اس کی ایک دو تصویریں لینے کی کوشش کی اور چلتا گیا۔ آگے کیمبرج کا سب سے بڑا کالج کنگز کالج آ گیا۔ یہ تعمیر کا ایک خوبصورت اور دلچسپ نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ وسعت میں بہت بڑا بھی ہے۔

اس کے دروازے کی جانب گیا تو وہاں لکھا تھا کہ سیر کرنے والوں کا داخلہ منع ہے۔ پھر بھی دو قدم آگے بڑھ کر بے وردی انگریز دربان سے استفسار کیا تو اس نے کہا کہ کیمبرج یونیورسٹی سنٹر جائیں۔ میں سڑک کے اس طرف گیا۔ ایک گلی میں گھستا گیا۔ وہاں چھوٹے چھوٹھے کیفے تھے اور ایک پرانی کتابوں کی چھوٹی سی دکان جس میں ایک ڈیسک کے پیچھے بیٹھا ادھیڑ عمر مرد کسی کتاب میں گم تھا۔ میں نے لندن پہنچتے ہی ندیم سعید سے کہا تھا کہ اس بار میں سیکنڈ ہینڈ کتابوں کی دکان میں ضرور جاؤں گا۔ ندیم نے مجھے کیمبرج بھیجتے ہوئے بتایا تھا کہ وہاں آپ کو پرانی کتابوں کی کئی دکانیں ملیں گی۔ اس دکان میں پرانی کتابوں کی قیمت آسمان کو باتیں کرتی ہوئی تھی یعنی ڈیڑھ سو سے چار سو پاونڈ فی کتاب۔ کتابیں وہی تھیں جو میں دس دس ڈالروں میں پڑھ چکا ہوں۔ یہ شاید اولیں ایڈیشنز تھے ان کے۔ میں دکان سے نکل آیا اور ساتھ بنی ایک ماڈرن عمارت کے اندر چلا گیا، جہاں بیٹھی ایک طناز نے بتایا کہ کیمبرج یونیورسٹی سنٹر گلی کے آخر پر دائیں جانب ہے۔ اس میں کیمبرج سے متعلق سوغاتیں بک رہی تھیں۔ کالج میں داخل ہونے کی فیس 16 پاؤنڈ تھی۔ شاید میں دل پر ہاتھ رکھ کے دے بھی دیتا مگر کالج میں داخلے کا وقت تمام ہو چکا تھا۔ میں ہمیشہ کی طرح دیر کر چکا تھا مگر یہ کالج باہر سے بھی اتنا شاندار اور دلکش ہے کہ اندر نہ جانے کا ملال نہیں ہوا۔

کالج کے آخر پر ایک گلی کے بعد دو رویہ دکانوں والا شہر شروع ہو رہا تھا۔ میں نے ادھر جانے کا سوچا مگر سنٹر سے دوسری دکان پر ہی اس کے اندر کا منظر دیکھ کر رک گیا۔ سفید سنگ مرمر کی اونچی میز پر بکھرے سنہری شہد کے سے مواد کو ایک شخص لوہے کے کھرچے سے ادھر ادھر کر رہا تھا۔ ساتھ ہی تانبے کی ایک ناند پڑی تھی۔ باہر لکھا تھا " فج "۔ فج ٹافی کی جدید شکل سے پہلے والی ٹافی ہوتی ہے جو مجھے پسند ہے۔ اسے بنتا دیکھنا بہت دلچسپ لگا۔ دکان چھوٹی تھی اور دیکھنے کے شوقین زیادہ۔ میں نکل آیا، تھوڑا سا دو رویہ دکانوں والے حصے میں اندر گیا مگر یاد آیا کہ کالج کی آخری گلی کے ساتھ لکھا تھا " دریا کی جانب "۔ بس اس میں چلنا شروع کر دیا۔ بائیں ہاتھ ہی دوسرا معروف کالج ٹرینیٹی کالج تھا۔

گلی کیا تھی خواب تھی۔ ویسی ہی جیسی قدیم پینٹنگز میں ہوتی ہے، پتھروں کے فرش والی۔ ادھر ادھر زرد پتھروں کی ممٹیوں والی عمارتیں۔ بہت آگے ابھرا ہوا پل دکھائی دے رہا تھا۔ یقیناََ وہی دریا تھا۔ کتابچے میں "پل آہ" کا اندراج تھا شاید یہ وہی پل تھا۔ اس پل سے تھوڑا پہلے ایک کھلے در کے باہر کرسیاں ڈال کر چند قوی مرد بیٹھے ہوئے تھے ساتھ ہی ایک پتھر پر لکھا تھا "پنٹس کرائے پر"۔ میں نے بیٹھے ہوئے مردوں سے پوچھا بھائی یہ پنٹ کیا شے ہے۔ ان میں ایک بولا کشتی، دوسرے نے کہا کہ روایتی قدیم کشتی کو پنٹ کہتے ہیں۔ پل پر چڑھا تو کئی پنٹوں پر سیاح سیر کر رہے تھے۔

پل کے ایک طرف نئی عمارت تھی جو لائیبریری تھی، جس کے شیشوں کے پیچھے نوجوان کتابوں پر جھکے دکھائی دے رہے تھے۔ لائیبریری سے اس طرف پتھروں سے بنی دریا سے جڑی دیوار پر بھی ٹانگ لٹکائے بیٹھی ایک لڑکی پڑھ رہی تھی۔ شکر ہے دونوں ٹانگیں دریا پر نہیں لٹکائی تھیں۔ ممکن ہے اونگھ سے چھپاک کرکے پانی میں جا گرتی۔ جس دیوار پر وہ بیٹھی تھی اس کے دوسری طرف بنچوں پر بھی لڑکے لڑکیاں بیٹھے یا تو پڑھ رہے تھے یا باتیں کر رہے تھے۔

بارش زیادہ نہ ہونے کے سبب پانی سے ہلکی ہلکی بساند اٹھ رہی تھی۔ بید مجنوں کے درخت ناپید تھے۔ راستہ ڈھونڈ کے دریا کے کنارے کنارے سیر کرنے کا ارادہ کیا۔ پل کے دوسری طرف اترا مگر کوئی راستہ نہ ملا۔ سب کالجوں کے مقبوضہ علاقے تھے۔ لوٹنے کو پلٹا تو ایک چینی جوڑا اکٹھے تصویر بنانے کو جھوجھ رہا تھا۔ میں نے انہیں ان کی تصاویر بنانے کی پیشکش کی اور بعد میں چینی پاکستانی دوستی کا ورد کیا۔

لوٹتے ہوئے ٹرینیٹی کالج کا ایک گیٹ کھلا مل گیا۔ اگرچہ داخل ہونا منع تھا مگر دروازے کے آخر تک جا کر تصویریں بنائی جا سکتی تھیں۔ احاطے کو دیکھ کر مجھے نشتر میڈیکل کالج کا "کواڈرینگل" یاد آیا اگرچہ وہ ہرا بھرا اور چھوٹا ہے جبکہ یہ چھوٹے چھوٹے پتھروں کی روشوں والا اور بہت بڑا۔ اس کواڈرینگل میں نشتر کے کواڈرینگل کی نسبت بہت کم طلباء دیکھنے کو ملے۔ شاید کالج کا وقت تمام ہو چکا تھا۔

لوٹ کے شہر آ گیا۔ وہی انسانی احتیاج کا مسئلہ۔ کئی گلیاں گھومیں مگر انسانی احتیاج رفع کرنے کا عالمی مقام میکڈونلڈ کہیں نہ ملا۔ ایک بہت بڑی دکان میں بھی داخل ہوا جہاں ڈریسنگ روم تو تھے، ریسٹ روم نہیں۔ اب لوگوں سے سٹیشن کی راہ پوچھنا شروع کی۔ لوگ حد سے زیادہ مہذب تھے۔ اس حد تک کہ میرے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار دیکھ کر ویسے ہی پوچھ لیتے تھے، " جناب آپ بالکل ٹھیک ہیں نا"۔ چلتا گیا بہت دور جا کر ایک بڑا سا پارک تھا۔ میں نے سوچا اس کے اندر سے شارٹ کٹ لیا جائے کہ وہاں سے سائیکل سوار چینی شکل والی لڑکی نکلی، میں نے اس سے پوچھا تو وہ بولی کہ یہ شارٹ نہیں لمبا راستہ ہوگا۔ آپ سیدھے ہی چلے جائیں، کوئی تین ٹریفک سگنل کے بعد بائیں مڑیں گے تو آپ کو سٹیشن کی عمارت دکھائی دے جائے گی۔ کیمبرج اور آکسفرڈ میں چینی طلباء کی بھرمار ہے۔ میں نے سوچا مارکیٹ اکانومی سے متعارف یہ جوان لوگ جب اپنے وطن لوٹیں گے تو وہاں کیا کریں گے؟

تیسرے سگنل پر بائیں جانب کچھ نہیں تھا۔ اب احتیاج بڑھ گئی۔ پہلا اچھا پب دکھائی دیا تو میں اندر گھس گیا۔ نوجوان انگریز خدمت گار نے "جی جناب" کہہ کر مقصد آمد دریافت کیا تو میں نے احتیاج رفع کرنے کی اجازت چاہی۔ اس نے بھی بہت مہذب طریقے سے خوش آمدید کہتے ہوئے سیڑھیاں اتر کر نیچے چلے جانے کو کہا۔ نیچے اتنے صاف اور پرسکون ٹوائلٹ تھے جیسے گھر پر بھی نہ ہوں۔

باہر نکل کے پھر پوچھا تو اس نے بھی تیسرا سگنل مڑنے کو کہا۔ وہاں بھی کچھ نہیں تھا تو ایک جوان خاتون سے پوچھا۔ اس نے کہا سیدھا جائیں، میں ہنس کے "اور تیسرے سگنل سے بائیں مڑ جائیں " کہنے ہی والا تھا کہ اس نے کہا اگلے سگنل سے مڑ جائیں۔ وہ سچی تھی، سامنے سٹیشن دکھائی دے رہا تھا۔ افسوس کہ اطلوی خاتون سٹال سمیت غائب تھی ورنہ میں پیدل چلوانے کا گلہ ضرور کرتا۔

میرے پاس جو ٹکٹ تھا اس سے میں لندن کے اسی سٹیشن تک جا سکتا تھا جہاں سے سوار ہوا تھا۔ چند منٹ بعد وہی منحوس پرانی ٹرین ملی اور جس کمپارٹمنٹ میں میں سوار ہوا اس میں سکولوں کے بچے بھر گئے۔ انہوں نے باتیں کر کرکے اتنا شور مچایا کہ میری تکان دوچند ہوگئی۔ میں نے دوسری طرف سامنے بیٹھی سات سالہ بچی کو دیکھا جو دو انگلیوں سے اپنی سنہری زلفیں کھینچے، منہ گول کیے، دوسرے ہاتھ میں آئی فون 5 پکڑے سیلفی بنا رہی تھی۔ میں اس کی حرکت دیکھ کر مسکرا دیا اور وہ میری توجہ دیکھ کر سنجیدہ اور نالاں دکھائی دینے لگی۔ شکر ہے تیسرے ہی سٹیشن پر تین بچوں کے علاوہ سب اتر گئے اور اس سے اگلے سٹیشن پر وہ بھی اتر گئے۔ اس سٹیشن پر کسی سکول یا کالج کی جو بڑی عمر کی لڑکیاں اتریں ان کے پیٹی کوٹ ٹخنوں تک تھے، وہ اچھی لگیں، ہمارے اندر سے پاکستانی کہیں نہیں جاتا۔ سکارف ہوتا تو اور بھی اچھی لگتیں شاید۔

متعلقہ سٹیشن پر اترا اور وہاں سے صبح کی طرح دو ریل گاڑیاں تبدیل کرکے جب ہیکنی ڈاؤن اترا تو سب باہر نکلنے کے لیے پلیٹ فارم کے آخر کی جانب جا رہے تھے۔ میں بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ اندر ہی اندر سے بہت دور چل کر ہیکنی سنٹرل سے ہی باہر نکلنا پڑا۔ میں اس قدر تھک چکا تھا کہ ایک قدم بھرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا اوپر سے ہیکنی سنٹر سے نکل کر گھر کی راہ قدرے طویل ہوگئی تھی۔ پہنچنا تو تھا ہی، پہنچا۔

ندیم سعید کے گھر کے باہر ایک بڑا سا اجتماعی صحن ہے یعنی میدان۔ میرا دل کیا وہاں چارپائی بچھی ہوتی، پیڈسٹل چل رہا ہوتا اور میں گاؤ تکیے سے ٹیک لگا کے حقہ گڑ گڑا رہا ہوتا۔ کیمبرج دیکھ کر قلق ہوا تھا کہ نہ خود ان مقامات پر پڑھ سکے نہ بچے پڑھا سکے کہ تھکاوٹ نے مجھے اپنا باپ بننے کی طرف مائل کر دیا۔ فون کے ایپ پر چیک کیا تو اس روز میں تیرہ اعشاریہ سات کلومیٹر پیدل چلا تھا مسلسل۔

Check Also

Shoaib Akhtar Ka Attitude

By Azhar Hussain Bhatti